امریکی ٹیرف اقدامات سے عالمی معیشت میں مزید ابتری کا خدشہ ہے ، سروے نتائج
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
نئی امریکی حکومت، جسے برسرِ اقتدار آئے دو ہفتے سے بھی کم وقت ہوا ہے، نے متعدد ممالک پر “ٹیرف کے ہتھوڑے” برسانا شروع کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں “امریکہ فرسٹ” کی پالیسی کو تجارتی اور معاشی حلقوں میں بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے اور اس حوالے سے نئی تشویش نے جنم لیا ہے۔ سی جی ٹی این کے ایک عالمی سروے نتائج کے مطابق، جواب دہندگان کا عمومی خیال ہے کہ امریکہ کا یکطرفہ طور پر دوسرے ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کا عمل امریکی معیشت کو حقیقی ترقی نہیں دلا سکتا، بلکہ کمزور ہوتی ہوئی عالمی معیشت کو مزید مشکلات سے دوچار کر رہا ہے۔ چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں بتا یا کہ
سروے میں، 90.
حالیہ برسوں میں، امریکہ نے عالمی تجارتی تنظیم کے بنیادی اصولوں کو مسلسل کمزور کیا ہے اور عالمی تجارتی تنظیم کے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے قومی قوانین کی بنیاد پر بین الاقوامی تجارتی تنازعات کو ہوا دی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کی جانب سے امریکہ کے “سیکشن 301” ٹیرف اقدامات کو ڈبلیو ٹی او کے اصولوں کے خلاف قرار دینے کے باوجود، امریکہ نے کچھ ممالک کی بحری صنعت، لاجسٹکس اور جہاز سازی کے شعبوں کی تحقیقات جاری رکھی ہیں اور کچھ درآمدی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی حکومت کا دوسرے ممالک پر یکطرفہ ٹیرف عائد کرنے کا عمل آخرکار امریکی صارفین کو ہی بھگتنا پڑے گا، اور اس کے روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ موڈیز کمپنی کے اندازوں کے مطابق، امریکہ کے چین پر عائد کردہ ٹیرف کا 92 فیصد بوجھ امریکی صارفین اٹھا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکی خاندانوں کو ہر سال ٹیرف کی وجہ سے 1300 ڈالر کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، 61 فیصد عالمی جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ کی ٹیرف پالیسیاں امریکی شہریوں کی زندگیوں پر سنگین منفی اثرات مرتب کریں گی۔
امریکہ کی ٹیرف پالیسیوں کے جواب میں، متعدد ممالک نے جوابی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر “تجارتی جنگ” چھڑ سکتی ہے۔ سروے میں، 53.8 فیصد یورپی ممالک کے جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ کی تجارتی رکاوٹیں عالمی معیشت پر سنگین منفی اثرات مرتب کریں گی۔ 67 فیصد عالمی جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ نئی امریکی حکومت کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی اس کے روایتی اتحادی ممالک کو نظر انداز کرنے اور انہیں الگ تھلگ محسوس کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ 65 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ نئی امریکی حکومت کی خارجہ پالیسیاں بین الاقوامی سطح پر اس کی قیادت کو کمزور کر رہی ہیں۔
یہ اعداد و شمار سی جی ٹی این کے دو عالمی سروے اور متعدد آن لائن سرویز سے حاصل کیے گئے ہیں، جن میں 38 ممالک کے 14071 جواب دہندگان شامل تھے۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کے جواب دہندگان کے ساتھ ساتھ بھارت، جنوبی افریقہ، برازیل، میکسیکو جیسے ترقی پذیر ممالک کے جواب دہندگان بھی شامل ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تجارتی جنگ اور ہم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل کو درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تو مالیاتی مارکیٹوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ’’متاثرہ ملکوں‘‘ کو یہ اقدام دس ریکٹر اسکیل کا تجارتی زلزلہ لگا جس نے ورلڈ سپلائی چین اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
ان ممالک کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچھلے 40 برسوں سے جس’’ رول بیسڈ ورلڈ ٹریڈ آرڈر‘‘ کے وہ عادی اور خوشہ چیں تھے،اس ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے اور قائم رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک اپنے ہاتھوں سے اس ورلڈ آرڈر کو تہہ کر کے یوں آسانی سے سائیڈ پہ رکھ دے گا! تاہم حقیقت یہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہونی کو ہونی کر دیا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے 65 ممالک پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک تہلکہ خیز واقعہ تھا جس کے باعث فنانشل مارکیٹس میں شدید ترین گراوٹ دیکھی گئی۔ ایک ہی روز میں اربوں کھربوں ڈالرز کی حصص ویلیو ہوا ہو گئی۔
عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں شدید گراوٹ اور معاشی بے یقینی کی گرج چمک نے دنیا بھر کے کے ممالک کو چکرا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ایک اور ترپ کا پتہ کھیل کر دنیا کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ کم از کم اگلے90 دن کے لیے انھیں انتظار کی سولی پر بھی لٹکا دیا۔صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے فوری نفاذ کو چین، کینیڈا، میکسیکو کے سوا باقی ممالک کے لیے 90 دنوں تک موخر کر دیا۔ البتہ اس دوران سب پر 10فیصد یکساں ٹیرف عائد کر دیا۔
چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں ترکی بہ ترکی ٹیرف عائد کیے جس پر سیخ پا ہو کر امریکا نے چین پر عائد ٹیرف بڑھا کر 125فیصد کر دیا۔ امریکی حکام کے بقول دنیا کے 70 ممالک ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں ،کئی سربراہان نے فون یا وائٹ ہاؤس یاترا کرکے معاملات کی درستی کے لیے پیش قدمی کی لیکن چین ٹس سے مس نہ ہوا۔
بلکہ چینی صدر فار ایسٹ ایشیاء کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصود یہ کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ نئے تجارتی بندوبست کا اہتمام کیا جا سکے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ایک فون کی تو بات تھی لیکن چین کو سمجھ نہیں آئی !
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی موجودگی اور ملٹی لیٹرل ٹریڈ سسٹم کے طے شدہ اصولوں کے باوجود امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سسٹم کو بائی پاس کر دیا اور یکطرفہ طور پر کم ازکم 65 ممالک پر ٹیرف عائد کر دیے۔ ورلڈ سسٹم کو بائی پاس کرتے ہوئے بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا انفرادی تھا یا اس فیصلے کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی ہے ؟ یعنی There is method behind this madness۔
امریکی سیاست اور معاشی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کٹر خیالات رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ری پبلکن پارٹی پر بڑھتی ہوئی مظبوط گرفت ، کانگریس میں ان کی اکثریت اور صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت ان ہنگامہ پرور فیصلوں کا باعث بنی۔
امریکی صدر کے امیگریشن، ایجوکیشن، لیبر یونین کی مزید حوصلہ شکنی سمیت حکومتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں ، بیوروکریسی ، کئی ملکی اور عالمی سطح پر جاری۔امدادی پروگرام بند کرنے اور عالمی تجارتی نظام پر اپنی شرائط پر گرفت قائم کرنے جیسے اقدامات پر ری پبلکن پارٹی میں سرگرم سیاسی و نظریاتی حمایت موجود ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے ان ایجنڈا اقدامات کی تشکیل کے لیے دو سال قبل ایک معروف تھنک ٹینک نے 900 صفحات پر مبنی پروجیکٹ 2025 رپورٹ پبلک کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے 37 لکھاریوں میں سے 27 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان کی ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے یا ان کے سیاسی حلقہ اثر سے متعلق تھے۔
گو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس رپورٹ کے مندرجات سے پہلو تہی اختیار کی لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے تمام اقدامات۔انداز ہو بہو تیری آواز پاء کا تھاکی مثال ثابت ہورہے ہیں۔ اس پروجیکٹ رپورٹ کے دو سینئر ممبرز امریکی صدر کی انتظامیہ کا حصہ بھی ہیں۔ اسی لیے بیشتر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیرف اقدامات کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی کار فرما یے۔ البتہ اس میں باقی ڈرامائی انداز ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا کرشمہ اور مزاج کا عکس ہے۔
امریکی سیاست میں گزشتہ 45 سالوں کے دوران بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں امریکی سیاست میں نیوکون NEOCON معیشت دانوں اور نیو لبرل سیاست دانوں کو عروج ملا۔ ان کی تجویز کردہ بیشتر معاشی پالیسیوں کو صدر رونالڈ ریگن نے اپنایا۔ان پالیسیوں کا امریکا اور عالمی معیشت پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آج تک اس معاشی طرز نظامت کو ریگنامکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاہم اسدوان زمانہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔ 80 کی دہائی سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی حیرت انگیز معاشی، ٹیکنالوجی اور سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے غیر متوقع تھیں۔ 2025 کا عالمی تجارتی منظر اور اس کے بڑے بڑے کھلاڑی یعنی Who is who کی فہرست اور ترتیب میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر نوزائیدہ معاشی قوت کی معاشی ترقی کے سوتے امریکا کی پرکشش اور فری مارکیٹ اکانومی سے پھوٹے۔ اس لیے جب امریکا نے بیک جنبش قلم جاری توازن کو جھٹکا دیا تو دنیا بھر کو جھٹکا لگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی تجارتی اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی والا ماحول اب موجود نہیں، تاہم اس کے باوجود امریکا کا اثرو نفوذ اب بھی بہت وسیع اور فیصلہ کن ہے۔
آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی تجارت اور نئی جیو پولیٹیکل بساط پر امریکا ،چین اور دیگر ممالک کی اگلی صف بندی اور چالیں کیا ہوں گی۔ گو پاکستان عالمی تجارتی حجم میں بہت کم وزن ہے لیکن جیو پولیٹیکل منظر پر ضرور اہم ہے۔
تاہم امریکا اور چین کے مابین تشکیل پاتی نئی سرد جنگ میں روایتی سرد جنگ کی طرح کسی ایک کیمپ کا انتخاب شاید مجبوری بن جائے۔ چین کے ساتھ روایتی دوستی، سی پیک اور بڑھتا ہوا معاشی انحصار امریکا کو مزید کھٹک سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دو کشتیوں کا سوار رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ پاکستان کو جلد یا بہ دیر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؛" آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اپ ہمارے مخالف ہیں"۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں اور " دوست ممالک " کے ڈیپازٹس سے قائم زرمبادلہ کے بھرم سے اپنی معاشی "سفید پوشی " قائم رکھنے والے ملک کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوگا!