Express News:
2025-02-02@10:42:45 GMT

اراکین پارلیمنٹ کی عیاشیاں اور عوام کی بدحالی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ایک متنازع فیصلہ ہے، جس پر ملک بھر میں شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے ہاتھوں پریشان ہیں، اور ایسے میں حکومتی نمائندوں کےلیے مراعات میں اضافہ کرنا عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔

قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے کے تحت، اب ایک رکن قومی اسمبلی یا سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ و مراعات 5 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگی۔

یہ اضافہ اس اصول کے تحت کیا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور مراعات وفاقی سیکریٹری کے برابر ہونی چاہئیں۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق، اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اس فیصلے کی متفقہ منظوری دی، جس میں یہ طے کیا گیا کہ تمام کٹوتیوں کے بعد وفاقی سیکریٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز کے مساوی رقم ہی اراکین پارلیمنٹ کو دی جائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اراکین پارلیمنٹ نے 10 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اسپیکر ایاز صادق نے اسے مسترد کرتے ہوئے 5 لاکھ 19 ہزار کی حد مقرر کی۔ اگرچہ اسپیکر نے مطالبہ پورا نہیں کیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ میں اضافہ واقعی ضروری تھا؟

پاکستان میں موجودہ وقت میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ پٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں روزانہ اضافے کے باعث عوام پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حکومت عوام کو کفایت شعاری کا درس دیتی ہے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے دعوے کرتی ہے۔

پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک عام شہری جو پہلے 30 سے 40 ہزار روپے میں گھر کا خرچ چلا لیتا تھا، آج وہی شخص دو وقت کی روٹی کےلیے پریشان ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کے اراکین کےلیے 5 لاکھ سے زائد کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا جواز کیا ہوسکتا ہے؟

اس وقت پاکستان پر مجموعی طور پر 130 ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضہ ہے۔ ملک کی معیشت بیرونی امداد اور قرضوں پر چل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل کیا تاکہ ملک دیوالیہ نہ ہو۔ ایسے میں عوام کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں بنیادی سہولتوں پر خرچ کرنے کےلیے پیسے نہیں، تو پارلیمنٹیرینز کی تنخواہیں بڑھانے کےلیے بجٹ کہاں سے آگیا؟

ایک عام دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کا معیار زندگی بلند ہونا چاہیے تاکہ وہ کرپشن سے دور رہیں اور ملک و قوم کےلیے بہتر پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔ یہ دلیل کسی حد تک درست ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم پاکستان کے زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایک مختلف تصویر نظر آتی ہے۔

پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کی مراعات پہلے ہی کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیں۔ انہیں سرکاری گاڑیاں، رہائش، مفت سفری سہولتیں، ہیلتھ کیئر اور دیگر کئی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ترقیاتی فنڈز کی شکل میں بھی انہیں خطیر رقم دی جاتی ہے، جس کے استعمال پر اکثر سوالات اٹھتے ہیں۔

دوسری طرف، اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کریں تو امریکا، برطانیہ، اور دیگر مغربی ممالک میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں عوامی معیار زندگی اور ملک کی معیشت کے مطابق طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام شہری 32 ہزار روپے ماہانہ کم از کم اجرت پر بمشکل گزارا کر رہا ہے، وہاں پارلیمنٹ کے اراکین کےلیے لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات ایک غیر منطقی اقدام معلوم ہوتا ہے۔

حکومت کو سب سے پہلے عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر واقعی قومی خزانے میں اتنی گنجائش ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائی جاسکتی ہیں، تو پھر یہی رقم تعلیم، صحت، اور دیگر عوامی سہولیات پر کیوں نہیں لگائی جاسکتی؟

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کا بنیادی مقصد عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وہاں عوام کو سستی ٹرانسپورٹ، معیاری صحت کی سہولتیں، اور بہترین تعلیمی مواقع دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس، حکومتی اخراجات میں اضافے کی صورت میں بوجھ صرف عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔

اگر موجودہ حکومت واقعی ملک کے معاشی مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور اراکین پارلیمنٹ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، حکمران نہیں۔

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کےلیے بھی نئی گاڑیاں منگوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت بار بار کفایت شعاری اور معاشی بحران کی دہائی دے رہی ہے، تو پھر بیوروکریسی اور پارلیمنٹ کےلیے غیر ضروری مراعات کی فراہمی کیوں کی جارہی ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ انہی فنڈز کو عام شہریوں کی بہبود کےلیے مختص کیا جائے؟

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ اور ایف بی آر افسران کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری جیسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتی ترجیحات عوامی مشکلات سے کہیں زیادہ اشرافیہ کی سہولتوں پر مرکوز ہیں۔ اگر عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا، تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے تو گریز کیا جائے!

ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو یا عوام مسائل کے انبار میں گھرے ہوں، سیاسی شعبدہ بازوں کو تو غرض اپنے آپ سے ہے اور ان کا نیرو چین کی بانسری ہی بجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ پاکستان میں کی تنخواہیں قومی اسمبلی میں اضافہ اور دیگر ایسے میں عوام کو ہوتا ہے

پڑھیں:

پیٹرولیم و ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی دعوؤں کی نفی ہے، کاشف شیخ

کراچی (اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے ایک بارپھرپیٹرولیم مصنوعات سمیت ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کو ملک میں معاشی ترقی کے حکومتی دعوؤں کی نفی ہے قراردیتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ حکومت جھوٹ کی بنیادپرکھڑی ہے۔دوسری جانب شاٹ فال پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا منی بجٹ لانے کا مطالبہ
ظالمانہ ہماری آزادی و خود مختاری پر سوالیہ نشان ہے۔ وزیر خزانہ صاحب اپنا گھر ٹھیک کا مطلب مہنگائی کے طوفان سے عوام کو زندہ زمین میں درگور کرنا نہیں بلکہ وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج اور شاہانہ اخراجات ختم کرکے کفایت شعاری کی پالیسی اپنانا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے قبا آڈیٹوریم میں منعقدہ شعبہ جات کے اجلاس سے خصوصی خطاب کے دوران کیا۔ ناظمین شعبہ جات کا اجلاس سندھ کے جنرل سیکرٹری محمد یوسف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سالانہ کارکردگی کا جائزہ اور ائندہ کی منصوبہ بندی سمیت دیگر امور پر غورکیا گیا۔ صوبائی نائب امرا حافظ نصراللہ چنا، محمد افضال آرائیں اور نائب قیمین علامہ حزب اللہ جکھرو ، مولانا آفتاب احمد ملک ، مولانا عبدالقدوس احمدانی اور احمد سہیل شارق بھی ساتھ موجود تھے۔صوبائی امیرنے تمام شعبہ جات کورفتارکاربڑھانے پرزوردیتے ہوئے کہاکہ جماعت اسلامی اقامت دین کی تحریک ہے جو ملک میں قرآن سنت کے نفاذ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔انہوں نے قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ میں 140فیصد اضافے پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے اسے غربت وافلاس کے مارے عوام کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف قراردیتے ہوئے کہاکہ اراکین کی تنخواہ میں اضافہ پر حکومت واپوزیشن ارکان میں اتفاق کی سے واضح ہوگیا کہ اراکین اسمبلی کو عوام کی مشکلات و مسائل کی کوئی فکر نہیں ہے،یہ بظاہر تو ایک دوسرے کے خلاف بیانات وتقاریر کرتے ہیں مگر جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن سے لیکرارکان اسمبلی کی تنخواہوں تک ایک پیج پر ہیں۔50 فیصد عوام غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پرمجبور مہنگائی نے عوام کی زندگی عذاب بنادی ہی مگر حکمرانوں سمیت اشرافیہ و بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات ومراعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیٹرولیم و ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی دعوؤں کی نفی ہے، کاشف شیخ
  • ریئل اسٹیٹ اور ہا ئو سنگ سیکٹر میں عوام کے لیے مراعات کا پیکیج تیار، 11رکنی ٹاسک فورس کی سفارشات وزیراعظم شہباز شریف کو پیش
  • رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر میں عوام کے لیے مراعات کا پیکیج تیار
  • وزیراعظم نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافے کی منظوری دیدی
  • اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200وفیصد اضافہ
  • وزیراعظم نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافے کی منظوری دے دی
  • وزیراعظم نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دے دی
  • اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری، ہر رکن کو کتنی تنخواہ ملے گی؟تفصیلات سب نیوز پر
  • اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ، فنانس کمیٹی نے منظوری دے دی