امریکی انخلا کے بعد سے افغانستان میں پونے 4 ارب ڈالر امداد خرچ ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
افغان طالبان کے جبری دور حکومت اور سنگین ترین عوامی صورتحال پر اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن(SIGAR) کی رپورٹ جاری کردی گئی۔
افغانستان میں SIGAR کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے تقریباً 3 ارب 71 کروڑ ڈالر کی امداد خرچ کی جاچکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق خرچ کی گئی امداد کا 64.
تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر اضافی امدادی فنڈنگ بھی جاری کرنے کے لیے دستیاب ہے، امریکا میں منجمد کیے گئے افغان مرکزی بینک کے ساڑھے 3 ارب ڈالر کے اثاثے سوئٹزرلینڈ میں قائم افغان فنڈ میں منتقل کر دیے گئے، جو سود کے ساتھ اب 4 ارب ڈالر کے مجموعہ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ اتنی بڑی امداد کے باوجود افغان طالبان کی جابرانہ پالیسیاں جاری ہیں، طالبان نےتاحال خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، افغان طالبان نے خواتین کی ملازمتوں بشمول این جی اوز، صحت اور دیگر شعبوں میں ملازمتوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام کے لیے نافذ نام نہاد ’اخلاقیات قانون‘ نے مرد و خواتین کےطرز عمل پر پابندیاں بڑھا دی ہیں، ان پابندیوں کی بدولت بین الاقوامی سطح کے انسانی ہمدردی کے پروگراموں کے تحت امداد کی تقسیم میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 جنوری 2025 کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت افغانستان میں جاری منصوبوں سمیت تمام امریکی و غیر ملکی امداد کی نئی ذمہ داریاں اور تقسیم 90 دن کے لیے روک دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود سنگین صورتحال کا شکار ایک کروڑ 68 لاکھ لوگوں کے لیے اقوام متحدہ نے سال 2025ء کے لیے 2 ارب 42 کروڑ ڈالر امداد کی درخواست کی ہے۔
افغانستان میں اتنی بڑی تعداد میں بھوک کے شکار لوگوں کے باوجود افغان طالبان امدادی کوششوں میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، افغانستان میں داعش اور القاعدہ کی موجودگی نے سیکیورٹی خطرات کو بھی بڑھا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2024میں پاکستان میں افغان سرزمین سے 640 دہشت گرد حملوں کی وجہ سے پاک افغان تعلقات بھی کشیدگی کا شکار ہیں، کشیدگی کے باعث پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی افغان شہری ملک بدر بھی کیے گئے ہیں۔
طالبان کے دور اقتدار میں ایک منظم طریقے سے خواتین کو سیاسی، سماجی اور تعلیمی زندگی سےخارج کردیا گیا
افغانستان میں موجود 4کروڑ سے زائد کی آبادی سنگین صورتحال کا شکار ہے، جب کہ افغان طالبان افغانستان کی تعمیر نو میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
صرف 12 افراد کا خود کو ارب پتی ظاہر کرنا شاکنگ ہے، شہباز رانا
تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ایف بی آر ٹیم صرف اتنا کام کرے کہ اپنے دفتر سے نکلے اور اسلام آباد کی مارگلہ روڈ کے ایک کونے سے شروع ہو کر دوسرے کونے پر چلی جائے، 120 افراد ان کو یہیں پر مل جائیں گے جن کی اتنی ورتھ ہے۔
اس کے بعد دوسرا کام کریں، چیئرمین ایف بی آر اور ٹاپ کے پانچ ممبرزایک ہی گاڑی میں بیٹھ جائیں اور یہاں سے موٹر وے پر چکر تک چلے جائیں ، ارد گرد میں ان کو جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نظر آئیں گی وہ بتائیں گی کہ ان کے مالکان کی ورتھ کتنی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ الارمنگ اور شاکنگ نمبرز ہیں، 25کروڑ افراد کا یہ ملک ہے، جس کی جی ڈی پی کا سائز 375ارب ڈالر ہے اور وہاں پر صرف بارہ افراد ایسے ہیں ، جنہوں نے گوشواروں میں اپنی نیٹ ورتھ دس ارب روپے یا اس سے زیادہ ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھیں: صرف 12 پاکستانیوں نے گوشواروں میں 10 ارب روپے سے زائد اثاثے ظاہر کیے، ایف بی آر
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی تشویش وہ جدید امریکی اسلحہ ہے جو امریکی افغانستان میں چھوڑ گئے، یہ اسلحہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے دہشت گرد گروہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بائیڈن ان خدشات کو رد کرتے رہے لیکن انٹرسٹنگلی نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے موقف کی کسی حد تک تائید اس طرح کی ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے ایک بیان دیا ہے کہ افغان طالبان اگر چاہتے ہیں کہ ان کی مدد جاری رکھی جائے تو جو امریکی اسلحہ افغانستان میں رہ گیا تھا، وہ ان کو واپس کرنا ہوگا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آج بھی افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحہ کی مالیت سات ارب ڈالر بنتی ہے، ٹرمپ فیصلوں سے افغانستان میں ڈالر کا بحران پیدا ہوگیا ہے، مہنگائی بہت زیادہ ہوئی ہے، ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کی حکمت عملی ان ڈائریکٹلی پاکستان کو فائدہ دے جائے۔