Nai Baat:
2025-02-02@07:43:59 GMT

جسٹس (ر)فقیر محمد کھوکھر کا سانحہ ارتحال

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

جسٹس (ر)فقیر محمد کھوکھر کا سانحہ ارتحال

جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھربروز بدھ شام سوا چار بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم جسٹس فقیر محمد اعلیٰ پائے کے قانون دان ، نہایت صاحب علم اور آئین و قانون کی تشریح میں بے مثال مہارت رکھتے تھے۔ راقم الحروف کو ان سے تقریباًساٹھ سال قبل ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ وہ ان دنوں لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے اور کچھ عرصہ بعد وہ وفاقی حکومت کے قائم مقام وکیل کی حیثیت سے بھی تعینات رہے۔

جسٹس فقیر محمد کھوکھر لاہو ر میںکافی عرصہ ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہے۔ ہائی کورٹ کے جج بننے کیلئے بڑی صلاحیت کے مالک تھے لیکن دو تین بار انہیں اعلیٰ سطح پر نظر انداز کر دیا گیا۔ جب محترم معراج خالد مرحوم نگران وزیر اعظم بنے تو وفاقی وزارت قانون نے انہیں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا۔
جب فقیر محمد کھوکھر وکالت کرتے تھے تو انہی دنوں میرے پاس پاکستان ٹائمز میں بھی کئی بار تشریف لائے۔ ان کے ساتھ اکثر کھانے پر بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ راقم الحروف جب بزم اقبال کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا تو جسٹس فقیر محمد کھوکھر اکثر بزم اقبال کے دفتر میں تشریف لاتے اور کئی قانونی امور پر ان سے مشاورت ہوتی رہتی تھی۔ راقم الحروف کی جسٹس کھوکھر صاحب سے کافی بے تکلفی تھی اور وہ اکثر میرے ہاں کھانے یا چائے پینے کیلئے تشریف لاکر میری عزت افزائی فرماتے تھے۔ ان سے اکثر علمی و ادبی ، تاریخی و قانون امور پر بات چیت ہوتی رہتی تھی اور اکثر معاملات میں ان کی رائے بہت درست ثابت ہوتی تھی۔

جسٹس کھوکھر اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید بٹر، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے زمانے میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جسٹس افتخار چودھری صاحب نے ان کی سبکدوشی پر فرمایا تھا کہ سپریم کورٹ ایک بہت لائق اور اعلیٰ پائے کے قانون دان سے محروم ہوگئی۔
جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس جاوید بٹرکی بہت تعریف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بٹر صاحب بہت درویش صفت شخصیت کے مالک ہیں اور میں نے ان سے کئی بار گذارش کی ہے کہ میرے انتقال پر میرا جنازہ وہ پڑھائیں۔

جسٹس کھوکھر کئی سرکاری اداروں کے مشیر بھی رہے۔ انہیں وزارت قانون کا سیکریٹری ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ تقریبا ً ایک ہفتہ قبل وفاقی حکومت نے انہیں لاپتہ افراد کے سابق چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی جگہ کمشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا لیکن ایک ہفتہ سے زائد کام کرنے کی مہلت نہ ملی۔
اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ مرحوم بہت دیانتدار ، صاحب علم شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو اس عظیم سانحہ کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: فقیر محمد کھوکھر

پڑھیں:

مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالتوں کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے: سپریم کورٹ

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص قانون کے تحت قائم ہونے والی عدالتوں کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔

آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جا رہی ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے گزشتہ روز دیے گئے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں یہ خبریں آئی تھیں کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو ججز نے غلط قرار دیا ہے، جس پر کئی ریٹائرڈ ججز نے ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی تشویش کے باوجود، حقیقت کی درستگی ضروری ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، مگر فوجی عدالتوں کا آئینی عدالتی نظام میں کوئی ذکر نہیں۔ فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت قائم کی جاتی ہیں، جو تسلیم شدہ ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، لیکن مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالتوں کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ 21ویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر کیا گیا ہے، تو جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں کیا گیا تھا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا گیا تھا، جو 21ویں ترمیم سے پہلے تھا۔

سماعت کے دوران بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند کی نمائندگی پر سوال اٹھایا گیا۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے؟ وکیل بلوچستان حکومت نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں نجی وکیل کو حکومت کی نمائندگی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی، کیونکہ بنیادی حقوق سلب کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سویلین اور فوجی فورسز کے ملزمان میں فرق نہیں ہونا چاہیے؟ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ دونوں میں واضح فرق ہونا چاہیے کیونکہ مسلح افواج میں شامل ہونے والا شخص آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہے، جبکہ عام شہری اس سے الگ ہوتا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی ملاقات
  • پیکا قانون کی مختلف شقوں پر عملدرآمد روکنے کی درخواست مسترد
  • آرمی ایکٹ کی شق کالعدم قرار دی تو کلبھوشن کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جسٹس محمد علی مظہر
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا، جسٹس امین الدین
  • مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہی ہوتا ہے‘جسٹس جمال خان مندوخیل
  • پیکا ایکٹ کالا قانون، صحافی برادری کیساتھ ہیں،محمد یوسف
  • چیف جسٹس ہائیکورٹ کا دورہ ننکانہ، جوڈیشل کمپلیکس کا افتتاح 
  • قانون بنا کر کلبھوشن کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا، عام شہریوں کو یہ حق حاصل نہیں،وکیل خواجہ احمد حسین
  • مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالتوں کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے: سپریم کورٹ