اگلی بار اگر ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر پاکستان نہیں چلے گا، ایمل ولی خان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اگلی بار اگر ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر پاکستان نہیں چلے گا، ایمل ولی خان WhatsAppFacebookTwitter 0 2 February, 2025 سب نیوز
چارسدہ(سب نیوز)اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ہمیں12سال حکومت سے باہر رکھا، ہمیں کمزور کرنے والے ناکام ہو ئے ہیں۔
چارسدہ میں باچا خان اور ولی خان کی برسی کے موقع پر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ 1948 میں بابڑہ کے مقام پر ہمارے 600 سے زیادہ کارکنان شہید ہوئے تھے، ہمیں اپنے کارکنان پر فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ بارہ سال سے ہمیں حکومت سے باہر رکھا جا رہا ہے، ہمیں کمزور کرنے والے ناکام ہو ئے ہیں، ہم عدم تشدد کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، ہم جانتے ہیں گھی نکالنے کیلئے انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے۔
مرکزی صدر اے این پی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اسمبلی عوام سے دور بھاگتے ہیں، نو مئی کے فیصلوں سے ان کو بہت تکلیف ہوگی، آج حقیقت سننے کو کوئی تیار نہیں۔ایمل ولی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے پختونخوا کے نو حلقے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، میرا مطالبہ ہے چارسدہ کے حلقے بھی کھولے جائیں، ہمیں تین بار ہرایا گیا، یہ نہیں ہو سکتا جہاں سے جیتے خیر ہے جہاں ہار ہو وہ حلقے کھولے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلی بار اگر ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر پاکستان نہیں چلے گا، کسی کو اچھا لگے یا برا کرک میں جلسہ کروں گا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایمل ولی خان
پڑھیں:
کون بنے گا کروڑ پتی؟
بھارتی ٹی وی پر ایک پروگرام بیحد مقبول ہے جس کا نام ہے "کون بنے گا کروڑ پتی”۔ یہ پروگرام جولائی 2000 سے مسلسل نشر ہورہا ہے۔ شروع میں اِس کا سب سے بڑا اِنعام ایک کروڑ روپے تھا۔ پھر وہ بڑھ کر پانچ کروڑ ہوا۔ اَب سب سے بڑا اِنعام سات کروڑ روپے ہے۔ بھارت کے مشہور فلم اسٹار امیتابھ بچن اِس پروگرام کے میزبان ہیں۔ شروع سے وہ ہی اِس پروگرام کو چلا رہے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اِس قسم کا کوئی پروگرام کیوں ٹی وی پر نہیں چلتا جس میں لوگوں کو اْن کی معلومات جانچ کر اِنعامات دیے جائیں؟ ہمارے یہاں جس قسم کے اِنعامی پروگرام چلتے ہیں اْنھیں کوئی ذی ہوش اِنسان سنجیدہ پروگرام نہیں کہے گا۔ وہ ہلڑ بازی، دھوم دھڑکا والے پروگرام تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ ذہنی آزمائش کا پروگرام کوئی بھی نہیں چل رہا۔ کسی زمانے میں ذہنی کی آزمائش کے سنجیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے جو پاکستان ٹیلی وژن پر چلتے تھے۔ اِس کی ایک مثال پروگرام کسوٹی تھا۔ لیکن وہ بھی کوئی اِنعامی پروگرام نہیں تھا۔ اِس کے باوجود وہ بیحد مقبول تھا۔ اْس کے بعد مختلف مواقع پر مختلف پروگرام چلے لیکن بہت تھوڑی مدت کے لیے۔ پھر وہ ختم ہوگئے۔ اب ایک طویل عرصے سے پاکستان کے پچاس سے زائد ٹی وی چینلوں پر ایک پروگرام بھی اِنعامی معلوماتی پروگرام نہیں ہے۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں کسی کو یہ شوق نہیں ہے کہ قوم کے اَندر جاننے کے جذبے کو جگایا جائے۔ قوم خود بھی سوئی ہوئی ہے۔ چنانچہ معلوماتِ عامہ یا جنرل نالج کا ہمارے یہاں جنازہ نکل گیا ہے۔ وہ باتیں جو ہمیں ہمارے بچپن میں معلوم تھیں وہ آج کل کے بچوں کو گریجویشن کے بعد بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ میں نے اپنی نوکری کے دوران بیشمار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے انٹرویو کیے۔ اْنھیں مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات نہیں آتے تھے۔ یارِ غار کس کو کہا جاتا ہے؟ دریائے فرات کہاں ہے؟ سعودی عرب کے ساتھ کون سے سمندر لگتے ہیں؟ ڈاؤننگ اسٹریٹ کہاں واقع ہے؟ وال اسٹریٹ کہاں واقع ہے؟ USAکس براعظم میں واقع ہے؟ (اِس کا جواب اکثر نے یہ دیا کہ یورپ میں)۔ Scandinavianممالک کون سے ہیں؟چاند پر سب سے پہلے کس نے قدم رکھا تھا؟وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہ تمام لوگ وہ تھے جن کے پاس کم از کم سولہ سال کی تعلیم تھی۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں معلوماتِ عامہ جاننے کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے یہ نوجوان جب دِیگر ممالک میں جاتے ہیں اَور وہاں اْن کا مقابلہ بھارتی، بنگلہ دیشی یا دیگر ایشائی ممالک کے نوجوانوں سے ہوتا ہے تو ہمارے نوجوان اْن کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ چنانچہ باہر کے ممالک میں بھی ہمارے نوجوان اچھی نوکریاں نہیں لے پاتے یا اْن نوکریوں میں اْس تیزی سے ترقی نہیں کرپاتے جس تیزی سے دیگر ممالک کے لوگ ترقی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں پڑھنے اَور جاننے کا وہ رواج ہی پیدا نہیں ہوا جو دیگر ممالک میں ہے۔
کون بنے گا کروڑ پتی کے قسم کے پروگراموں نے اپنے ممالک میں لوگوں میں علم حاصل کرنے کی پیاس جگائی ہے۔ ایک ہزار روپے سے لے کر سات کروڑ روپے تک کے اِنعامات دے کر اِس پروگرام میں بھارت میں خاص طور پر نوجوانوں میں معلومات حاصل کرنے کی ایک دوڑ لگا دی ہے۔ آپ اْس پروگرام کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اِس میں نہایت غریب طبقے کے افراد بھی آئے۔ اْنھوں نے دِن رات محنت کرکے اِس کی تیاری کی اَور اچھی خاصی رقم جیت کر وہاں سے گئے۔ یہ بات یاد رہے کہ بھارت کے سات کروڑ ہمارے اکیس کروڑ سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔ گویا یہ پروگرام ایک بہت بڑی رقم اِنعام کے طور پر پیش کررہا ہے۔
اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ذہنی آزمائش کے اِنعامی مقابلوں کے پروگرام شروع کیے جائیں۔ یہ ایک طریقہ ہے لوگوں میں معلومات کو حاصل کرنے کی پیاس پیدا کرنے کا۔ ہمارے نوجوان سارا وقت سوشل میڈیا، فلمیں اَور گپیں لگانے میں ضائع کر رہے ہیں۔ جواِن سے بچ گئے ہیں وہ جرائم میں ملوث ہیں علم کی طرف رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ اور اگر اِس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دِن دْور نہیں جب ہمارے نوجوان بالکل ردی مال بن چکے ہوں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے سے قوم پڑھی لکھی نہیں ہوجاتی۔ پڑھنے لکھنے سے ہوتی ہے۔ لیپ ٹاپ یا موبائل فون معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن صرف تب جب کوئی اِنھیں اِس کام کے لیے اِستعمال کرے۔ اگر نوجوانوں کا دھیان علم حاصل کرنے کی طرف ہے ہی نہیں تو یہ لیپ ٹاپ کیا کرلیں گے؟
ذہنی آزمائش کے وہ پروگرام جو بہت بڑے اِنعام پیش کررہے ہوں لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ اِس کے ذریعے بڑی رقم جیتنے کی خواہش اَپنے اَندر پیدا کریں۔ یوں روپے کا لالچ اْنھیں پڑھنے پر مجبور کردے گا۔ بھارت میں بھی یہی ہوا ہے۔ دْوسرے ممالک میں بھی لوگوں نے اِس طرح لوگوں کو پڑھنے پر مجبور کیا۔ اِس پروگرام پر ایک مشہور برطانوی فلم بھی بنی جسے آٹھ آسکر ایوارڈ ملے تھے۔ اِس سے اِس سارے سلسلے کی مقبولیت کا اَندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کون بنے گا کروڑ پتی کی مقبولیت کا ایک اور سبب امیتابھ بچن بھی ہیں۔ جو مقبولیت اْنھیں بھارت میں حاصل ہے، جس طرح بھارتی لوگ اْنھیں پیار کرتے ہیں اَور اْن کی عزت کرتے ہیں، ہمارے پاس بدنصیبی سے اْس طرح کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ اِس سے قحط الرجال کی سنگین نوعیت کا اَندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امیتابھ بچن نے یہ مقبولیت اَور پیار مفت میں حاصل نہیں کرلیے۔ اِس کے لیے اْنھوں نے برسوں لگاتار محنت کی ہے اَور آج تک کررہے ہیں۔
میرے دوست میر صاحب قوم کا بڑا درد رکھتے ہیں۔ اْنھوں نے ساری عمر بیرونِ ملک ملازمت کے سلسلے میں گزاری۔ خلیجی ممالک میں ہمارے نوجوانوں کی جو حالت ہے وہ اْن سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اْنھوں نے بڑے دردِ دِل سے یہ کوشش کی کہ ملک میں ذہنی آزمائش کا ایک پروگرام شروع کیا جائے۔ وہ اِس کے لیے مفت میں محنت کرنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن کسی نے اْن کی نہ سنی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ اگر میر صاحب ایک سیاسی ٹاک شو کرنا چاہیں، ہلڑ بازی کا پروگرام کرنے کی خواہش رکھیں، وہ پروگرام کرنا چاہیں جس میں لوگوں کو ذلیل کرکے یا گھٹیا قسم کی جگت بازی کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا جائے تو سب اْن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ علمی پروگرام کرنے اَور اْن پر بڑے اِنعامات دینے کا کسی میں حوصلہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کتنے ہی ارب پتی لوگ موجود ہیں۔ کیا ایک شخص بھی اَیسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں دو ارب روپے دیتا ہوں، آپ یہ پروگرام شروع کریں؟ جب یہ مقبول ہوجائے تو پھر اِشتہارات کے ذریعے اِسے آگے چلا لیا جائے۔ کیا ہم اپنی دولت صرف اپنے آپ پر یا اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ہی اِستعمال کرسکتے ہیں اَور کسی کو ملک کا کوئی خیال نہیں ہے؟