کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، اس بار تیاری کیساتھ اسلام آباد جائیں گے: جنید اکبر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، اس بار تیاری کیساتھ اسلام آباد جائیں گے: جنید اکبر WhatsAppFacebookTwitter 0 2 February, 2025 سب نیوز
پشاور: پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے صد ر و رکن قومی اسمبلی جنید اکبر خان نے کہا ہے کہ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے ، اس بار ہم پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد جائیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی صدر پی ٹی آئی جنید اکبر کا کہنا تھا کہ ہمیں امید نہیں تھی ہم پر اسلام آباد میں گولیاں چلائی جائیں گی، کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم ڈر جائیں گے، اس بار پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد جائیں گے، عمران خان نے حکم دیا تو انہیں اور عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جس تھانے کی حدود میں پی ٹی آئی کا ورکر قید ہوگا تو ورکرز اس تھانے کی حدود میں پہنچیں گے، تمام ورکر اس تھانے کے باہر دھرنا دیں گے،میں وہی بات کرتا ہو جو کر سکوں،میں اس طرح کے ڈرامے مزید برداشت نہیں کروں گا۔
جنید اکبر کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے پارٹی ، اداروں یا حکومت کے ساتھ تصادم ہو، پارٹی ہدایات کے مطابق رابطے ہورہے تھے، ہم درمیانہ راستہ نکالنا چاہتے ہیں تاکہ ایک پرامن حل کی طرف جائیں، 8 فروری کو صوابی میں جلسے کے حوالے سے تیاریاں کی جارہی ہیں، صوابی کا جلسہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا۔
صدر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور حکومت پر اور میں پارٹی سیاست پر فوکس کروں گا،پارٹی میں اب جزاء اور سزا کا نظام لاؤں گا،میں کسی وزارت کی دوڑ میں نہیں ہوں، جو گراؤنڈ میں کام کرے گا وہ آگےآئے گا، حکومت میں تبدیلیاں وزیراعلی کا منڈیٹ ہے میرا کوئی عمل دخل نہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد جائیں گے غلط فہمی میں نہ رہے جنید اکبر
پڑھیں:
روہنگیا مسلمان۔۔۔۔۔ کہاں جائیں
اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ برما کے رہنماﺅں کا اقلیتی روہنگیا کیخلاف یہ رویہ سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔ روہنگیا بے حد چھوٹی اقلیت ہیں اور عوامی جذبات اُنکے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اُنکی مدد کیلئے تیار نہیں۔ برما کے یہ حالات نہ صرف مسلمانوں، بلکہ پوری دُنیا کے انسانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، کسی انسان کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ وہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور برمی مسلمانوں کے تحفظ کے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
روہنگیا کے مسلمانوں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ان کی دربدری کی مشکلات دیکھ کر دل کڑتا ہے۔ غزہ سمیت کئی علاقوں میں مسلمانوں کی حالت زار پر کہیں نہ کوئی ردعمل سامنے آتا ہے، لیکن میانمار کے مسلمانوں کو ہم نے مکمل نظرانداز کر رکھا ہے۔ ان مسلمانوں کی حالت زار سن کر کسی بھی مسلمان ملک یا ادارے سے کوئی موثر آواز سامنے نہیں آرہی۔ دوسری طرف میانمار حکومت عالمی برادری سے مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ میانمار کی فوجی جنتا نے ملک میں بغاوت کے چار سال مکمل ہونے سے ایک دن پہلے ہنگامی حالت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ میانمار اس وقت مختلف علاقوں میں خانہ جنگی میں مصروف ہے۔
دوسری طرف روہنگیا مسلمان، جنہیں فوج اور انتہاء پسند بدھسٹوں کے پرتشدد اور مہلک حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی درخواست کے باوجود میانمار کی فوجی حکومت ان کے مسائل کے حل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت بھی اس ملک کی حکومت کے ساتھ بنگلہ دیش سے آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ اس صورتحال نے بنگلہ دیشی حکومت کو روہنگیا پناہ گزینوں کو، جن کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے، کو دور دراز جزیروں کے کیمپوں میں بھیجنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
میانمار میں خانہ جنگی کے نتیجے میں تیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان ہیں، جو میانمار کے مختلف حصوں اور خطے کے ممالک بشمول بنگلہ دیش، ملائیشیا، بھارت، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں زندگی کے دشوار ایام گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، میانمار کی فوجی حکومت پر نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے، میانمار میں پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ نے میانمار میں خانہ جنگی کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنے پر زور دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ متحارب فریقوں کے درمیان موجودہ صورت حال غیر موثر ہے اور انہیں اس ذہنیت پر قابو پانا چاہیئے اور میانمار کے عوام کے مسائل کے حل میں مدد کرنی چاہیئے۔ بے گھر افراد کو دربدری برداشت کرنے کے علاوہ متعدد معاشی اور خوراک کے مسائل کا بھی سامنا ہے، جس سے خواتین اور بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اگرچہ میانمار کی فوجی حکومت نے اس سال انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی واضح نقطہ نظر سامنے نہیں ہے، کیونکہ فوج نے میانمار میں انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی ہے اور یہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے الیکشن کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ ممکنہ فوجی انتخابات کے نتائج پہلے ہی معلوم ہوچکے ہیں، اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ ایسے انتخابات اس ملک کے عوام کی مرضی کے خلاف ہوں گے اور وہ انہیں قبول نہیں کریں گے، اس لیے انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں سے کہا ہے کہ ایسے انتخابات کے نتائج کے اعلان کو قبول نہیں کرتے۔ بہرحال، میانمار کی ایک تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور ملک پر حکمرانی کرنے والی فوج پر دباؤ ڈالنے کا واحد راستہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) ہے۔
میانمار اس کے دس ارکان میں سے ایک ہے، لیکن چونکہ یونین اپنے قانون کے مطابق اپنے ارکان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، اس لیے میانمار کی فوجی حکومت پر اثر و رسوخ رکھنے والے واحد ممالک چین اور کسی حد تک بھارت ہیں، جن سے میانمار کے لوگ اپنے مسائل کے حل کی توقع رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برما کے رہنماﺅں کا اقلیتی روہنگیا کے خلاف یہ رویہ سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔ روہنگیا بے حد چھوٹی اقلیت ہیں اور عوامی جذبات اُن کے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اُن کی مدد کے لئے تیار نہیں۔ برما کے یہ حالات نہ صرف مسلمانوں، بلکہ پوری دُنیا کے انسانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، کسی انسان کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ وہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور برمی مسلمانوں کے تحفظ کے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔