Nai Baat:
2025-02-02@07:59:12 GMT

خواتین کے لیے تاریکیاں اور بڑھ گئیں

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

خواتین کے لیے تاریکیاں اور بڑھ گئیں

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2024 میں جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پنجاب میں 168 اور سندھ میں 151 رپورٹ ہوئے۔اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کے واقعات خیبرپختونخوا میں 52 اور بلوچستان میں 19 رپورٹ ہوئے، اسلام آباد میں غیرت کے نام پر قتل کے دو کیسز رپورٹ ہوئے۔ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ برس 1969 ریپ کیس رپورٹ ہوئے، پاکستان میں گھریلو تشدد کے کیسز کی تعداد 299 رپورٹ ہوئی، پاکستان میں گزشتہ سال جلائے جانے کے واقعات 30 اور تیزاب گردی کے 43 کیسز سامنے آئے۔ذرائع کے مطابق سال 2024 میں جبری تبدیلی مذہب کے کیسز کی تعداد گیارہ ہے، جبکہ دیگر واقعات میں ملک بھر میں 980 خواتین کو قتل کیا گیا۔ملک بھر میں جنسی زیادتی کے 7010 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 6624 کیسز پنجاب میں ہوئے جبکہ رپورٹ کے مطابق خواتین کے اغوا کے کیسز سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں ریکارڈ ہوئے جہاں ایک ہزار 666 خواتین کو اغوا کیا گیا جب کہ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے کیسز میں بھی سندھ پہلے نمبر پر رہا۔سندھ میں 258 خواتین کو غیرت پر قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جو ملک بھر میں اسی نوعیت کے قتل کا نصف تعداد کے برابر ہے۔(یو این او ڈی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق رپورٹ ہر 10 منٹ میں ایک عورت یا لڑکی کو مار دیا جاتا ہے۔

برصغیر ہمیشہ سے عورت کے معاملے میں قدامت پسند نظریات کا حامی رہا ہے ، آج بھی خواتین اپنے سے وابستہ مردوں کی خواہشات اور نظریات کا احترام کرتی ہیں، خوف، محبت یا تربیت، کچھ بھی آپ کہہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبد الطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں مَردوں کے بجائے خواتین کو اہمیت دیتے ہوئے سات سورمیوں (شہزادیوں) کے قصّوں کو بذریعہ شاعری بیان کر کے گھٹن زدہ ، بوسیدہ نظریات کے حامل سماج کو عورت کے بارے میں ایک نئی سوچ و فکر دی تھی۔ اسی تناظر میں شاہ بھٹائی کو ’’سات سورمیوں کا شاعر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے تخلیق کردہ کر داروں ’’سسّی، ماروی، مومل، سوہنی، موکھی، سورٹھ اور نوری‘‘ نے انہیں امر کر دیا۔اس خطے کی عورت صدیوں سے غیر محسوس طور پر قربانی دیتی چلی آ رہی ہے اور ظلم سہتی چلی آ رہی ہے۔

خواتین کے حوالے سے لکھنے بیٹھیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کس موضوع پر لکھیں۔ عورت کے خلاف کوئی ایک ظلم تو نہیں ہے۔خواتین کے خلاف جرائم کی کئی شکلیں ہیں اور ان کی بھی آگے سے مزید شاخیں ہیں جیسے اگر ہم خواتین کے خلاف جسمانی جرائم کی بات کریں تو اس میں سب سے پہلے گھریلو تشدد آتا ہے جس میں ذرا ذرا سی بات پر مار پیٹ، تعلقات میں جسمانی، جذباتی، یا جنسی زیادتی۔ پھر ریپ اور جنسی حملہ۔ جب بات یہاں بھی نہیں رکتی تو پھر انتقام یا سزا کے طور پر خواتین پر تیزاب پھینکنا۔ ہمارے سماج میں مردوں کی غیرت صرف عورت کے کردار سے نتھی ہے ، اسی لیے باہر بھی کوئی بدنام زمانہ گھر کی عورت کے بارے میں کچھ کہہ دے تو بھی غیرت کے نام پر خواتین ہی بلی کا بکرا بنتی ہیں اور غلط باتیں کرنے والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اس کے علاوہ آج بھی پاکستان کی کچھ کمیونٹیز میں ثقافتی عمل کے طور پر فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن کی جاتی ہے۔

جسمانی کے بعد خواتین کو جذباتی اور نفسیاتی جرائم کا بھی سامنا ہے ، بدتہذیبی اور بد اخلاق رویے جو عورت کی عزت نفس یا جذباتی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔خاص طور پر ورکنگ مقامات پر۔ راہ چلتے، یا آتے جاتے کوئی عورت پسند آ جائے تو اس عورت کا پیچھا کرنا، ہراساں کرنا یا دھمکی دینا۔ اس کے علاؤہ عورت کو ہراساں کرنے، دھمکانے یا ذلیل کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال سائبر ہراسمنٹ میں آتا ہے۔ گھر ، محلے اور ورکنگ مقامات پر عورت کو ڈی ویلیو کرنا۔ملک میں خواتین کے خلاف ہر جرم ہی عام ہے لیکن اقتصادی جرائم یا مالی بدسلوکی سب سے بڑا جرم ہے جس میں مرد عورت کے مالی وسائل کو کنٹرول کرنا یا اس کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔عورت کو اس کی مرضی کے خلاف جسم فروشی پر مجبور کرنا اور عورت کو جبری مشقت، شادی، یا استحصال کی دیگر اقسام پر مجبور کرنا۔ مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔خواتین کے خلاف سماجی اور ثقافتی جرائم کی بات کریں تو اسمیں عورت کو اس کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنا۔جہیز کا مطالبہ کرنا یا دینا، جو اکثر گھریلو تشدد، ہراسگی یا زندگی کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاؤہ پاکستان میں بھی اولاد میں اولاد نرینہ کی خواہش میں بچیوں کو قتل کرنا یا چھوڑ دینا موجود ہے یا مسلسل بیٹیوں کی پیدائش پر طلاق یا جان لینے کی خبریں بھی میڈیا پر متواتر آتی ہیں۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا ریگولیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھٹیا لوگوں کی رسائی سوشل میڈیا تک ہے۔ جن کا پسندیدہ کام خواتین کی والز پر غیر مناسب کمنٹ کرنا اور انبکس میں گھٹیا ، دھمکی آمیز یا بدسلوکی والے پیغامات بھیجنا۔بغیر رضامندی کے غیر اخلاقی تصاویر یا ویڈیوز کا شئیر کرنا۔زیادہ تر مکمل بدنیتی کے ساتھ غیر خواتین کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور اگر خواتین سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے کسی کاروبار سے وابستہ ہیں تو انہیں تنگ کرنا ، ان کے بزنس نمبرز پر رابطے کر کے فری ہونے کی کوشش کرنا۔ جس وجہ سے کئی خواتین کو میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ خواتین اگر اپنی تصاویر شئیر کر دیں تو ان کے کردار کو جج کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔آپا باجی میم سے شروع ہونے والی گفتگو محترمہ ، جناب من اور پیاری پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ خواتین کے خلاف کئی طرح کے جرائم میں سے کچھ ہیں، جن کے خاتمے کے لیے ایک محفوظ اور بہتر معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ قوانین کی پاسداری بھی شامل ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: غیرت کے نام پر قتل خواتین کے خلاف رپورٹ ہوئے خواتین کو کے واقعات کے مطابق عورت کو عورت کے جاتا ہے کے کیسز

پڑھیں:

وہاڑی کی ترقی کی امید … محترمہ تہمینہ دو لتانہ

ہمارے مردانہ تسلط والے معاشرہ میں خواتین کو وہ مقام و منزلت حاصل نہ ہے جو کہ مغربی معاشرہ اور ساری دنیا میں خواتین کو حاصل ہے جبکہ اسلام میں خواتین کو مساوی حقوق اور قدرومنزلت دی جاتی ہے ۔ اس معاشرتی ناانصافی کے باوجود بعض خواتین نے اپنے اعلی انسانی خصائل اور آہنی عزم سے مختلف شعبہ جات میں اپنی خاصیت کو منوایا ہے قابل ذکر خواتین میں فاطمہ جناح، بینظیر ، محترمہ کلثوم نواز اور موجودہ دور میں محترمہ مریم نواز شریف ایک روشن مثال ہیں ۔ آج میری مخاطب مسلم لیگ ن کی ایک رہنما محترمہ تہمینہ دو لتانہ ہے جن کہ والد گرامی محمد ریاض دولتانہ وہاڑی کی ایک با اثر سیاسی شخصیت تھے اور انکے حقیقی انکل میاں ممتاز دولتانہ قومی سطح کہ سیاسی قائد اور وزیراعلی پنجاب ون یونٹ پاکستان رہے ۔ محترمہ تہمینہ دولتانہ نے کینرڈ کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے دو پیشہ ور کورسز مکمل کیے ہیں ، ایک 2004-2005 ء میں حکومت پاکستان کے ذریعہ این ڈی سی ہے اور امریکہ کے محکمہ برائے ریاستی محکمہ سے پولیٹیکل سائنس میں دوسرا کورس۔۔ اس دور کے دوران انہوں نے دو سیاسی عہدے پر فائز تھے کیونکہ مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر میں سے ایک کے طور پر بھی اس دوران اے آر ڈی کے نائب صدر کی حیثیت سے جاری رہے۔ وہ 1996-1999 ء میں وزیر مملکت برائے خواتین کی ترقی ، معاشرتی بہبود اور خصوصی تعلیم بن گئیں۔

انہوں نے اپنے سیاسی سفرکا آغاز 1987 ء میں کیا، انہوں نے اپنا پہلا الیکشن 1993ء میں لڑا جس میں انہوں نے پورے پنجاب سب سے زیادہ لیڈ وہاڑی میں حاصل کی۔ 2002سے 2007ء مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ایم این اے رہیں۔ 2008ء میں الیکشن جیتیں، 2010ء میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رہیں ۔2013ء سے 2018ء سے ایم این اے بنیں اب 2024ء میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیتا۔ 2013اور 2018ء میں ان کے چھوٹے بیٹے میاں عرفان دولتانہ آبائی حلقے لڈن سے ایم پی اے رہے، میاں عمران دولتانہ مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر وہاڑی ہیں اور محترمہ کے ساتھ مل کر حلقے میں کام کرتے ہیں۔محترمہ اب تک 7بار الیکشن لڑیں جس میں 4بار ایم این اے منتخب ہوئیں، 2بار ریزرو سیٹ پر ایم این اے بنیں اور ایک الیکشن میں شکست ہوئی۔ پارٹی میں شمولیت کے بعد پی ایم ایل کی خواتین اور یوتھ ونگ کی جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا ۔ دولتانہ خاندان کے خصائل میں اپنے سیاسی قائدئین کے ساتھ وفاداری اور عوامی خدمت اور نظریاتی وابستگی کا عنصر نمایاں ہے ۔ محترمہ تہمینہ دو لتانہ نے 1987 ء میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئی اور اس وقت سے تاحال پارٹی پر مصائب کا جو بھی پہاڑ آیا وہ ہر موقعہ پر اپنے آہنی عزم کے ساتھ قائم رہی انکے پایا استقامت میں لرزش نہ آئی ، ایم آرڈی کی تحریک ہو یا مشرف دور کے سیاسی انتقام کا زمانہ ہو محترمہ تہمینہ دو لتانہ نے بطور نائب صدر خواتین ون مسلم لیگ ن محترمہ کلثوم نواز شریف کے شانہ بشانہ جہاد کیا اس دوران ریاست گردی ہو پولیس گردی ہو لاٹھیوں کی یلغار ہو یا گولیوں کی ترتراہٹ ہو محترمہ تہمینہ دو لتانہ نے اپنے نظریاتی وابستگی کا بھرم قائم رکھا محترمہ تہمینہ دو لتانہ چوتھی مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکی ہیں اور اس دوران انہوں نے عوامی فلاح کے بے شمار منصوبے جن میں دور دراز دیہات میں بجلی کی فراہمی ، خواتین کے لئے مقامی طور پر رزق کے موقعہ فراہم کرنا دور درز دیہات میں ترقیاتی کاموں میں ڈسٹرکٹ ہسپتال وہاڑی کی اپ گریڈیشن ، کومسیٹس یونیورسٹی کا قیام اور میڈکل کالج کی منظوری اور وہاڑی سے ملتان 100 کلومیٹر دو رویہ سڑک کی تعمیر شامل ہیں۔ محترمہ تہمینہ دو لتانہ 1996 ء سے 1999 ء میں وزیر مملکت برائے خواتین کی ترقی ، معاشرتی ترقی و خصوصی ترقی کے عہدہ پر فائز ہوئی اور انکی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف یہ محکمہ جات عوامی فلاح میں متحرک نظر آئے بلکہ مسلم لیگ ن کی پالیسیاں عوام میں مقبول ہوئی ۔صد حیف کہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہیں ۔ نظریاتی سیاسی زعما مشکل وقت میں اپنی پارٹیوں کا اثاثہ ہوتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انکو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے اور حکومتی اعہداجات دیگر مصلحتوں کے تحت بانٹے جاتے ہیں وہاڑی کی عوام فیصلہ سازوں کے روبروں التماس کرتی ہیں کہ گزشتہ الیکشن میں ضلع وہاڑی مسلم لیگ ن کا قلعہ ثابت ہوا تو محترمہ تہمینہ دو لتانہ کی مخلصانہ کاوش عوام دوستی اور عوامی فلاح کے منصوبہ جات تھے لہٰذا انکو وزارت کا قلمدان سونپا جائے تاکہ وہاڑی کی عوام کی محرومی دور ہو اور باقی مائندہ ترقیاتی کام مکمل ہو سکیں ۔
محترمہ تہمینہ دولتانہ کا مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں، میاں نواز شریف محترمہ کو آپا کہہ کر پکارتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ محترمہ نے محترمہ کلثوم نواز کے ساتھ بھی کام کیا اور میاں نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کے بعد وہ محترمہ کے ساتھ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے شانہ بشانہ ان کے ساتھ رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بزنس ویمن بھی ہیں۔محترمہ وہاڑی میں میڈیکل کالج کی منظوری کیلئے کوششیں کر رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ’ونی‘ عورت مخالف ایک ظالم رسم
  • خواتین کی خدمت میں مصروف ایک باکمال خاتون
  • مردار خور
  • وہاڑی کی ترقی کی امید … محترمہ تہمینہ دو لتانہ
  • اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا
  • خواتین کے خلاف تعصبات کا خاتمہ ضروری ہے، فرحین عامر
  • خواتین کھلاڑیوں کے لیے معیاری فٹ ویئر کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے،علی خان ترین
  • خواتین جنوری 2025
  • ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟