Nai Baat:
2025-04-15@09:37:25 GMT

اللہ کافی ہے!

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

اللہ کافی ہے!

دنیا، بدلے گلوبل چوہدری کے ساتھ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ٹرمپ نے آنے سے پہلے ہی گردن اکڑائے دنیا کو دھمکانے کا آغاز کر دیا تھا۔’ مشرقِ وسطیٰ میں جہنم بھڑک اٹھے گی‘۔ مگر ساتھ ہی جہنم بھڑک تو اٹھی مگر مدبرِ کا ئنات کی منتخب کردہ جگہ پر۔ کیلی فورنیا میں! امریکہ کا دوسرا بڑا شہر، سیاحتی مقام، امراء کی رہائش گاہیں، ہالی وڈ کا قرب، عشرت گاہوں کو غیر متوقع طور پر آگ چاٹ گئی۔ جہنم ہی کے مناظر اور سب بھسم ۔ اربوں ڈالر کا نقصان جسے پورا کرتے معاشی کمر ٹوٹے گی۔ انٹرٹینمنٹ صنعت کیلی فورنیا کو 43 ارب ڈالر سالانہ دیتی تھی،اس میں خسارے کا سامنا ہے۔ ماحولیات تباہ، گاڑیوں، گھروں، فرنیچر، پینٹ، پلاسٹک، بجلی کے آلات جلنے سے دھواں سخت نقصان دہ۔ آسکر ایوارڈ اور گریمیز کی بڑی تقریبات بھی شاید منعقد بھی نہ ہو سکیں۔اور اب آگ کی ہولناک صفاچٹ سیاہ زمین، تباہ حال بستیاں تو تھیں ، نیا عذاب بدترین طوفانی بارش جس سے کیچڑ بھرے سیلابوں اور آگ کے مچائے کوڑا کرکٹ کے پانی میں بہاؤ سے مزید مسائل۔سو تباہی کا پیمانہ مظہر ہے اس بات کا کہ انسانی گھمنڈ اور تکبر کی اوقات ہی کیا ہے!دنیا بھولی بیٹھی ہے مگر اللہ کی گرفت دہلا کر رکھ دیتی ہے۔ آمدِ عذاب کی منظر کشی کتنی حقیقی ہے۔۔۔۔ (ابنیاء :16-12) غزہ سے زیادہ حد ِنظر تک کالی تباہ حال زمین ۔ مٹی اور راکھ کے بادل، راکھ زہریلے مواد پر مبنی ہیں۔مزید چرکاواشنگٹن میں جہاز گرنے سے لگا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچان لیا تھا مگر ٹرمپ اس وقت طاقت کے خمار میں ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ اس کی صدارتی افتتاحی تقریب 40 سال میں پہلی مرتبہ شمالی منجمد ہواؤں کے تحت شدید سردی کی بنا پر، اندر لے جانا پڑی ۔لاکھوں متوقع جیالوں کی بجائے محض چند سو خصوصی مہمان، قانون دان اور میڈیا والے آپائے۔ غیر معمولی عزائم، ارادے، دھمکیاںجاری رہیں! تکبر یوں بھی عقل کا دشمن ہے۔ چکنے گھڑے پر برف پڑی اور پھسل گئی!
دنیا اب ٹرمپ کے ہاتھوں کس رخ جائے گی؟ اس کی ٹیم کا انتخاب، ابتدائی احکام بہت کچھ کہہ رہے ہیں! اس دور کا رئیسِ اعظم، قارون ای لون مسک اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ افتتاحیے میں نائب صدر نظر نہیں آ رہا تھا۔ ای لون مسک سٹیج پر تھا۔ نمایاں ترین، متنازعہ حرکت اس کی یہ تھی کہ ہٹلر والا سلوٹ کر ڈالا۔ دو مرتبہ ایسا کرنا بلا سبب نہ تھا۔ فاشسٹ اٹلی اور بعد ازاں یہی علامتی سلوٹ نازی جرمنی کے انتہاپسندانہ نظریات کی علامت تھی۔ جب فوری کان کھڑے ہوئے اس غیر متوقع حرکت پر تو اسے غیر معمولی خوشی سے تعبیر کرکے جھٹک دینے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ یہ مغربی دنیا میں بڑھتی ہوئی سفید فام (انتہا پسند) برتری کی علامت ہے۔ نیو یارک ٹائمز (25
جنوری) کیٹرین بین ہولڈ نے لکھا ہے حوالوں کے ساتھ، کہ ایسے مقام پر کھڑے ہو کر قصداً علی الاعلان یہ سلوٹ سفید فام برتری سے اظہار یک جہتی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ہٹلر سلوٹ ہی ہے۔ اس تقریب میں جرمنی، اٹلی، فرانس، برطانیہ سے انتہا پسند دائیں بازو کے متعلقین( Far Right) موجود تھے۔ یہ انہیں باقوت؍با اختیار بنانے کی علامت تھی۔ ای لون کے چہرے کا تاثر شدت پسندی، کروفر، فوں فاں، والا اکٹر خانی تھا۔ اسی رویے نے کھوج پر مجبور کیا کہ قضیہ کیا ہے تو دیکھا کہ مغرب میں بھی اس پر بہت بات ہو رہی ہے۔ یہ ایک بدلتے رجحان، سیاسی رویے کی علامتیں ہیں۔ جمہوریت کے نام پر فاشزم کا فروغ۔ اس وقت فار رائٹ جنونی بہت شہ پارہے ہیں یورپ امریکہ میں (ای لون مسک نے سفید فام انتہا پسند AfD جرمن پارٹی کے سربراہ سے 70 منٹ کی چیٹ لائیو سٹریم کی تھی۔) یہ پوری ڈھٹائی سے جو امریکہ یورپی ممالک اسرائیل کے غزہ میں قتل عام میں شریک رہے اسی کا تسلسل ہے۔

یہ تمہید طولانی غزہ بارے ٹرمپ پالیسی،اسلاموفوبیا کو قوی ترکرنے کے تناظر میں ہے۔ ایک طرف یہ ہیں تو دوسری جانب انتہا پسند مذہبی ہندوؤں کی طویل فہرست اہم مناصب پر ہے۔ نائب صدر وینس کی بیوی اوشا، کٹر ہندو ہے۔ اور وینس بیوی کا تابعدار نیم ہندو! اب ٹرمپ نے اہم ترین 6مناصب پر ہندو تعینات کیے ہیں۔ FBI سربراہ کاش پٹیل،سینیئر ڈائریکٹر جنوبی اور وسطی ایشیائ، نیشنل سیکورٹی کونسل، رکی گل ہیں۔ ڈپٹی پریس سیکرٹری اور صدارتی عملے کے دفتر میں اہم کردار شرما کو دیا گیا۔ مزید 6 کانگریس ممبران منتخب ہوئے ہیں۔ امریکہ بھارتی رشتے کی مضبوطی، پاکستان کے لیے اہم نتائج کی حامل ہے۔ ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد امریکی پالیسی سازی، داخلی و خارجی بالخصوص جنوبی ایشیا پر اثر انداز ہوگی۔

مگر ہمیں اندرونی جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں! اسلام دشمنی کے حوالے سے ٹرمپ، ای لون اپنے سفید فام برتری کے خمار، ہندو، بھارتی ہندو توا ایجنڈوںکے ہمراہ ہیں۔ کشنر(یہودی داماد)، اسرائیل میں شدت پسند یہودی امریکی سفیر، سیکرٹری خزانہ، سنیٹر پالیسی،مشیر، کئی مزید یہودی اہم مناصب پر بٹھا دیئے گئے ہیں۔ اسلام دشمنی ہر خطے میں روبہ عمل رہے گی۔ مثلاً اسرائیل کے تمام ایجنڈے پورے کرنے کوٹرمپ نے یہودی آباد کاروں پر لگائی پابندیاں فوراً اٹھا دیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب مغربی کنارہ ان آباد کاروں کے ہاتھوں غزہ کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ گھر، بزنس، فلسطینی سبھی نشانے پر۔ آگ لگا کر، گولیاں برساکر۔ اسرائیلی فوج مدد پر ہے۔ جنین مہاجر کیمپ کا محاصرہ ہے۔ تمام شہروں کو آپس سے کاٹ کر محصور کر دیا گیا ہے اور اب بڑی یلغار متوقع ہے۔ 2 ہزار افراد بے دخل، گرفتاریاں جاری۔

ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی غزہ کے سمندر کنارے بہترین محلِ وقوع، بہترین موسم پر رال ٹپکاتے ہوئے بار بار کہا کہ غزہ کی تعمیر نو ہونی چاہیے۔مگر حماس کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرے گا۔ اور یہ کہ مجھے اعتماد نہیں کہ غزہ ڈیل قائم رہ سکے گی۔اس پر گردوپیش سے خوشی سے قہقہے لگے۔ اگلے بیان میں غزہ کے لیے کہا بس اسے صاف کر دو۔ مصر اور اردن کے لیے حکم جاری ہوا کہ مزید فلسطینی لو۔ ہم اس پورے علاقے کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ یہ واضح نسلی خاتمے ؍صفایا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ کے بموں کی کھیپ بھیج دی۔حالانکہ سوا سال قیامتوں سے گزر کر مضبوط عزم وارادہ، صبر و ثبات کی حامل فلسطینی قوم اور اٹل فاتح حماس ثابت کر چکے کہ اس سرزمین کو ان کے لہو سے سیراب تو کیا جا سکتاہے، خالی کر دینا، ان کی لغت میں نہیں ہے۔ کٹ مر جائیں گے، فلسطین نہ چھوڑیں گے۔

یہ ہمہ نو دنیا کے خونخوار جو کر اکٹھے ہو گئے ہیں مگر اللہ کا قہر ہم نے کیلی فورنیا میں دیکھ لیا۔ آدھا امریکہ غیر متوقع طور پر منجمد شمالی بنا ہوا ہے آدھا نذرِآتش۔ ذی شعور نوجوان نسل، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلباء قہر آلود ہیں سیاست دانوں کی قصابی، دنیا بھر کے کمزوروں کے استحصال پر۔ وحشت تو یہ ہے کہ غزہ بمباری کے کئی مقامات پر لاشیں پگھل کر ختم ہو گئیں۔7تا 9ہزار ڈگری کا درجہ حرارت پیدا ہوا۔ عرب دنیا میں مصر اور ار دن پہلے ہی مزید فلسطینی لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ مصر میں لاوا ابل رہا ہے۔ عرب بہار اندر ہی اندر پھلنے پھولنے پھٹنے کو تیار ہے جابجا۔ سب چہرے کھل چکے۔ مزید دھو کے ممکن نہیں۔ افغانستان کو دھمکیاں دینے والے آڑے ہاتھوں لیے جاتے اور کڑے جواب ان سے سنتے ہیں۔گرین لینڈ، کینیڈا، میکسیکو، پاناما کو چومکھی للکاریں دے کر، ٹرمپ کی کیفیت یہی ہے کہ:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
شام کی نئی حکومت اگرچہ محتاط ہے مگر وہ نرم چارہ، جمہوری انقلاب نہیں، جنگجو، بندوق کی نوک پر دمشق پہنچے ہیں۔ حماس اپنی پوری آب و تاب اور قوت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ سفیدفام برتری والوں کی نیوزی لینڈ کی مسجد میں قتلِ عام کی وحشت سے آپ ان کا مزاج بھی سمجھ سکتے ہیں۔ تا ہم اللہ کے سچے وعدے اہل ایمان کو کافی ہیں۔ اپنے اپنے گھر سنبھالیں۔ سپر پاور آگ زدہ علاقوں میں پانی کی عدم موجودگی کی بدانتظامی، پانی کے خشک ذخیرے اور آگ بجھانے والے آلات کی کس مپرسی کی تحقیق فرمائیں۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل، ہمارے لیے کل اور آج اللہ کافی ہے! پاکستان میں خود جابجارفو کا بہت کام باقی ہے۔ اپنی سرحدوں کے اندر کا امن ہم بحال کریں۔ افغانستان کو زیادہ نہ للکاریں۔افہام و تفہیم کا راستہ تلاش کریں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انتہا پسند سفید فام

پڑھیں:

جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔سماء کے پروگرام ’ ریڈ لائن ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے معاملات میں بری طرح الجھتی جارہی ہے اور جب تک یہ جماعت الجھی رہے گی پاکستانی سیاست کو بھی الجھائے رکھے گی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے ان کو کوئی منزل نہیں ملے گی۔

  کوئی رانا ضد پر اَڑ جائے تو رانی بھی اسے منا نہیں سکتی، میری کیا حیثیت ہے، دل پر پتھر رکھتے ہوئے کہا”قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے“

مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے ہم نے اپنے مسائل اسٹیبلشمںٹ سے بات چیت کر کے حل کرنے ہیں، یہ مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے ، جب سیاسی قیادت سر جوڑے گی حل ہوں گے لیکن بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمںٹ سے ہی بات کرنی ہے۔ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کمیٹیز میں جو گفتگو ہوئی سب کو پتا ہے کہ وہاں سے کون چھوڑ کر بھاگا تھا؟ یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر ذاتی طور پر زچ کرتے ہیں، عون عباس کو جس طرح گرفتار کیا گیا میں نے اس کی مذمت کی تھی۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا، پی ٹی آئی دور میں ہر طرح کے مسائل موجودہ دور سے زیادہ تھے، اگر سیاسی مسائل بھی حل ہوں تو جو معاملات ایک سال میں حل ہوں ایک ماہ میں ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں تقاریر اور خطابات میں بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں، میرا یقین ہے جب تک سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی اور ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تو موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔

بچپن کی ایک اور یاد جو ذھن کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی وہ آپاں اور بی بی جی کی سنائی کہانیاں تھیں،ایسے ہی نہیں کہتے نانیاں دادیاں سیانی ہوتی تھیں 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی والے جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا: رانا ثنا اللہ
  • جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم
  • ایک اور میثاق جمہوریت تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی. رانا ثنا اللہ
  • جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
  • ٹرمپ ٹیرف عالمی معاشی جنگ...گلوبل اکنامک آرڈر تبدیل ہوگا؟؟
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر