پیکا ایکٹ جیسے قوانین بناکر پاکستان کو شمالی کوریا بنادیا گیا: حافظ حمداللہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ جیسے قوانین بنا کر پاکستان کو شمالی کوریا بنادیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق ایک بیان میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو پیکا ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن اگلے ہی روز دستخط کر دیے۔
انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ جیسے قوانین بنا کر پاکستان کو شمالی کوریا بنا دیا گیا ہے۔
حافظ حمداللہ نے سوال کرتے ہوئے مزید کہا کہ کیا ایک اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت کا یہ رویہ مناسب ہے؟ آج کی حکومتی پارٹیاں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں پیکا قانون کو سیاہ قانون کہا کرتی تھیں، کیا یہ کھلا تضاد دوغلاپن اور رنگ برنگی نہیں ہے؟
لاہور میں ملازم نے جان بوجھ کر شیر کا پنجرہ کھول دیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: حافظ حمداللہ پیکا ایکٹ
پڑھیں:
حق کے چراغ
حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیکا ترمیمی بل2025 اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025منظورکیے ہیں،جن پرمختلف حلقوں کی جانب سے تنقیداورتشویش کااظہارکیا جا رہا ہے۔ ان قوانین کے تحت حکومت پرالزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ آزادی اظہارکومحدود کرنے اوراپنے مخالفین کونشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر ان قوانین کی تفصیلات،ان کے ممکنہ فوائد اور نقصانات ،اورآزادی اظہارپران کے اثرات کا جائزہ لیں تویوں محسوس ہوتاہے کہ اس بل میں بے مہار آزادی اظہارپر پابندی کے نام پر اس آزادی کا بھی گلہ گھونٹ دینے کی کوشش کی گئی ہے جوبہرحال کسی بھی ادارے کی من مانی پر قدغن لگانے کیلئے ضروری ہے۔
پیکا ترمیمی بل2025کے تحت’’سوشل میڈیاپروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی‘‘کے قیام کی تجویزدی گئی ہے۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اورحقوق کویقینی بنانے،سوشل میڈیاپلیٹ فارمزکی رجسٹریشن،معیارات کے تعین، اور غیر قانونی موادکوہٹانے جیسے اختیارات کی حامل ہوگی۔ بل کے مطابق،فیک نیوزپھیلانے پرتین سال قیدیا 20لاکھ روپے جرمانہ یادونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔غیرقانونی موادکی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یادفاع کے خلاف مواد،جعلی یاجھوٹی رپورٹس،عدلیہ یامسلح افواج کے خلاف مواد، امن عامہ،غیرشائستگی،توہین عدالت، غیراخلاقی مواد، اور کسی جرم پراکساناشامل ہیں۔ اگرچہ دستیاب معلومات میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کی مخصوص تفصیلات محدود ہیں،تاہم اس بل کا مقصدملک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچرکو مضبوط کرنا اور ڈیجیٹل معیشت کوفروغ دیناہوسکتا ہے۔اس میں ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ،آن لائن سروسزکی ریگولیشن، اور ڈیجیٹل خواندگی کوبڑھانے جیسے اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیاکی نگرانی اورریگولیشن کیلئے پہلے ہی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) موجود ہے، جو ٹیلی ویژن اورریڈیونشریات کو کنٹرول کرتی ہے۔ دراصل پیمراکادائرہ کارالیکٹرانک میڈیا تک محدود ہے اوریہ سوشل میڈیایاآن لائن پلیٹ فارمزپر موثرکنٹرول نہیں رکھتا۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ،آن لائن پلیٹ فارمزپرجعلی خبروں،نفرت انگیزمواد،اورغیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے مخصوص قوانین کی ضرورت محسوس کی گئی۔
پیکا ترمیمی بل2025کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے،جوسوشل میڈیاپلیٹ فارمزکی نگرانی اورریگولیشن کیلئے مخصوص ہوگی۔اس کے علاوہ،قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کی بھی تجویزہے، جوسوشل میڈیا پر غیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔ تاہم، پیکا ترمیمی بل 2025 اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کی منظوری کے بعدسوال اٹھتاہے کہ ان نئے قوانین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیاپیمراکے قیام کے وقت ان خطرات کاعلم نہیں تھاجن کاذکر کرکے نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں جن پرساری صحافتی برادری احتجاج کررہی ہے۔
حکومت کامؤقف ہے کہ ان قوانین کے ذریعے غیرقانونی،غیراخلاقی،اورملک دشمن مواد کی نشریات کوکنٹرول کیاجاسکے گا،جو معاشرتی ہم آہنگی اورقومی سلامتی کیلئے فائدہ مندہوسکتا ہے۔ فیک نیوزاورغلط معلومات کے پھیلائوکوروکنے کیلئے سخت سزائیں مقررکی گئی ہیں،جومعاشرتی انتشار کو کم کرنے میں مددگارثابت ہوسکتی ہیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن اورمعیارات کے تعین سے آن لائن موادکی نگرانی اورصارفین کے حقوق کاتحفظ ممکن ہوگا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان قوانین کی وسیع تعریفات اورسخت سزاؤں کی وجہ سے آزادی اظہارپرقدغن لگنے کاخدشہ ہے، جو جمہوری اقدارکے منافی ہوسکتا ہے۔ حکومت ان قوانین کااستعمال اپنے مخالفین کونشانہ بنانے اور تنقیدی آوازوں کودبانے کیلئے کر سکتی ہے، جوسیاسی آزادی کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ صحافی تنظیموں نے ان قوانین کی مذمت کی ہے اور انہیں آزادی صحافت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے، جو آزاد میڈیا کی فعالیت کو محدودکرسکتاہے۔
پیکا ترمیمی بل2025اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کے مقاصدمیں غیر قانونی مواد کی روک تھام اورسوشل میڈیاکی ریگولیشن شامل ہیں،جوبظاہرمثبت اقدامات ہیں۔ تاہم ،ان قوانین کی وسیع تعریفات،سخت سزائیں،اورحکومتی اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کی وجہ سے آزادی اظہار، آزادی صحافت،اورسیاسی آزادی پرمنفی اثرات مرتب ہونے کاخدشہ ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان قوانین پرنظرثانی کی جائے اورتمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرزبشمول میڈیا،سول سوسائٹی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشاورت سے متوازن قانون سازی کی جائے،تاکہ آزادی اظہار اور قومی سلامتی کے درمیان مناسب توازن قائم کیاجاسکے۔
اگرچہ پیمراالیکٹرانک میڈیاکی نگرانی کیلئے موجودہے،لیکن آن لائن اورسوشل میڈیا پلیٹ فارمزپرموثرکنٹرول کیلئے نئے قوانین کی ضرورت محسوس کی گئی۔تاہم،پیکاترمیمی بل 2025 کی منظوری کے بعدصحافیوں اورآزادی اظہار کے حامیوں کی جانب سے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیاجارہاہے۔عالمی صحافتی ادارے ممکنہ طورپراس احتجاج میں شامل ہو سکتے ہیں اورپاکستانی صحافیوں کی حمایت میں آوازبلندکرسکتے ہیں۔
پیکاترمیمی بل2025کی منظوری کے بعد پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے اس کے خلاف ملک گیراحتجاج کااعلان کیاہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) کی کال پر لاہور، اسلام آباد،کراچی سمیت مختلف شہروں میں صحافیوں نے ریلیاں نکالیں اوراس قانون کو آزادی صحافت کیلئے خطرہ قراردیا۔ عالمی سطح پر، صحافیوں کے حقوق اور آزادی اظہارکے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ادارے جیسے رپورٹرز ودآٹ بارڈرز اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس ممکنہ طور پر اس احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں۔یہ ادارے ماضی کمیٹی ٹوپروٹیکٹ،جرنلسٹس میں بھی پاکستان میں صحافیوں کے خلاف قوانین اور اقدامات پر آواز اٹھاتے رہے ہیں اورحکومت پر دبائوڈالنے کیلئے بیانات جاری کرتے رہے ہیں ۔ اگرپاکستان کی صحافتی تنظیمیں ان عالمی اداروں سے رابطہ کرتی ہیں توممکن ہے کہ یہ ادارے اس معاملے پر پاکستانی صحافیوں کی حمایت میں بیانات جاری کریں اوربین الاقوامی سطح پراس مسئلے کواجاگر کریں۔
یہ امرقابل غورہے کہ یہی قانون 2022ء میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی، جس پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کیاتھا۔ آخرمیں ایک واقعہ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں: پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی اورشاعرآغا شورش کشمیری نے سید ابوالاعلی مودودی کوایک خط لکھاجس میں انہوں نے کہا مولاناتاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ہوئی ہے۔ مولانانے اس خط کے جواب میں جولکھاوہ سننے کے لائق ہے۔
حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ وہ بجائے خودحق،ہے،وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جوسراسرصحیح اورصادق ہے۔اگرتمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے کیونکہ اس کاحق ہونااس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیااس کو مان لے،دنیاکاماننانہ مانناسرے سے حق وباطل کے فیصلے کامعیارہی نہیں ہے۔ دنیا حق کونہیں مانتی توحق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانااورباطل کوقبول کرلیا‘ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انہیں ردکردیااورباطل پرستوں کواپنارہنما بنایا۔اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اوروہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کاردوقبول ہرگزحق وباطل کا معیار نہیں ہے۔لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنااورٹھوکریں کھاناچاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اورٹھوکریں کھاتی رہے۔ہماراکام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلاناہی ہے اورہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یابھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔اللہ کایہ احسان ہے کہ اس نے ہمیںاندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اس احسان کاشکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں۔