چینی وزارت تجارت کا امریکہ کی جانب سے چین پر اضافی محصولات عائد کرنے کے ردعمل میں قانونی چارہ جوئی کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
امریکی وائٹ ہاؤس نے ایک فہرست جاری کی، جس میں چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر فینٹینیل جیسے مسائل کے بہانے 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ چین نے اس پر شدید عدم اطمینان اور مخالفت کا اظہار کیا ۔
چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے اس اعلان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی یکطرفہ ٹیرف عائد کرنے کی کارروائی عالمی تجارتی تنظیم کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی ہے، جو نہ صرف اپنے مسائل کو حل کرنے میں بے سود ہے بلکہ چین اور امریکہ کے درمیان معمول کے تجارتی تعاون کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ چین امریکہ کی غلط کارروائیوں کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں مقدمہ دائر کرے گا اور اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب جوابی اقدامات اٹھائے گا۔ چین امید کرتا ہے کہ امریکہ ہر بار ٹیرف کی آڑ میں دوسرے ممالک کو دھمکانے کے بجائے اپنے فینٹینیل جیسے مسائل کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے گا اور ان کو حل کرے گا ۔ چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی غلط کارروائیوں کو درست کرے اور چین کے ساتھ مل کر مسائل سے نمٹے ، یکساں مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر، کھلی بات چیت کرے، تعاون کو مضبوط بنائے اور اختلافات پر قابو پائے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا
امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین نے امریکہ سے تمام درآمدات پر اضافی 125 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے تاکہ امریکہ کی طرف سے چین پر عائد کردہ نام نہاد ” ریسیپروکل ٹیرف” کا جواب دیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی، اشیاء کی تجارت پر ڈبلیو ٹی او کونسل کے پہلے سالانہ اجلاس میں، چین نے یہ واضح کیا کہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے مطابق’’باہمی مساوات ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی فریق ایک دوسرے کو ترجیحی سلوک اور سہولت فراہم کرتے ہیں، اور بالآخر حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعی توازن حاصل کرتے ہیں. تاہم، امریکہ کی نام نہاد “باہمی مساوات ” درحقیقت تنگ نظری، یکطرفہ پسندی، خود غرضی اور معاشی جبر کا عمل ہے۔
ڈبلیو ٹی او کا “باہمی مساوات ” کا اصول ہر رکن کی اقتصادی ترقی کی سطح میں اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعی توازن پیدا کرتا ہے۔ امریکہ نے ڈبلیو ٹی او کے ارکان کے درمیان ترجیحی سلوک کو ” مساوی تعداد ” میں غلط انداز میں پیش کیا اور ” مساوی محصولات” عائد کیے ہیں، جو بالکل اس تصور کا ایک غیر مساوی اور غیر معقول اظہار ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک کو ان کے ترقی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ جہاں تک امریکی فریق کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ محصولات ’’غیر مساوی‘ہیں اور اس کی وجہ سے اسے تجارت میں ’’نقصان ‘‘اٹھانا پڑ رہا ہے، تو یہ اور بھی زیادہ مضحکہ خیز بات ہے۔
درحقیقت امریکہ موجودہ بین الاقوامی تجارتی نظام میں سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے۔ امریکہ نے خدمات کی تجارت میں طویل مدتی سرپلس برقرار رکھا ہے ، جس میں 2024 میں تقریباً 300 بلین ڈالر کا سرپلس رہا ۔ خدمات کی برآمدات نے 4.1 ملین امریکی ملازمتیں پیدا کیں۔امریکہ نام نہاد “باہمی مساوات ” کے جھنڈے تلے زیرو سم گیم میں مصروف ہے، جو بنیادی طور پر “امریکہ فرسٹ” اور “امریکہ اسپیشل” کا تعاقب ہے۔ تاہم، ٹیرف کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے، اور دنیا کے خلاف کیے جانے والے طرز عمل سے امریکہ خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر دے گا۔