تحریک انصاف نے لاہور کے بعد سیالکوٹ میں بھی جلسے کی اجازت مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرکزی رہنما ریحانہ امتیاز ڈار نے کہا کہ خدا کا خوف کریں، حق اور سچ کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا ٹی وی پر بلائے، میں خواجہ آصف کی ہر بات کا جواب دوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جلسہ کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ عوام کو بتا سکیں کہ ہم حق کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جلسے کی اجازت نہ ملی تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک بھی جاؤں گی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے لاہور کے بعد سیالکوٹ میں بھی جلسے کی اجازت مانگ لی۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 8 فروری کو جلسہ عام کرنے کی اجازت کے حصول کیلئے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے دی گئی ہے۔ یہ درخواست پی ٹی آئی کی مرکزی رہنما ریحانہ امتیاز ڈار کی جانب سے دی گئی ہے، وہ سٹی صدر میاں اعجاز اور اپنے وکلا کی ٹیم کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر کو درخواست دینے کیلئے پہنچیں۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا خوف کریں، حق اور سچ کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا ٹی وی پر بلائے، میں خواجہ آصف کی ہر بات کا جواب دوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جلسہ کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ عوام کو بتا سکیں کہ ہم حق کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جلسے کی اجازت نہ ملی تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک بھی جاؤں گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ جلسے کی اجازت
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ: پیکا ترمیمی قانون کےخلاف درخواست پر فریقین کو نوٹس
لاہور ہائی کورٹ نے فوری طور پر پیکا ترمیمی قانون 2025 کی مختلف شقوں پر عملدرآمد روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔
نئی دفعات میں ’جعلی خبروں‘ کے لیے سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ریاستی نگرانی میں توسیع کی گئی ہے اور سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے نئے ریگولیٹری اداروں کی تشکیل کی جائے گی۔
صدر آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں، صحافتی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل کے باوجود بدھ کو پیکا ترامیم کی منظوری دے دی تھی۔
اس بل کے خلاف ایک روز قبل لاہور ہائی کورٹ میں صحافی جعفر بن یار نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے ذریعے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی آرا پر غور کیے بغیر جلد بازی میں بل منظور کیا گیا۔
آج درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس فاروق حیدر نے درخواست گزار کی پیکا ترمیم کی مختلف شقوں پر عمل درآمد فوری طور پر روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے فریقین کا مؤقف آجائے پھر فیصلہ کریں گے۔
جسٹس فاروق حیدر نے تمام فریقین سے 3 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے انہیں نوٹسز بھی جاری کر دیئے۔
ناقدین قانون سازی کو اختلاف رائے کو دبانے اور تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے ایک آلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ حکومت کا اصرار ہے کہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے لیے یہ ضروری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہفتے کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر یہ قانون بن گیا تو ملک کے سائبر کرائم قوانین میں حال ہی میں مجوزہ تبدیلیاں ’پاکستان کے انتہائی کنٹرول والے ڈیجیٹل منظر نامے پر حکومت کی گرفت کو مزید سخت کر سکتی ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے پیکا کی تاریخ کے ساتھ مجرمانہ عناصر کے مشکوک اور مبہم اقدامات ان خدشات کو جنم دیتے ہیں کہ یہ نیا جرم ملک میں آن لائن اظہار کی بچی کچی آزادی بھی ختم کردے گا۔‘
صحافیوں نے اس قانون کو ’آزادی اظہار پر حملہ‘ قرار دیا ہے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکمران اتحاد کی جماعت پیپلز پارٹی پر منافقت کا الزام لگایا ہے اور بل کی حمایت پر تنقید کی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ اس قانون کے خلاف جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کے سلسلے کے ساتھ ’یوم سیاہ‘ منائے گی۔