میوزیم آف دی فیوچر نے دبئی کی روڈز اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی (آر ٹی اے) کے اشتراک سے جوبی ایوی ایشن کی تیار کردہ فضائی ٹیکسی کا پروٹو ٹائپ جاری کر دیا۔

گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق میوزیم کے ٹومارو، ٹوڈے فلور پر نمائش کے لیے پروٹو ٹائپ اسمارٹ، پائیدار نقل و حمل کے لیے دبئی کے وژن اور دبئی سیلف ڈرائیونگ حکمت عملی کے لیے اس کے عزم کو اجاگر کرتا ہے۔

فضائی ٹیکسی کا مقصد 2030 تک سفر کو 25 فیصد سیلف ڈرائیونگ بنانا ہے، جدید برقی ٹیکنالوجی پر مشتمل اس منصوبے کا مقصد کاربن کے اخراج کو کم کرنا اور عالمی استحکام کے مقاصد کی حمایت کرنا ہے۔

آر ٹی اے کی پبلک ٹرانسپورٹ ایجنسی میں ٹرانسپورٹیشن سسٹمز کے ڈائریکٹر خالد العوادھی نے کہا کہ ہم میوزیم آف دی فیوچر میں فضائی ٹیکسی ماڈل کی نمائش کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، جو اس متحرک شہر میں نقل و حرکت کی دوبارہ تعریف کرنے کے لیے دبئی کے عزائم اور آگے کی سوچ کی نشاندہی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہری نقل و حرکت میں تبدیلی کے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہوئے، دبئی فضائی ٹیکسی منصوبے کا آغاز کرنے والا دنیا کا پہلا شہر بننے کے لیے تیار ہے ، جس کی خدمت 2026 کی پہلی سہ ماہی میں شروع ہونے والی ہے۔

فضائی ٹیکسی اپنی عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ مسافروں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے حفاظت اور سلامتی کے اعلیٰ ترین معیارات کی پاسداری کے لیے نمایاں ہے۔

نقل و حرکت کا مستقبل
میوزیم آف دی فیوچر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ماجد المنصوری نے کہا کہ میوزیم آف دی فیوچر فضائی ٹیکسی پروٹو ٹائپ کا گھر بن گیا ہے، جو نقل و حمل کے مستقبل کو تشکیل دینے میں دبئی کی قائدانہ قیادت کی عکاسی کرتا ہے، یہ اقدام زائرین کو نقل و حرکت کو دوبارہ ترتیب دینے، سفر کو تیز تر، محفوظ اور زیادہ پائیدار بنانے کے لیے ڈیزائن کردہ اختراعات کی جھلک فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آر ٹی اے کے ساتھ ہماری شراکت داری میوزیم کے بنیادی خیالات کی حوصلہ افزائی کرنے اور جدت طرازی کی ثقافت کو فروغ دینے کے مشن کی نشاندہی کرتی ہے، یہ دبئی کے بامعنی ترقی کے حصول کے وژن کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، جو ہماری قیادت کی امنگوں کی رہنمائی میں معاشرے کے لیے مفید ہے۔

پائیدار گاڑی
جوبی ایس 4 فضائی ٹیکسی جدید برقی ہوا بازی کی ٹیکنالوجی کی مثال ہے، یہ بجلی سے چلنے والی ایک پائیدار اور ماحول دوست گاڑی ہے، جو صفر نقصان دہ اخراج پیدا کرتی ہے، جدید ترین عالمی ٹیکنالوجیوں کے ساتھ ڈیزائن کی گئی، یہ گاڑی غیر معمولی حفاظت ، آرام اور رفتار پیش کرتی ہے۔

عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ ڈیزائن کے ساتھ زیرو ایمیشن گاڑی میں 6 روٹرز، 4 بیٹری پیک، 4 مسافروں اور ایک پائلٹ کی گنجائش ہے۔

اس کی رینج 161 کلومیٹر تک ہے اور زیادہ سے زیادہ رفتار 322 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، جو روایتی ہیلی کاپٹروں کا پرسکون متبادل پیش کرتی ہے۔

ابتدائی روٹس دبئی کے اہم مقامات کو جوڑیں گے، جن میں دبئی ایئرپورٹ، دبئی مرینا اور پام جمیرہ شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فضائی ٹیکسی نقل و حرکت نے کہا کہ دبئی کے کرتا ہے کے ساتھ کرتی ہے کے لیے

پڑھیں:

خالی ہاتھ

میّت نہلانے والی خاتون نے خالہ جان کی ناک میں پہنی ہوئی چھوٹی سی طلائی لونگ اتارنے کی اجازت چاہی۔اجازت ملنے پر انہوں نے خالہ جان کے بے جان جسم سے بہت احتیاط کے ساتھ طلائی لونگ اتار کر میرے حوالے کی۔یہ لونگ خالہ جان کے ورثا کی امانت تھی ۔لونگ ان کے حوالے کرنے کے لئے بہت احتیاط کے ساتھ پرس میں رکھ لی۔ وہ ہسپتال میں داخل تھیں اس لئے انہوں نے کوئی اور زیور نہیں پہنا ہوا تھا۔ گردے ناکارہ ہونے کے باعث وہ طویل عرصے سے ڈائیلاسس کرا رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی زندگی کی ساعتیں پوری ہو چکی تھیں۔ صبح ہسپتال میں ہی انہوں نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں گھر لے جانے کی بجائے میت خانے میں غسل دے کر جنازے میں دوسرے شہروں سے آنے والے عزیزوں کے انتظار میں سردخانے میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میت نہلانے والی خاتون اور بہن کے ساتھ مل کر خالہ جان کو غسل دیا۔ انہیں کفن پہنا کر سفر آخرت کیلئے تیار کیا۔ میت خانے میں خواتین کی میتوں کو وہاں متعین خاتون میت کے ساتھ آنے والی خواتین کے ساتھ مل کر میت کو غسل دیتی ہیں جس کا معاوضہ مقرر ہوتا ہے۔ جنازے کا وقت عصر کی نماز کے بعد تھا۔ خالہ جان کی میت کو دکھے دل کے ساتھ سرد خانے کے انچارج کے حوالے کیا۔ اپنے عزیزوں کو سفر آخرت کے لئے غسل دے کر تیار کرنا بہت مشکل اورصبر آزما کام ہے۔ ہمیشہ کی جدائی کا احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ زندگی بہت ہی مختصر ہے۔کوئی دنیا میں آنے سے پہلے ‘کوئی اچانک طویل علالت کے بعد اور کوئی کسی حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ذی روح کو کرنا ہے۔ دنیا عارضی اور آخرت ہمیشہ کی ہے۔موت زندگی کا اختتام نہیں بلکہ یوم حشر تک ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔بڑے بڑے محلات‘ کوٹھیوں اور چھوٹے چھوٹے کچے مکانوں میں رہنے والوں نے دنیا کی عارضی زندگی گزار کر یوم حشر تک مٹی تلے قبر میں ہی رہنا ہے۔اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے قبر میں جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور نافرمانوں کو جہنم دکھائی جاتی ہے ۔

کل نفس ذائقۃ الموت،ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے(القرآن)
خالہ جان گائنی کی ماہر اور معروف ڈاکٹر تھیں۔ دکھ درد میں ہر ایک کے کام آتیں‘ضرورت مندوں سے انہوں نے کبھی فیس نہیں لی تھی نہ ہی بھاری فیس لینے کے لئے نارمل زچگی کی بجائے کبھی سی سیکشن( آپریشن) کیا تھا۔آج کل یہ شکایات عام ہیں کہ بعض نجی کلینکوں میں ان زچہ خواتین کے بھی سی سیکشن کر دئیے جاتے ہیںجن کی زچگی نارمل ہو سکتی ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے کے لئے اس بلاضرورت آپریشن کی بھاری فیس ادا کرنا انتہائی مشکل ہو تا ہے لیکن زچہ اور بچے کی زندگی کے لئے ڈاکٹر کی بھاری فیس ادا کرنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔بعض لالچی اور مفاد پرست ڈاکٹربھاری فیس وصول کرنے کے لئے حاملہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتی ہیں کہ سی سیکشن سے بچے آسانی کے ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں۔

خالہ جان سے جدائی اورزندگی کی بے ثباتی کا سوچ سوچ کر میت خانے سے گھر تک کا سفر بہت مشکل تھا۔جانے والے چلے جاتے ہیں اور معمولات زندگی جاری رہتے ہیں۔سڑک پر ٹریفک اور اطراف میںزندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ذاتی گاڑیوں میں لوگ اپنے دفاترکے لئے جا رہے تھے۔ سکولوں کی گاڑیاں بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس جا رہی تھیں۔ بس سٹاپوں پر حضرات اور خواتین دفاتر جانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ سبزی اور پھل فروش ریڑھیوں پر سبزیاں اور پھل بیچ رہے تھے۔ صبح سویرے کاروبار شروع کرنے والے صبح کاروبار شروع کرنے کی برکتیں سمیٹ رہے تھے۔ ہمارے ہاں بازار اور شاپنگ مالزدوپہر بارہ یاایک بجے کھلنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بازار اور شاپنگ مال رات گئے تک کھلے رہتے ہیںجس سے بجلی کا زیاں بھی ہوتا ہے۔ ریلوے لائن کے اطراف رہنے والے خانہ بدوش پیشہ ور گداگر اپنے بچوں اور گداگری کے سازو سامان کے ساتھ سڑکوں اور ٹریفک سگنلز پر آچکے تھے۔ ان کے ٹھیکیدار انہیں مخصوص مقامات پر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ ہر روز وہیں کھڑے ہو کر بھیک مانگتے ہیں۔ رات کو ٹھیکیدار ہر گداگر سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ لوگ سفید پوش ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے گھروں، سڑکوں، سگنلز، بسوں وغیرہ میںمانگنے والے ہٹّے کٹّے پیشہ ور گداگروں کی مددکر تے ہیں جس کے باعث گداگری منافع بخش پیشہ بن چکا ہے۔

اطراف کا جائزہ لینے کے علاوہ خالہ جان کے ساتھ گزرا ہوا زندگی کا ہر لمحہ یاد آ رہا تھا۔مرحومہ میری سب سے چھوٹی خالہ تھیں۔صبح سرکاری ہسپتال میں ملازمت اور دوپہر کو اپنی کلینک کرتی تھیں۔ہسپتال جانے سے پہلے اور شام کو گھر آ کر امور خانہ داری بھی خوب سنبھالتیں ۔اس زمانے میں موبائل فون نہ ہونے کے باعث خواتین تعمیری کاموں میں وقت کا صحیح استعمال کیا کرتی تھیں۔ سلائی کڑھائی کی بھی ماہر تھیں‘ہم چھوٹی بھانجیوں کی پسند کے مطابق انہیں عید کے کپڑے سی کر دیتیں۔ عید کے لئے چوڑیاں، ہار، انگوٹھی اور ٹاپس وغیرہ دلوانے اپنے ساتھ بازار لے جاتیں۔ اس زمانے میں بہت کم دکانوں پر’’ فکس پرائس‘‘ کے بورڈ لگے ہوتے تھے۔خواتین دکانداروں سے قیمتیں کم کرایا کرتی تھیں اور وہ مناسب کمی بھی کر دیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے ہمیں خریداری کرنے کے طریقے سکھائے۔ وہ اپنی آخرت سنوارنے کی بھی بہت فکر کیا کرتی تھیں۔ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتیں۔ اکثر کہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اسی لئے میں پردہ کرتی ہوں، انسان دنیا سے خالی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جائے گاصرف اس کے اعمال ہی ساتھ جائیں گے۔ اس لئے دنیا کی کامیابی سے زیادہ آخرت کی کامیابی کی فکر کرنی چاہیے۔ واقعی انسان دنیا سے خالی ہاتھ ہی واپس جاتا ہے۔ صرف اس کے اچھے اور برے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ مکانات، کپڑے، زیورات، آسائش کا سامان، آرائشی اشیا، تعلیمی ڈگریاں، مستقبل کے لئے پس انداز کی ہوئی رقم، جاں نثار کرنے والے والدین، بہن بھائی اور دیگر رشتے داروں میں سے کوئی بھی تو ساتھ نہیں جاتا۔حشر والے دن بھی کوئی کسی کی فکر نہیں کرے گا۔ ہر ایک کو اپنی فکر ہو گی کہ دنیا میں اس نے جو اعمال کئے تھے ان کا آسان حساب لیا جائے۔جن کا نامہ ٔ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ جنت میں جانے والے خوش نصیب ہوں گے۔ سب کو اپنے جنت میں جانے کی خوش خبری سنا رہے ہوں گے۔گھر پہنچ کر خالہ جان کی طلائی لونگ خالو کے حوالے کرتے ہوئے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ انسان واقعی دنیا سے خالی ہاتھ صرف اپنے اعمال ساتھ لے کر جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خالی ہاتھ
  • سعودی عرب کی نئی ایئرلائن کا پاکستان کے لیے فلائٹ آپریشن شروع
  • فلسطینیوں کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمان
  • نئی سعودی ائرلائن ’’فلائی ادیل‘‘کا پاکستان کیلیے فلائٹ آپریشن شروع
  • صدر کا ایرو سپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کا دورہ، منصوبہ معیشت کی بنیاد بننے کیلئے تیار، بریفنگ
  • وزیر خزانہ کی ایزی پیسہ کو پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل بینک بننے پر مبارکباد
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان2  مزید ایئر لائنز پروازیں شروع کیلئے تیار
  • فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (آخری حصہ)
  • جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے مرکزی رن ویز کو تکنیکی طورپرمزین کرنے کے لیے منصوبہ جاری