پنجاب میں خشک سالی کے باعث کھیت سوکھ گئے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
فیصل آباد(نیوز ڈیسک)پنجاب میں بادل روٹھ گئے کھیت سوکھ گئے۔ بارشیں ناں ہونے سے گندم کی متاثر ہوتی فصل سے کسان پریشان ہیں۔ بارانی علاقوں میں ربیع کے سیزن میں 40 فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔
ایک طرف بھل صفائی کے نتیجے میں خشک نہریں تو دوسری طرف بارشیں ناں ہونے سے فیصل آباد کے کسانوں میں بھی فکر کی لہر دوڑ گئی۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ بے حد پریشانی کی صورتحال ہے فصل خشک ہوئی پڑی، محنت ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ہم تو دعائیں کررہے ہیں کہ بارش ہو جائے۔
درجہ حرارت بڑھنے سے گندم پر وقت سے پہلے ہی سٹہ آگیا، ماہرین نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی
زرعی ماہر کے مطابق اس موسم میں بارش ناں ہونے سے فصل کی گروتھ رکتی اور زبردستی سٹہ آرا ہے ایسی صورت میں گندم کی قلت کا خطرہ ہے۔
موسمی تبدیلی کے اثرات فصلوں کو شدید متاثر کررہے ہیں بارشیں نہ ہونے سے گندم کی پیداوار میں بڑی کمی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
مزیدپڑھیں:نئی نمبر پلیٹس لگانے کےلئے آخری مہلت، پرانی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ضبط ہوں گی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہونے سے
پڑھیں:
زمین سے ممکنہ ٹکراؤ کا خطرہ:یورپی خلائی ایجنسی نے سیارچے کی نگرانی شروع کر دی
یورپی خلائی ایجنسی نے ایک ممکنہ خطرناک سیارچے کی مسلسل نگرانی شروع کر دی ہے، جو 22 دسمبر 2032 کو زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سیارچے کا سائز 328 فٹ چوڑا ہے اور اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات 1.3 فیصد تک ہو سکتے ہیں۔
سیارچہ جسے سائنس دانوں کی جانب سے YR4 کا نام دیا گیا ہے، 27 دسمبر 2024 کو چلی میں ایک طاقتور دوربین کے ذریعے دریافت کیا گیا۔ اس کے بعد امریکی اور یورپی ماہرینِ فلکیات نے اس پر گہری نظر رکھنی شروع کر دی۔
یورپی خلائی ایجنسی کے مطابق جنوری کے آغاز سے ماہرین دنیا بھر کی دوربینوں سے اس سیارچے کا سائز، رفتار اور مدار کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس کے زمین سے ممکنہ تصادم کے خطرے کو بہتر طور پر جانچا جا سکے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس سائز کا سیارچہ ہر چند ہزار سال بعد زمین پر اثر انداز ہوتا ہے اور اگر یہ کسی علاقے سے ٹکرا گیا تو وہاں شدید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر YR4 کا مدار تبدیل نہیں ہوتا تو 2032 میں یہ زمین کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے تاہم مزید تحقیق اور ڈیٹا تجزیے سے اس کے مدار کے متعلق زیادہ درست پیش گوئی کی جا سکے گی۔
فی الحال عالمی خلائی ایجنسیز اس سیارچے کی مسلسل ٹریکنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں تاکہ وقت آنے پر ممکنہ اقدامات کیے جا سکیں۔