آزاد کشمیر میں ”یوم یکجہتی کشمیر“ منانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
ذرائع کے مطابق سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور کارکنوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عہد کیا ہے جو بھارت نے طاقت کے بل پر سلب کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں 5 فروری کو ”یوم یکجہتی کشمیر“ منانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور کارکنوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عہد کیا ہے جو بھارت نے طاقت کے بل پر سلب کر رکھا ہے۔ اس مرتبہ بھی ”یوم یکجہتی کشمیر“ بھرپورجوش و جذبے سے منایا جائے گا۔ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اس دن کو روایتی جوش و خروش سے منانے کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ 5 فروری کو پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں عام تعطیل ہو گی۔ دن کا آغاز شہدائے کشمیر کے درجات کی بلندی اور جدوجہد آزادی کی کامیابی کے لیے خصوصی دعاوں سے ہو گا۔ بڑے پیمانے پر ریلیاں، بھارت مخالف مظاہرے، جلسے جلوس ہوں گے اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ دنیا بھر کے دیگر شہروں خاص طور پر دارالحکومتوں میں بھی کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن مقبوضہ جموں و کشمیر کے اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلے مختلف پروگراموں کا انعقاد کریں گے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بھارت، وقف ترمیمی بل کے خلاف بطور احتجاج بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج
سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 16 اپریل کوپیش ہونے اور دو لاکھ روپے تک کے بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش میں وقف ترمیمی بل کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر جمعة الوداع اور نماز عید کے دوران بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر 300 سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے اور دو لاکھ روپے کے بانڈز جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں پولیس حکام نے ان مقدمات کے اندراج اور جاری کردہ نوٹسز کو قانونی قرار دیا ہے۔ مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے کہا جو نوٹس جاری کیے گئے وہ قانونی ہیں۔ سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 16 اپریل کو پیش ہونے اور دو لاکھ روپے تک کے بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی گروپس سمیت ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہے اور مسلمانوں کوغیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نوٹس موصول ہونے والے افراد میں سے ایک نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ ایک وکیل کی تلاش میں ہیں۔انہوں نے کہا ہمیں16 اپریل کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ ہم نے وکیل کی تلاش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر مجسٹریٹ نوٹس کو منسوخ بھی کر دیتا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ بانڈز کا ہے۔ اگر ضلع میں ایک سال کی مدت میں کچھ بھی ہوتا ہے تو ہمیں اٹھایا جا سکتا ہے۔نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے نماز کے بعد دوسروں کو اکسانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کی جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ جنہیں نوٹس دیا گیا ہے انہوں نے انتظامیہ کی کارروائی کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نماز جمعہ کے بعد ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی جس سے امن وامان میںخلل پڑتا ہو۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیقات کے یہ کارروائی کی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف بھی نوٹس جاری کیے گئے جو طویل عرصے سے علاقے میں نہیں رہ رہے ہیں۔ اتر پردیش کے علاقے سیتا پور کی ضلعی انتظامیہ نے بھی وقف ترمیمی قانون کے خلاف بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرنے پر تمبور قصبے کے مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کئے ہیں حالانکہ وہاں کوئی احتجاجی مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔ نوٹس موصول ہونے والوں نے پولیس کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے، اس بل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو چکے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بل کی مخالفت کر رہے ہیں تو ہمارا احتجاج غلط کیسے ہو گیا؟