’’جان دے دوں گا ،ہتھیار کبھی نہیں ڈال سکتا‘‘
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
16 اکتوبر 2024ء کی دوپہر اہل فلسطین کی مزاحمتی تنظیم، حماس کے نئے سربراہ ، اکسٹھ سالہ یحیٰی السنوار دلیری سے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے غزہ میں شہید ہو گئے تھے۔
اسرائیلی حکومت کا دعوی تھا کہ وہ زیرزمین کسی سرنگ میں اسرائیلی اغوا شدگان کے ساتھ چھپے ہوئے ہیں، گویا انھیں بزدل اور فراری قرار دیاگیا۔ مگر سچائی یہ آشکارا ہوئی کہ وہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی عسکری طور پہ اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی قوت سے جا ٹکرائے اور اس کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ حالانکہ وہ چاہتے تو غزہ چھوڑ کر جا سکتے تھے مگر انھوں نے مصیبت کی گھڑی میں اہل وطن کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور آخر فلسطین کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
یحیٰی بھی اپنے پیش روؤں کی طرح تلوار اور قلم ، دونوں کے دھنی تھے۔ انھوں نے ایک ناول لکھا اور چار عبرانی کتب عربی میں ترجمہ کیں۔ حماس کے سبھی شہید سربراہوں…شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رینتسی اور اسماعیل ہانیہ کی طرح وہ بھی جان ہتھیلی پر لیے گھومتے پھرتے تھے۔ان کو بخوبی احساس تھا کہ اسرائیلی حکمران طبقہ کسی بھی وقت انھیں نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسی لیے وہ اکثر اپنی تقریروں میں اپنی شہادت کی پیشن گوئی کرتے لہذا اہل فلسطین کے لیے یحیٰی السنوار کا شہید ہو جانا زیادہ حیرانی کی بات نہیں تھی ۔
دو دن اہم
شہید رہنما 6 اگست کو اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کے سربراہ بنے تھے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے حماس کے مجاہدین سے خطاب کیا تو اپنی تقریر میں حضرت علی ؓ کا یہ قول اہل وطن کو بتایا:’’انسان کی زندگی میں دو دن بڑے اہم ہیں۔ ایک وہ دن جب موت اس کی قسمت میں نہیں لکھی ہوتی۔ اور دوسرا وہ دن جب موت اس کی تقدیر بن جاتی ہے۔ پہلے دن کوئی ذی حس بجز اللہ کے اسے چھو بھی نہیں سکتا۔ اور دوسرے دن بجز اللہ کے کوئی بھی اس کو بچا نہیں سکتا۔ ‘‘ لہذا یحیٰی السنوار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دلیری سے ظالم اور قابض اسرائیلی حکمران طبقے کو دعوت مبارزت دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا ’’ موت تو ہارٹ اٹیک یا کورونا وائرس سے بھی آ سکتی ہے…میں میدان جنگ میں جان دینا اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا۔‘‘
خان یونس میں جنم
موت سے بھی بے خوف رہنے والے بہادر فلسطینی لیڈر،یحیٰی ابراہیم حسن السنوار نے 29 اکتوبر 1962ء کو غزہ کے علاقے ، خان یونس میں واقع ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ہنسی خوشی بیت المقدس کے قریب آباد شہر، عسقلان میں رہ رہا تھا۔ جنگ 1984ء میں اسرائیلی فوج نے اس پہ قبضہ کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ بعد ازاں شہر کے کھنڈروں پہ نئے نگر، اشکلون کی بنیاد رکھی گئی۔ خان یونس میں زندگی مشکلات سے پُر تھی۔ اسرائیل نے تین اطراف سے غزہ کو گھیر رکھا تھا اور وہاں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ لوگ چھوٹے موٹے کام کر کے جسم اور جاں کا رشتہ برقرار رکھتے۔
مسائل کے باوجود یحیٰی بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کے شوقین تھے۔ یہی وجہ ہے، اسکول کی تعلیم مکمل کر کے انھوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔انھوںنے عربی علوم میں بیچلرز کیا۔ دوران تعلیم یحیٰی السنوار نے اسٹوڈنٹ کونسل میں پانچ سال کام کیا۔ ٹیکنیکل کمیٹی اور اسپورٹس کمیٹی کے سیکرٹری اور بعدازاں کونسل کے نائب چیئرمین اور چیئرمین کی ذمہ داریاں انجام دیں ۔ ان کا دماغ ابتدا ہی سے سیاسی اور منصوبہ بند حکمتِ عملیاں بنانے کی صلاحیت سے مالا مال تھا۔ اس لیے یونی ورسٹی کے زمانے کی سرگرمیوں نے شخصیت کو مزید جِلا بخشی۔ یہی ذہنی بالیدگی بعد میں فلسطین کی آزادی سے متعلق سیاسی و جہادی زندگی میں کام آئی۔
پہلی قید
اہل فلسطین پچھلے ستر برس سے یہودیوں کی سازشوں اور مظالم کا شکار بنے ہوئے تھے۔ ردِعمل میں اہلِ فلسطین کی طرف سے مزاحمت اور اپنے حق کی جدوجہد فطری عمل تھا۔ اس لیے جلد یحیٰی السنوار بھی آزادی وطن کی دْھن لیے میدانِ کارزار میں کود پڑے۔ ہر طرف جبر و ستم کا بازار گرم تھا۔ جگہ جگہ یہودی فوج کے ناکے اور پہرے تھے۔ اسرائیل کی نظر میں ہر آزادی کا متوالا فلسطینی مجرم تھا۔ یحیٰی السنوار بھی اسی رسّہ کشی کے دوران سال 1982ء میں پہلی مرتبہ قیدِ آزادی کے مرحلے سے گزرے۔ انہوں نے تقریبا چار ماہ اسرئیلی جیل میں گزارے۔
خدا کی تقدیر کے تناظر میں جیل کا یہ پہلا چار ماہی سفر آئندہ آنے والے برسوں کا پرائمری اسکول ثابت ہوا۔ یحیٰی السنوار کی اس پرائمری اسکول میں کئی اْن فلسطینی مجاہدین سے ملاقات ہوئی جو جیل میں آواز حق بلند کرنے پر سزا بھگت رہے تھے۔ یحیٰی السنوار نے جیل کے اس پہلے سفر میں خود کو تحریک آزادی ِ فلسطین کے لیے وقف کر دینے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ وہ ابھی تک یونی ورسٹی میں زیرتعلیم تھے۔ اْن کی عمر محض انیس سال تھی۔السنوار کو اسرائیل مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے 1985ء میں آٹھ ماہ کے لیے دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری اور رہائی کے بعد السنوار بانی ِ حماس اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی بن گئے۔ ان تعلقات میں بنیادی کردار اس امر نے ادا کیا کہ یحیٰی بہترین انتظامی صلاحیتیں رکھتے تھے جو تحریک آزادی ِ فلسطین کے بڑوں کی نظروں میں آ چکی تھیں۔
المجد کا قیام
یحیٰی السنوار کو دوران قید احساس ہوا کہ تحریک آزادی درست راہ پر نہ چلنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی جماعتوں میں اسرائیلی جاسوس گھسے ہوئے ہیں۔ اسی لیے جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے تمام مزاحمتی جماعتوں کے سامنے انٹیلی جنس طرز کی ایک پولیس فورس بنانے کی تجویز پیش کی جو منظور کر لی گئی۔ چناں چہ ’’المجد‘‘ (منظمۃ الجہاد و الدعوۃ) نامی ادارہ وجود میں آیا جس کا بنیادی مقصد اخلاقی بْرائیوں کے مجرموں کو کٹہرے میں لانا اور مجاہدین کی مخبری کرنے والے اسرائیلی جاسوسوں کی تلاش، چھان بین اور گرفتاری تھا۔ یہی ادارہ حماس کی تشکیل کے بعد اس کی داخلی پولیس کے طور پر کام کرنے لگا۔ المجد 1987ء میں قائم کیا گیا جب یحیٰی السنوار کی عمر پچیس سال تھی۔
المجد میں شامل مجاہدین اپنی زیرکی کی وجہ سے اہل فلسطین میں موجود کئی اسرائیل جاسوس پکڑنے میں کامیاب رہے۔ یوں اسرائیل نے جہادی جماعتوں کے مابین اپنا جو جاسوس نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، وہ کافی کمزور ہو گیا۔ اس بنا پر اسرائیلی حکومت کی نظر میں یحیٰی السنوار اہم دشمن بن گئے۔ انھوں نے المجد کے کٹہرے میں کئی ایسے لوگوں کو بھی سزائیں دلوائیں جو فلسطین میں چوری و ڈاکا زنی جیسے اخلاقی جرائم کے مرتکب تھے۔ بعد ازاں ایسے مجرم قتل کر دئیے گئے جو مجاہدین کی جاسوسی کر رہے تھے۔
عمر قید کی سزا
فروری 1988ء میں اسرائیل نے دو اسرائیلی فوجیوں کے اغوا و قتل کی منصوبہ بندی کرنے پر یحیٰی السنوار کو گرفتار کر لیا۔ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انھوں نے اسرائیل کی خاطر جاسوسی کرتے چار فلسطینیوں کو بھی مار ڈالا۔ اسرائیلی عدالت نے 1989ء میں چار بار عمر قید اور مزید 25 سال قید کی سزا سنا دی۔ انھیں بئر السبع کی جیل میں قید کیا گیا۔کچھ عرصے بعد اسرائیل کے عبرانی چینل 12 سے منسلک ماہر ِعرب امور ، ایہود یاری نے جیل میں یحیٰی السنوار انٹرویو کیا ۔ اْس میں بتایا گیا کہ سنوار بہت سے فلسطینیوں کے قتل کا ذمہ دار ہے جو اسرائیل کے لیے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے کچھ جاسوسوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا جس پر ان کو فخر تھا۔
کسی بھی تحریک آزادی میں جاسوس کا پکڑے جانا ایک سنگین معاملہ ہے کیونکہ وہ صدیوں کی کمائی کو لمحوں میں سمندر بْرد کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے السنوار نے جیل میں بھی اسرائیل نواز مخبروں کو نہیں بخشا ۔ وہ جیل میں بھی جاسوسی کرنے والوں کو سخت سزا دیتے تھے۔ اسرائیلی حکام کو شک تھا کہ انہوں نے دو مشتبہ جاسوسوں کے سر قلم کرائے تھے۔ مجاہدین نے حماس جاسوسوں کو قتل کر کے اْن کے سر سیل سے باہر پھینکے اور اسرائیلی پولیس سے کہا ‘‘اپنے کتوں کے سر سنبھال لو!’’
عبرانی زبان پر عبور
یحیٰی السنوار نے اپنی خداداد انتظامی صلاحتیوں اور معاملات سنبھالنے کے دو ٹوک روّیے سے دشمن کے دل میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ پھر جیل کے تیسرے سفر نے انھیں تحریک آزادی فلسطین کا ایسا قابل منتظم بنا دیا جس نے بعد ازاں اسرائیل کو تگنی کا ناچ نچا دینا تھا۔ اسرائیل جیسے طاقتور اور شاطر دشمن کو شکست دینے کے لیے اْس کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ضروری امر تھا۔ یہی وجہ ہے ، یحیٰی نے دوران اسیری عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیل کے حالات پہ گہری نظر رکھی۔ عبرانی میں لکھی اسرائیلی معاشرے سے متعلق کتب کا عرق ریز مطالعہ کیا۔ اسرائیل کی ثقافت کو سمجھا۔
حماس کے ایک سینیئر کارکن، غازی حماد بتاتے ہیں کہ جیل کی قید نے سنوار کو بہت طاقت وَر بنا دیا ۔ ان کی قائدانہ خصوصیات کو پروان چڑھایا۔ برطانوی اخبار ‘‘فنانشل ٹائمز’’ کو اسرائیلی انٹیلی جنس تنظیم، شین بیت کے ایک اہل کار نے بتایا ’’یحیٰی السنوار جیل میں ’ولادی میر جابوٹنسکی، میناخم بیگن اور اسحٰق رابن جیسی اسرائیلی شخصیات کے بارے میں کتابیں پڑھتے تھے۔ انہوں نے اسرائیلی دہشت گردی کی حکمت عملی کا مطالعہ کرنے کے لیے یہ سوانح عمریاں ساتھی قیدیوں کو بھی پڑھائیں۔ السنوار جیل میں تاریخ یہودیت کے ماہرہو گئے۔
تصنیف وتالیف
دوران اسیری انھوں نے عبرانی زبان سے چار کتابیں عربی میں ترجمہ کیں اور ایک طبع زاد ناول ’’شوک القرنفل‘‘ یعنی ’’لونگ کا کانٹا‘‘ تحریر کیا۔ یہ 2004ء میں منظرعام پر آیا۔ یہ سوانحی ناول ہے جس کے تیس ابواب ہیں۔ ناول میں تحریک آزادی فلسطین کی داستان بیان ہوئی ہے۔ یہ قارئین کو فلسطین کی گلی کوچوں میں لے جاتا ، مزاحمت کی تعریف بتاتا اور مقامی لوگوں کی زندگی کے تاریک پہلوؤں جیسے غربت اور سہولیات کی عدم دستیابی پر روشنی ڈالتا ہے۔ ترجمہ شدہ کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭ الشاباک بین الاشلاء : اس کتاب کا مصنف اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی،شاباک کا ڈائریکٹر تھا۔ اس کتاب میں شاباک کے کردار کو بیان کیا گیا ہے جس کی بنیاد پہلے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے رکھی تھی۔ یہ تنظیم براہ راست وزیر اعظم کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔ اس کی سرکاری ذمے داری سازشوں اور بغاوتوں سے ریاست کو بچانا اور داخلی سلامتی کا تحفظ کرنا ہے۔
٭ الاحزاب الاسرائیلیۃ (اسرائیلی جماعتیں): یہ کتاب 1990 ء کی دہائی میں اسرائیل کی سیاسی جماعتوں، ان کے پروگراموں اور ان کی حکمت عملیوں سے بحث کرتی ہے۔
٭ المجد: یہ کتاب بھی شاباک کی حکمت عملی پر لکھی گئی کہ تنظیم کس طرح معلومات جمع کرتی ہے۔ جاسوس اور ایجنٹ کس طرح بھرتی ہوتی ہیں اور تفتیش کے دوران جسمانی و ذہنی طور پر کن وحشیانہ طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔
٭ حماس۔ التجربۃ والخطا: اس کتاب میں اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) اور اس کی ترقی ، تجربات اور غلطیوں پر گفتگو کی گئی ہے۔
رہائی مل گئی
یحیٰی السنوار کا کہنا تھا، اسرائیلی چاہتے تھے کہ جیل میرے لیے قبر بن جائے۔ جیل عزائم اور جسم کو پیسنے والی چکی بن جائے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے اپنے مقصد پر یقین کے ساتھ جیل کو عبادت اور تعلیم گاہوں میں تبدیل کر دیا ۔دراصل اللہ تعالی ہی اپنی تقدیر سے اپنے دنیا کا نظام چلا رہے ہیں ۔ اسرائیل نے تو اپنی دانست میں یحیٰی السنوار کو تمام عمر کے لیے جیل میں ڈال دیا تھا کہ اْنہیں موت بھی وہیں آئے۔ مگر اللہ تعالی نے اْن کی رہائی کا انتظام کر دیا تھا۔
ہوا یہ کہ گیلاد شالیت نامی اسرائیلی فوجی جون 2006 ء میں حماس کے عسکریونگ، قسام بریگیڈ کی گرفت میں آ گیا۔ ۔ اس کارروائی میں اسرائیل کے دو فوجی ہلاک، پانچ زخمی ہوئے اور گیلاد شالیت گرفتار ہوا۔ اس کی گرفتاری پیچیدہ گوریلا کارروائیوں میں سے ایک تھی کیوں کہ القسام بریگیڈ مغوی کو غزہ کی پٹی کی اندر تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ نتیجے میں اسرائیل نے گیلاد کی بازیابی کے لیے غزہ میں موجود اپنے سیکڑوں ایجنٹوں کو متحرک کر دیا۔ پھر ہوائی اور زمینی آپریشن شروع کیے مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔
اسرائیل نے آخر حماس سے گیلاد شالیت کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینوں کی رہائی کا سودا کر لیا۔ قید فلسطینیوں میں سب سے اہم شخص یحیٰی السنوار تھے، جو عمر قید کاٹ رہے تھے۔اسرائیل انھیں کسی بھی طرح رہا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ تاہم مذاکرات کامیاب ہونے پر 2011 ء میں اسرائیل نے ایک ہزار ستائیس فلسطینی رہا کر دئیے جن میں ہائی پروفائل یحیٰی السنوار شامل تھے۔
حماس کا سفر
یحیٰی رہائی کے بعد غزہ واپس آئے تو جلد انہیں حماس کے بانی اور کئی سال قید رہنے کی وجہ سے بطور لیڈر قبول کیا گیا۔ عسکری سرگرمیوں اور طویل نظر بندی کی وجہ سے ان کی شادی میں کافی تاخیر ہوئی تھی۔ جب وہ رہا ہوئے تو انہوں نے ایک ماہ بعد سمر محمد ابو زمر صالحہ سے شادی کر لی۔ اس پاکیزہ بندھن سے دو بچے تولد ہوئے۔
یحیٰی نے رہائی کے بعد سال 2012 ء میں حماس کے اندرونی انتخابات میں حصہ لیا اور تحریک میں رکن نامزد ہوئے۔ امریکا نے 2015 ء میں السنوار کا نام بین الاقوامی دہشت گردوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔فروری 2017ء میں وہ غزہ کی پٹی میں حماس کے رہنما منتخب ہوئے۔ انہی دنوں تل ابیب یونی ورسٹی میں فلسطین اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ مائیکل ملسٹین نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’ یحیٰی السنوار غزہ ہی نہیں پوری تحریک کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کرشماتی شخصیت کے مالک اور دیگر حماس لیڈروں سے کہیں زیادہ انتہا پسند اور بنیاد پرست ہیں۔ یحیٰی السنوار جہاد کو فروغ دینے اور کافروں کو مارنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
اسرائیل نے مئی 2021 ء میں ایک فضائی حملے میں یحیٰی السنوار کے گھر کو نشانہ بنایا مگر کوئی بھی زخمی یا شہید نہیں ہوا۔ اس حملے کے بعد یحیٰی چار مرتبہ عوام میں ظاہر ہوئے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کو چیلنج دیا کہ اْنہیں گھر پہنچنے میں ساٹھ منٹ لگتے ہیں۔ اگر اسرائیلی وزیر دفاع جرات مند ہے تو آ کر مجھے قتل کر دے۔ وہ اس چیلنج کے بعد گھنٹہ بھر غزہ کی سڑکوں پر گھومتے اور عوام کے ساتھ سیلفی لیتے رہے۔ انھوں نے اپنے تباہ شدہ گھر کے صحن میں کرسی پر بیٹھ کر ایک تصویر بھی بنائی جیسے اسرائیلی حکمران طبقے کو چنوتی دے رہے ہوں کہ آؤ، میرے ساتھ دو دو ہاتھ کرو۔ یہ تصویر ’’السنوار پوز ‘‘ کے نام سے بہت مشہور ہوئی تھی۔
دفاع ہمارا حق
یحیٰی السنوار نے چند سال قبل ممتاز امریکی رسالے، ٹائم کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس میں انھوں نے یہ نکتہ بیان کیا کہ امریکا میں اقلیتی سیاہ فاموں کو اکثریتی سفید فاموں کی جانب سے جس ظلم و نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعینہ وہی غیرانسانی سلوک اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہے۔ انٹرویو نگار نے حماس پہ الزام لگایا کہ وہ اسرائیل پر راکٹ پھینکتی اور جنگی جرایم میں ملوث ہے۔ اس پر یحیٰی السنوار نے کہا:
’’یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ آزادی چاہتی اور غلامی کو ناپسند کرتی ہے۔ اسرائیلی ہمیں اپنا ماتحت بنا لینا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ غابض ہیں۔ انھوں نے سازش سے ہمارے وطن پر قبضہ کر لیا۔اب وہ طاقت کے بل پر ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ ہم ہر میسر ہتھیار سے ان کا مقابلہ کریں گے۔ پھر دنیا والے کیا چاہتے ہیں؟کیا ہم سفید جھنڈا لہرا دیں؟یہ نہیں ہو سکتا۔ کیا ہم اچھے رویے کا مظاہرہ کریں جب ہمارا قتل عام کیا اور ہماری نسل کشی کی جا رہی ہو؟ہم کیا آواز بلند کیے بغیر قتل ہو جائیں؟ایسا نہیں ہو سکتا۔ دفاع کرنا ہمارا حق ہے اور ہم ہر طریقے سے یہ حق استعمال کریں گے۔میں جان دے دوں گا مگر ظالم کے سامنے کبھی سرنگوں نہیں ہوں گا۔‘‘
٭٭٭
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں یحی ی السنوار یحی ی السنوار نے میں اسرائیلی رہائی کے بعد ی السنوار کو تحریک ا زادی میں اسرائیل اہل فلسطین اسرائیل نے اسرائیل کی اسرائیل کے فلسطین کی کی وجہ سے انہوں نے انھوں نے تھا کہ ا کرتی ہے کے ساتھ نہیں ہو جیل میں رہے تھے حماس کے کیا گیا غزہ کی کے لیے کر دیا نے ایک ا نہیں کر لیا اور اس
پڑھیں:
بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!
امریکا میں کینسس شہر کافی بڑا ہے۔ آبادی تقریباً پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن یعنی مرکزی ایریا میں ایک Dinar ریسٹورنٹ ہے۔ کھانے پینے کی عام سی جگہ۔ اس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی خاص بات نہیں ، سادہ سا امریکی فرنیچر‘ درمیانے درجے کا سستا کھانا اور بے ہنگم موسیقی ۔ کھلے ہوئے تقریباً چار برس ہو چکے تھے۔ اخراجات وغیرہ ڈال کر مالک کو برائے نام منافع ملتا تھا۔ ارادہ تھا کہ اس ریسٹورنٹ کو بند کر کے کوئی نیا کام شروع کر دے۔ بہر حال‘ زندگی تھی اور بس چلے جا رہی تھی۔
اس ریسٹورنٹ میں ایک ویٹرس تھی، جس کا نام جیسی ہوپر تھا۔ محنتی اور بااخلاق لڑکی تھی لیکن معقول وسائل نہ ہونے کی بدولت زندگی بہت کٹھن تھی۔ مگر تنگدستی نے اس کے مزاج پر کوئی منفی اثر نہ ڈالا تھا۔ خوش مزاجی سے کام کرنا اس کی سرشت میں تھا۔ علی الصبح اٹھتی تھی۔ چھوٹے سے فلیٹ سے پیدل ریسٹورنٹ آتی تھی،کرسیوں اور میزوں کی بھرپور صفائی کرتی تھی۔ ریسٹورنٹ پورے سات بجے کھل جاتا تھا۔صبح کے وقت بہت کم لوگ ہی آتے تھے ۔ البتہ لنچ پر بہت رش ہو جاتا تھا۔ ایک اسی طرح کی صبح کو‘ ایک آٹھ نو سال کا بچہ‘ اپنا اسکول بیگ کمر پر لادے‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ۔ خاموشی سے کونے کی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
کھانے کا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ جیسی نے اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھا۔ بچے نے آہستہ آہستہ پانی پیا ۔ آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر شائستگی سے اٹھ کر چلا گیا۔ پانی کا تو خیر کوئی بل نہیں تھا۔ مگر جیسی کو یہ بات عجیب لگی۔ اب ہونے یہ لگا کہ وہ بچہ سات بج کر پندرہ منٹ پر‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا تھا۔ جیسی اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی پیتا تھا اور آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر بیگ اٹھا کر چلا جاتا تھا۔ وہ اسکول یونیفارم میں ہوتا تھا اور جوتے بھی صاف دکھائی دیتے تھے۔ حلیہ سے وہ کوئی فقیر یا ہوم لیس معلوم نہیں پڑتا تھا۔ سات آٹھ دن ‘ اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن بچہ آیا۔ حسب معمول ‘ جیسی نے پانی کا گلاس سامنے رکا ۔ پھر کچن میں چلی گئی۔ وہاں سے اس نے پین کیک کا ناشتہ بنوایا۔ اور آرام سے بچے کے سامنے رکھ دیا۔
کہنے لگی، آج کچن میں کک نے ناشتہ زیادہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اسے ضایع کرنے کے بجائے ‘ وہ اس کے سامنے رکھ رہی ہے۔ اور اس کا کوئی بل نہیں ہو گا۔ جیسی اور بچے کی آنکھیں چند سیکنڈ کے لیے ٹکرائیں تو اس معصوم کی آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔ ناشتہ رکھ کر جیسی چلی گئی۔ دانستہ طور پر بچے کو بالکل نہیں دیکھا۔ بچے نے آرام سے ناشتہ کیا۔ اور مقرر وقت پر اٹھ کر چلا گیا۔ یہ سلسلہ دو تین دن چلتا رہا۔ بچہ ‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں آتا تھا۔ جیسی اس کے لیے پین کیک کا ناشتہ بناتی تھی۔ اور پھر وہ کھا کر حد درجہ تہذیب سے واپس چلا جاتا تھا۔ ریسٹورنٹ کا منیجر اس سارے واقعے کو روزانہ دیکھتا تھا۔ تیسرے دن جیسی کو بلایا ۔ کہا کہ یہ ہوٹل کوئی یتیم خانہ نہیں ہے۔ جہاں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہو۔
تم کس طرح ‘بچے کو فری ناشتہ کرا رہی ہو۔ جیسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک دم‘ منیجر سے کہا‘ ناشتہ کے پیسے وہ ٹپ سے ادا کرے گی۔ اس سے ریسٹورنٹ کو کوئی مالی نقصان نہیں ہو گا۔ منیجر حیران رہ گیا۔ کیونکہ جیسی کے اپنے مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ وہ ایک سستے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ بہرحال منیجر نے جیسی کو اجازت دے دی۔ کہ وہ بچے کو ناشتہ بنا کر دے اور پیسے اس کی ٹپ میں سے کاٹ لیے جائیں گے۔ منیجر کو فکر یہ تھی کہ ہوٹل بس گزارے لائق منافع بنارہا ہے۔ لہٰذا جیسی قطعاً زیادہ عرصہ ‘ مفت ناشتہ‘ اپنی ٹپ میں سے ادا نہیں کر سکتی۔ مگر منیجر غلط سوچ رہا تھا۔
پورے تین ماہ‘ یہ واقعہ ‘ مسلسل ‘ روز کی بنیاد پر ہوتا رہا۔ بچہ ٹھیک سوا سات بجے آتا اور آٹھ بجنے سے پہلے اٹھ کر چلا جاتا۔ جیسی کو اس معصوم لڑکے کو ناشتہ کرانے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ پھر یکدم یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ٹھیک نوے دن کے بعد‘ بچے نے آنا بند کر دیا۔ جیسی‘ سات بجے حسب معمول اس کا انتظار کرتی ۔ اس کی مخصوص ‘ کونے والی میز پر پانی رکھتی۔ اور تھوڑا سا ناشتہ بھی بنا کر رکھ دیتی۔ مگر ٹیبل خالی رہتی۔ منیجر اس کا مذاق اڑاتا کہ وہ بچہ دراصل ایک فقیر تھا جو تمہیں بے وقوف بنا کر چلا گیا۔ خیر جیسی کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اسی طرح بچے کے لیے ٹیل مخصوص رکھتی۔ ایک دن کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ چار کالی گاڑیاں ہوٹل کے سامنے رکیں ۔ ان پر امریکی حکومت کی سرکاری نمبر پلیٹیں لگی ہوئی تھیں۔
ان میں سے دس بارہ فوجی باہر نکلے ۔ اورہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سارے گاہک ‘ انھیں غور سے دیکھ رہے تھے۔ ایک سینئر افسر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے سینے پر متعدد تمغے لگے ہوئے تھے۔ حد درجہ شائستگی سے منیجر سے پوچھا کہ جیسی کون ہے؟ جیسی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ اس کا گلہ خشک ہو گیا۔ ان فوجیوں کا اس سے کیا کام ہے؟ آفیسر نے اپنا تعارف کرایا کہ میں امریکی اسپیشل فورسز کا کرنل ہوں۔ میرا نام رابرٹ کنڈل ہے۔ جیسی اس کے سامنے گئی۔ کرنل نے اسے غور سے دیکھا۔ اور ایک خط ہاتھ میں تھما دیا۔ کہنے لگا کہ یہ خط‘ سارجنٹ ڈیوڈ نے افغانستان سے لکھا ہے۔ اور وہ ایڈم کا والد ہے۔
افغانستان کی جنگ میں ڈیوڈ مارا گیا۔ اورمرنے سے پہلے ‘ اس نے یہ خط اپنے کمانڈنگ افسر کے ہاتھ میں دیا۔ کہ اگر میں مارا جاؤں تو یہ مراسلہ‘ کینس شہر میں‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں جیسی نامی ویٹرس کو دے دیں۔ جیسی کے سامنے کرنل نے خط پڑھ کر سنایا۔ درج تھا ۔ میں ایڈم کا والد ہوں۔ اور امریکی اسپیشل سروسز گروپ میں کام کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں جنگ پر روانہ ہوا۔ تو میری بیوی ‘ ایڈم کو چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس کے پاس حد درجہ محدود پیسے تھے۔ وہ صبح اسکول جانے سے پہلے‘ آپ کے پاس ناشتہ کرتا تھا ۔ اور رات کو بس روکھی سوکھی کھا کر سو جاتا تھا۔ ایڈم نے چند دن پہلے ‘ یہ سب کچھ بتایا ۔ اب وہ اپنے داد دادی کے پاس کیلیفورنیا چلا گیا ہے۔ جیسی ! میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خط پڑھ کر جیسی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ریسٹورنٹ میں موجود فوجیوں نے جیسی کو تعظیمی سلیوٹ کیا۔ اور واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ یہ قصہ پوری دنیا میں وائرل ہو گیا۔
اب ہوا یہ ‘ کہ امریکی فوج کا جو بھی افسر یا سپاہی ‘ کینسس شہر کے قریب سے گزرتا۔ وہ جیسی کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے ضرور آتا۔ شہر میں جتنے بھی ریٹائر فوجی تھے۔ وہ تمام اب اس جگہ ناشتہ اور کھانا کھانے آتے تھے۔ ریسٹورنٹ کی آمدنی پہلے سے دگنی ہو گئی۔ جیسی معمول کے مطابق کام کرتی رہی۔ ایک دن‘ ریاست کا گورنر آیا۔ اس نے جیسی کو بلایا۔ اس کی مہربانی کا شکریہ ادا کیا ۔ اور اس کے نام کا ایک سکہ اور خط ‘ اس کے حوالے کیا۔ ریسٹورنٹ گاہکوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب نے کھڑے ہو کر جیسی کے احترام میں تالیاں بجائیں ۔ گورنر کے عملے نے اسے سلیوٹ کیا۔ اور اسے ریاست کی بیٹی قرار دے دیا۔ ہوٹل کے مالک نے ریسٹورنٹ کا نام ہی تبدیل کر ڈالا ۔ نیا بورڈ لگایا کہ یہ جیسی کا ریسٹورنٹ ہے۔ جیسی پورے شہر بلکہ ملک میں بے غرض نیکی اور مہربانی کا نشان بن گئی۔ معاشرے‘ ریاستی اداروں‘ شہریوں اور نظام نے جیسی کو ایک خوبصورت مثال قرار دے دیا۔ وہ ایک دیومالائی کردار بن گئی۔
گزارش کرنے کا مقصد بالکل سادہ سا ہے۔ بے غرض نیکی کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمارے معاشرے میں‘ اکثر لوگ اچھے کاموں کو اپنی شخصیت کے مثبت پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی جائیداد میں سے ایک ٹکہ بھی عام لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ نہیں کرتے۔ مگر چندہ مانگ کر اسکول‘ کالج اور درسگاہیں بناتے ہیں۔ لوگوں میں دیوتا بننے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ ان کے نیک کام اچھے لگتے ہیں مگر وہ صرف اپنے قد کو بلند دکھانے میں کام آتے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں ‘ دوسروں کو چھوٹا دکھانے کی شعوری کوشش ہوتی ہے۔
طالب علم اس طرح کے کج ادا لوگوں سے کوسوں دور رہتا ہے۔ ذہن میں صرف ایک خیال پختہ ہے۔ کہ اصل نیکی کسی بھی صلہ اور تمنا کے بغیر ہوتی ہے اور بے غرض نیکی کبھی بھی ضایع نہیں جاتی۔ جیسی کینسس شہر کی پہچان بن چکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت لوگ نیکی کو بے غرض نہیں بلکہ غرض سے ادا کرتے ہیں۔ مشورہ ہے کہ آپ خود‘ اپنی مرضی سے چھوٹے یا بڑے فلاحی کام کریں۔ ادنیٰ سماجی قزاقوں سے دور رہیں۔ یقین فرمائیے۔ قدرت خود آپ کا ہاتھ پکڑ کر‘ آپ کے لیے عزت کے راستے بنائے گی!