8فروری کااحتجاج جنیداکبرکا کڑا امتحان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) تحریک انصاف نے 8 فروری کو عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر ملک گیر احتجاج اور صوابی میں بڑے احتجاجی جلسے اور خیبرپختونخوا
کو ملانے والے پنجاب ، گلگت بلتستان کے راستے بلاک کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے ، یہ اعلان خیبرپختونخوا تحریک انصاف کے صدر جنید اکبر نے کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات نہیں ہوگی ، ماضی کی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے ضرور رابطے کرتی رہی ہے ، ہم عوامی قوت کے بل بوتے پر اپنے مطالبات منوائیں گے جس پر وزیر داخلہ محسن نقوی نے تحریک انصاف کی قیادت سے یہ درخواست کردی ہے کہ 8فروری کے احتجاج کی کال پر نظرثانی کریں ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ایسا ہی ہوگا جیسا پہلے ہوگا ، وزیر داخلہ محسن نقوی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوںکی نمائندگی کرتے ہیں اور حال ہی میں امریکہ کا دورہ کر کے آئے ہیں ۔ علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف ، محسن نقوی کے ذریعے ہی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے اور ملاقاتیںکرتے رہے ہیں ، 26نومبرکو احتجاج سے قبل بھی رابطے ہوئے تھے، تحریک انصاف کے رہنما بعدمیں یہ انکشاف کرتے رہے کہ اگر سنگجانی دھرنا دینے کی تجویز مان لی جاتی تو 26نومبرکے واقعات نہ ہوتے اور عمران خان کی رہائی کا راستہ بھی ہموار ہوجاتا یا انہیں بنی گالہ سب جیل منتقل کردیا جاتا، تحریک انصاف کے اندر اختلافات کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں اور عمران خان نے حال ہی میںگنڈا پورکو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کر جنید اکبر کو نئی ذمہ داریاں سونپی ہیں اور جنید اکبر کیلئے یہ کڑا امتحان ہے کہ وہ 8فروری کا احتجاج کتنا کامیاب بناتے ہیں اور گنڈا پور ان کیساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں ، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر 8فروری کو احتجاج کیلئے گنڈا پور نے جنید اکبر سے تعاون نہ کیا گیا توگنڈا پورکی وزارت اعلیٰ خطرے میں پڑ سکتی ہے ، جہاں تک راستے بند کرنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے ، راستے بند کرنے سے کیا حکومت پر دبائو پڑے گا یا صرف عوام کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ، جی ایچ کیو حملہ کیس میں پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت میں 15تصاویر بطور ثبوت پیش کی گئیں اور اس دوران جی ایچ کیو حملے میں نقصانات کا تخمینہ لگانے والے ایس ڈی او بلڈنگ کا بیان بھی قلمبند کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ مجموعی نقصانات 7لاکھ 80ہزار کا ہوا، عدالت میں استغاثہ کی جانب سے 13یو ایس بی بھی جمع کرائی گئیں ، جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور عمران خان پوری سماعت میں موجود ہوتے ہیں اور اسی دوران ان کی وکلاء اور صحافیوں سے ملاقاتیں بھی ہوجاتی ہیں ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تحریک انصاف جنید اکبر ہیں اور
پڑھیں:
وزیر اعظم کی مذاکرات کی تازہ پیشکش!
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات اور بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صدق دل سے مذاکرات کے لیے تیار ہے کیونکہ ملک اس وقت انتشار کے سبب کسی مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا مذاکرات کی اس پیشکش کے ساتھ وزیر اعظم نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے جو 2018ء اور 2024ء کے انتخابات کی تحقیقات اور 26 نومبر 2024ء اور 2014 ء کے تحریک انصاف کے دھرنوں کا بھی احاطہ کرے۔ جمعرات کے روز اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے تحریک انصاف سے مذاکرات کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے ان کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کے توسط سے کمیٹی کی تشکیل کے بعد بات چیت شروع کی، ساز گار ماحول دیا، کمیٹی نے کہا کہ مطالبات لکھ کر دیے جائیں جن کا جواب بھی تحریری دیا جانا تھا لیکن مقررہ تاریخ سے قبل ہی پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی، کمیٹی نے ان سے بیٹھ کر بات کرنے کی درخواست کی جو نہیں مانی گئی۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد جب ہم کالی پٹیاں باندھ کر ایوان میں داخل ہوئے تو عمران نیازی نے کہا کہ وہ ہائوس کی کمیٹی بنا رہے ہیں، ان کی بنائی گئی کمیٹی کا ایک آدھ اجلاس ہوا اس کے بعد وہ دن گیا اور آج کا دن آ گیا ہے، یہ اپنے گریبان میں جھانکیں، انہوں نے جوڈیشل کمیشن نہیں ہائوس کی کمیٹی بنائی تھی لیکن اس کی کارروائی کو بھی آگے نہیں بڑھایا، وزیر اعظم نے پیش کش کی کہ پی ٹی آئی آئے ہم ہائوس کمیٹی کی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں، تاکہ ملک آگے بڑھے نہ کہ ان کے پھیلائے گئے انتشار کے ہاتھوں ملک کا نقصان ہو، ملک مزید کسی نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف نے وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی ہے اور تحریک کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے وزیر اعظم شہباز شریف کی بات چیت کی تازہ دعوت کے جواب میں کہا ہے کہ حکومت کے خلاف ہماری چارج شیٹ بہت طویل ہے، وزیر اعظم کی پیشکش کو قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ہمارے مطالبات سے ہٹ کر ہے۔ ہم نے اپنے اسیران کی رہائی اور دو واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، ہم نے مینڈیٹ کی تو ابھی بات بھی نہیں کی ہے، وزیر اعظم کی باتیں غیر متعلقہ ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا کہ ہائوس کمیٹی بنانا کوئی طریقہ نہیں ہے، کمیشن پر لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے، ہائوس کمیٹی بنانے کی تجویز کوئی بہتر نہیں ہے، حکومت اگر مذاکرات پر سنجیدہ ہوتی تو کمیشن اب تک بن چکا ہوتا، ہماری قانون اور انصاف کی جنگ چل رہی ہے، جیسے بھی ممکن ہوا ہم قانون اور انصاف کے سامنے پیش ہوتے رہیں گے۔ پی ٹی آئی کا مذاکرات کا دروازہ کھولنے کا مقصد تھا کہ ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، ملک کو سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے ہم مذاکرات کے لیے راضی ہوئے، معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حکومت کی نیک نیتی شامل ہونی چاہیے۔مذاکرات اور مکالمہ جمہوریت کا حسن اور سیاسی عمل کا جزو لازم ہیں، فریقین کے مابین اختلافات، گلے، شکووں اور شکایات کا ازالہ باہم مل بیٹھ کر گفت گو ہی سے ممکن ہے، دو طرفہ مسائل کا حل بھی بات چیت کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے اور پیش رفت میں رکاوٹوں کو بھی گفت و شنید ہی کے راستہ سے دور کیا جا سکتا ہے یکطرفہ طور پر روٹھ کر بات چیت سے انکار کر دینا سیاسی طرز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ترک تعلقات سے سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا ملک میں کم و بیش اڑھائی سال پر محیط سیاسی تنائو اور احتجاجی سیاست کے بعد تحریک انصاف نے حکومت سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے توسط سے دونوں جانب سے روابط کا سلسلہ آگے بڑھایا گیا، فریقین نے کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد مذاکرات کے تین ادوار بھی ہوئے اور سیاسی مبصرین مذاکرات میں مشکلات کے باوجود مثبت پیش رفت کی توقع کر رہے تھے کہ تحریک انصاف نے بانی عمران خاں کی ہدایات اور حکومت کی جانب سے نو مئی 2023ء اور 26 نومبر 2024ء کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن نہ بنائے جانے کو جواز بنا کر مزید مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا جب کہ دوسری جانب سے سلسلہ جاری رکھنے کا بار بار اعلان کیا جاتا رہا اور مذاکرات کے اگلے دور کے لیے پہلے سے طے شدہ 28 جنوری کی تاریخ پر حکومتی وفد اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس مذاکرات کے لیے مقرہ وقت پر موجود رہا مگر تحریک انصاف کا مذاکراتی وفد چونکہ پہلے ہی بات چیت معطل کرنے کا اعلان کر چکا تھا، چنانچہ 28 جنوری کے اجلاس میں وفد کا کوئی رکن اسپیکر کے طلب کردہ اجلاس میں شریک نہیں ہوا تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور شبلی فراز نے وزیر اعظم کی بات چیت کی تازہ پیشکش کو بھی بیک جنبش قلم مسترد کر دیا ہے جسے غیر سیاسی طرز عمل کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، انہیں اس پیشکش پر غور کے لیے وقت لینا چاہیے تھا اور پارٹی کے بانی چیئرمین اور دیگر اہم مرکزی قائدین سے مشاورت کے بعد کوئی رد عمل دینا چاہیے تھا۔ ان کی بات میں اس حد تک وزن ضرور ہے کہ تحریک انصاف کا مطالبہ عدالتی کمیشن کی تشکیل ہے جب کہ وزیر اعظم نے اس کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے اسی طرح اس کمیٹی کے دائرہ کار میں بھی تحریک انصاف کو کامیاب قرار دے کر اقتدار کے ایوان میں پہنچانے والے 2018ء کے انتخابات اور 26 نومبر 2024ء کے دھرنے کے علاوہ تحریک کے 2014ء کے ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے کو بھی شامل کر دیا ہے جب کہ تحریک انصاف کے مطالبہ میں 26 نومبر کے علاوہ نو مئی 2023ء کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام اہمیت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اپنے جمعرات کے خطاب کے دوران پیش کی گئی تجویز میں نو مئی کے واقعات کا ذکر تک نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی اس دلیل سے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے مقابلہ میں عوام کو عدالتی کمیشن پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں بنائے گئے بہت سے عدالتی کمیشن بھی عوام کے اعتماد پر پورے نہیں اتر سکے، ان کی کارکردگی اور سفارشات بھی اعتراضات کی زد میں آتے رہے ہیں تاہم حکومت اور تحریک انصاف کو ایک دوسرے کے موقف پر جو بھی تحفظات اور اعتراضات ہوں ان کو دور کرنے اور فریقین کے لیے قابل قبول کسی درمیانی راستہ کی تلاش بہر حال بات چیت اور مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ تحریک انصاف کی قیادت وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی مذاکرات اور پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی پیشکش پر از سر نو ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرے تاکہ ملک کو درپیش سیاسی بحران، محاذ آرائی اور کشیدگی کی فضا سے نجات مل سکے۔ اس صورت حال کا حل اگر افہام و تفہیم سے نہ نکالا گیا تو پہلے سے شدید سیاسی تقسیم مزید گہری ہو جائے گی جو ملک کی موجودہ ابتر سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورت حال میں کسی طرح بھی قوم اور خود سیاسی جماعتوں کے مفاد میں نہیں۔