Nai Baat:
2025-02-02@07:51:46 GMT

اللہ کافی ہے!

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

اللہ کافی ہے!

دنیا، بدلے گلوبل چوہدری کے ساتھ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ٹرمپ نے آنے سے پہلے ہی گردن اکڑائے دنیا کو دھمکانے کا آغاز کر دیا تھا۔’ مشرقِ وسطیٰ میں جہنم بھڑک اٹھے گی‘۔ مگر ساتھ ہی جہنم بھڑک تو اٹھی مگر مدبرِ کا ئنات کی منتخب کردہ جگہ پر۔ کیلی فورنیا میں! امریکہ کا دوسرا بڑا شہر، سیاحتی مقام، امراء کی رہائش گاہیں، ہالی وڈ کا قرب، عشرت گاہوں کو غیر متوقع طور پر آگ چاٹ گئی۔ جہنم ہی کے مناظر اور سب بھسم ۔ اربوں ڈالر کا نقصان جسے پورا کرتے معاشی کمر ٹوٹے گی۔ انٹرٹینمنٹ صنعت کیلی فورنیا کو 43 ارب ڈالر سالانہ دیتی تھی،اس میں خسارے کا سامنا ہے۔ ماحولیات تباہ، گاڑیوں، گھروں، فرنیچر، پینٹ، پلاسٹک، بجلی کے آلات جلنے سے دھواں سخت نقصان دہ۔ آسکر ایوارڈ اور گریمیز کی بڑی تقریبات بھی شاید منعقد بھی نہ ہو سکیں۔اور اب آگ کی ہولناک صفاچٹ سیاہ زمین، تباہ حال بستیاں تو تھیں ، نیا عذاب بدترین طوفانی بارش جس سے کیچڑ بھرے سیلابوں اور آگ کے مچائے کوڑا کرکٹ کے پانی میں بہاؤ سے مزید مسائل۔سو تباہی کا پیمانہ مظہر ہے اس بات کا کہ انسانی گھمنڈ اور تکبر کی اوقات ہی کیا ہے!دنیا بھولی بیٹھی ہے مگر اللہ کی گرفت دہلا کر رکھ دیتی ہے۔ آمدِ عذاب کی منظر کشی کتنی حقیقی ہے۔۔۔۔ (ابنیاء :16-12) غزہ سے زیادہ حد ِنظر تک کالی تباہ حال زمین ۔ مٹی اور راکھ کے بادل، راکھ زہریلے مواد پر مبنی ہیں۔مزید چرکاواشنگٹن میں جہاز گرنے سے لگا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچان لیا تھا مگر ٹرمپ اس وقت طاقت کے خمار میں ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ اس کی صدارتی افتتاحی تقریب 40 سال میں پہلی مرتبہ شمالی منجمد ہواؤں کے تحت شدید سردی کی بنا پر، اندر لے جانا پڑی ۔لاکھوں متوقع جیالوں کی بجائے محض چند سو خصوصی مہمان، قانون دان اور میڈیا والے آپائے۔ غیر معمولی عزائم، ارادے، دھمکیاںجاری رہیں! تکبر یوں بھی عقل کا دشمن ہے۔ چکنے گھڑے پر برف پڑی اور پھسل گئی!
دنیا اب ٹرمپ کے ہاتھوں کس رخ جائے گی؟ اس کی ٹیم کا انتخاب، ابتدائی احکام بہت کچھ کہہ رہے ہیں! اس دور کا رئیسِ اعظم، قارون ای لون مسک اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ افتتاحیے میں نائب صدر نظر نہیں آ رہا تھا۔ ای لون مسک سٹیج پر تھا۔ نمایاں ترین، متنازعہ حرکت اس کی یہ تھی کہ ہٹلر والا سلوٹ کر ڈالا۔ دو مرتبہ ایسا کرنا بلا سبب نہ تھا۔ فاشسٹ اٹلی اور بعد ازاں یہی علامتی سلوٹ نازی جرمنی کے انتہاپسندانہ نظریات کی علامت تھی۔ جب فوری کان کھڑے ہوئے اس غیر متوقع حرکت پر تو اسے غیر معمولی خوشی سے تعبیر کرکے جھٹک دینے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ یہ مغربی دنیا میں بڑھتی ہوئی سفید فام (انتہا پسند) برتری کی علامت ہے۔ نیو یارک ٹائمز (25
جنوری) کیٹرین بین ہولڈ نے لکھا ہے حوالوں کے ساتھ، کہ ایسے مقام پر کھڑے ہو کر قصداً علی الاعلان یہ سلوٹ سفید فام برتری سے اظہار یک جہتی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ہٹلر سلوٹ ہی ہے۔ اس تقریب میں جرمنی، اٹلی، فرانس، برطانیہ سے انتہا پسند دائیں بازو کے متعلقین( Far Right) موجود تھے۔ یہ انہیں باقوت؍با اختیار بنانے کی علامت تھی۔ ای لون کے چہرے کا تاثر شدت پسندی، کروفر، فوں فاں، والا اکٹر خانی تھا۔ اسی رویے نے کھوج پر مجبور کیا کہ قضیہ کیا ہے تو دیکھا کہ مغرب میں بھی اس پر بہت بات ہو رہی ہے۔ یہ ایک بدلتے رجحان، سیاسی رویے کی علامتیں ہیں۔ جمہوریت کے نام پر فاشزم کا فروغ۔ اس وقت فار رائٹ جنونی بہت شہ پارہے ہیں یورپ امریکہ میں (ای لون مسک نے سفید فام انتہا پسند AfD جرمن پارٹی کے سربراہ سے 70 منٹ کی چیٹ لائیو سٹریم کی تھی۔) یہ پوری ڈھٹائی سے جو امریکہ یورپی ممالک اسرائیل کے غزہ میں قتل عام میں شریک رہے اسی کا تسلسل ہے۔

یہ تمہید طولانی غزہ بارے ٹرمپ پالیسی،اسلاموفوبیا کو قوی ترکرنے کے تناظر میں ہے۔ ایک طرف یہ ہیں تو دوسری جانب انتہا پسند مذہبی ہندوؤں کی طویل فہرست اہم مناصب پر ہے۔ نائب صدر وینس کی بیوی اوشا، کٹر ہندو ہے۔ اور وینس بیوی کا تابعدار نیم ہندو! اب ٹرمپ نے اہم ترین 6مناصب پر ہندو تعینات کیے ہیں۔ FBI سربراہ کاش پٹیل،سینیئر ڈائریکٹر جنوبی اور وسطی ایشیائ، نیشنل سیکورٹی کونسل، رکی گل ہیں۔ ڈپٹی پریس سیکرٹری اور صدارتی عملے کے دفتر میں اہم کردار شرما کو دیا گیا۔ مزید 6 کانگریس ممبران منتخب ہوئے ہیں۔ امریکہ بھارتی رشتے کی مضبوطی، پاکستان کے لیے اہم نتائج کی حامل ہے۔ ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد امریکی پالیسی سازی، داخلی و خارجی بالخصوص جنوبی ایشیا پر اثر انداز ہوگی۔

مگر ہمیں اندرونی جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں! اسلام دشمنی کے حوالے سے ٹرمپ، ای لون اپنے سفید فام برتری کے خمار، ہندو، بھارتی ہندو توا ایجنڈوںکے ہمراہ ہیں۔ کشنر(یہودی داماد)، اسرائیل میں شدت پسند یہودی امریکی سفیر، سیکرٹری خزانہ، سنیٹر پالیسی،مشیر، کئی مزید یہودی اہم مناصب پر بٹھا دیئے گئے ہیں۔ اسلام دشمنی ہر خطے میں روبہ عمل رہے گی۔ مثلاً اسرائیل کے تمام ایجنڈے پورے کرنے کوٹرمپ نے یہودی آباد کاروں پر لگائی پابندیاں فوراً اٹھا دیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب مغربی کنارہ ان آباد کاروں کے ہاتھوں غزہ کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ گھر، بزنس، فلسطینی سبھی نشانے پر۔ آگ لگا کر، گولیاں برساکر۔ اسرائیلی فوج مدد پر ہے۔ جنین مہاجر کیمپ کا محاصرہ ہے۔ تمام شہروں کو آپس سے کاٹ کر محصور کر دیا گیا ہے اور اب بڑی یلغار متوقع ہے۔ 2 ہزار افراد بے دخل، گرفتاریاں جاری۔

ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی غزہ کے سمندر کنارے بہترین محلِ وقوع، بہترین موسم پر رال ٹپکاتے ہوئے بار بار کہا کہ غزہ کی تعمیر نو ہونی چاہیے۔مگر حماس کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرے گا۔ اور یہ کہ مجھے اعتماد نہیں کہ غزہ ڈیل قائم رہ سکے گی۔اس پر گردوپیش سے خوشی سے قہقہے لگے۔ اگلے بیان میں غزہ کے لیے کہا بس اسے صاف کر دو۔ مصر اور اردن کے لیے حکم جاری ہوا کہ مزید فلسطینی لو۔ ہم اس پورے علاقے کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ یہ واضح نسلی خاتمے ؍صفایا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ کے بموں کی کھیپ بھیج دی۔حالانکہ سوا سال قیامتوں سے گزر کر مضبوط عزم وارادہ، صبر و ثبات کی حامل فلسطینی قوم اور اٹل فاتح حماس ثابت کر چکے کہ اس سرزمین کو ان کے لہو سے سیراب تو کیا جا سکتاہے، خالی کر دینا، ان کی لغت میں نہیں ہے۔ کٹ مر جائیں گے، فلسطین نہ چھوڑیں گے۔

یہ ہمہ نو دنیا کے خونخوار جو کر اکٹھے ہو گئے ہیں مگر اللہ کا قہر ہم نے کیلی فورنیا میں دیکھ لیا۔ آدھا امریکہ غیر متوقع طور پر منجمد شمالی بنا ہوا ہے آدھا نذرِآتش۔ ذی شعور نوجوان نسل، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلباء قہر آلود ہیں سیاست دانوں کی قصابی، دنیا بھر کے کمزوروں کے استحصال پر۔ وحشت تو یہ ہے کہ غزہ بمباری کے کئی مقامات پر لاشیں پگھل کر ختم ہو گئیں۔7تا 9ہزار ڈگری کا درجہ حرارت پیدا ہوا۔ عرب دنیا میں مصر اور ار دن پہلے ہی مزید فلسطینی لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ مصر میں لاوا ابل رہا ہے۔ عرب بہار اندر ہی اندر پھلنے پھولنے پھٹنے کو تیار ہے جابجا۔ سب چہرے کھل چکے۔ مزید دھو کے ممکن نہیں۔ افغانستان کو دھمکیاں دینے والے آڑے ہاتھوں لیے جاتے اور کڑے جواب ان سے سنتے ہیں۔گرین لینڈ، کینیڈا، میکسیکو، پاناما کو چومکھی للکاریں دے کر، ٹرمپ کی کیفیت یہی ہے کہ:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
شام کی نئی حکومت اگرچہ محتاط ہے مگر وہ نرم چارہ، جمہوری انقلاب نہیں، جنگجو، بندوق کی نوک پر دمشق پہنچے ہیں۔ حماس اپنی پوری آب و تاب اور قوت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ سفیدفام برتری والوں کی نیوزی لینڈ کی مسجد میں قتلِ عام کی وحشت سے آپ ان کا مزاج بھی سمجھ سکتے ہیں۔ تا ہم اللہ کے سچے وعدے اہل ایمان کو کافی ہیں۔ اپنے اپنے گھر سنبھالیں۔ سپر پاور آگ زدہ علاقوں میں پانی کی عدم موجودگی کی بدانتظامی، پانی کے خشک ذخیرے اور آگ بجھانے والے آلات کی کس مپرسی کی تحقیق فرمائیں۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل، ہمارے لیے کل اور آج اللہ کافی ہے! پاکستان میں خود جابجارفو کا بہت کام باقی ہے۔ اپنی سرحدوں کے اندر کا امن ہم بحال کریں۔ افغانستان کو زیادہ نہ للکاریں۔افہام و تفہیم کا راستہ تلاش کریں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انتہا پسند سفید فام

پڑھیں:

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (آخری حصہ)

جب دین کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق جہاد کیا جاتا ہے، تو اللہ کی مدد سے حق کے پیرو کاروں کے لیے ایسی راہیں کھلتی ہیں جو باطل قوتوں کی کئی دہائیوں کی محنت کو ختم کر دیتی ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے: یعنی ’’جو چیز بے فائدہ ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے، اور جو لوگوں کے لیے مفید ہو وہ زمین پر باقی رہتا ہے‘‘۔

ان عظیم جانبازوں کی قربانیوں کو دل سے سراہا جانا چاہیے جنہوں نے ایک چھوٹے سے علاقے میں، سخت ترین حالات اور دشمن کی بے پناہ ظلم و درندگی کے باوجود، اسلامی تعلیمات کو ہر لمحے مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ان کی جرأت، عزم اور ثابت قدمی بے مثال ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے ایمان اور اصولوں پر قائم رہے۔ یہ قربانیاں اور حوصلہ تاریخ میں ایک سنہری باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ غزہ کے مجاہدین نے سیدنا محمدؐ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے حسن سلوک کے واقعات کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی جو تعلیم دی گئی ہے، وہ غزہ میں نہ صرف عملی طور پر دکھائی دی بلکہ اس کے اثرات نے دنیا کو اسلام کی عظمت اور انسانیت کے اصولوں کی حقیقت سے روشناس کرایا۔

سیدنا محمدؐ نے ہمیشہ قیدیوں کے ساتھ نرمی، عدل اور رحمت کا سلوک کیا۔ جنگی قیدیوں کو نہ صرف اذیت سے بچایا بلکہ انہیں بہترین رہائش، کھانا اور تحفّظ فراہم کیا۔ یہ سنّتِ رسول اور صحابہ کرام کا طرز عمل تھا، جسے غزہ کے مجاہدین نے آج کے دور میں بہترین طریقے سے اپنایا۔ ان کے اس سلوک نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت کے اصولوں کے مطابق حسن سلوک کرنا ضروری ہے اور یہ دین کی روح کا حصّہ ہے۔ غزہ کے مجاہدین نے اپنی قربانیوں کے دوران بھی اس بات کو ثابت کیا کہ اسلام کی حقیقت صرف جنگ میں نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت اور عدل کے راستے پر چلنے میں ہے۔ یہ ایک عظیم مثال ہے جو اسلام کے عالمی پیغام کو اجاگر کرتی ہے۔

دین اسلام کی حقیقی خوبصورتی اس کے اصولوں اور اخلاقی تعلیمات میں ہے، خاص طور پر قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک میں، جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں اتنی جامع اور بلیغ انداز میں نہیں ملتا۔ اسلام قیدیوں کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ رحم و کرم کا بھی حکم دیتا ہے، اور یہ پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جب اسلام کے پیارے پیروکار اپنے دشمنوں یا قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، تو یہ ان کے دلوں میں محبت اور عقیدت پیدا کرتا ہے، اور وہ اسلام کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ! یہ حسن سلوک اور انسانی ہمدردی ہزاروں نافرمان دلوں میں بھی دین اسلام کا پیغام پہنچائے گی، اور اسلام کے روشن اصول ان کے دلوں میں جگہ بنا لیں گے۔ یہ نہ صرف ایک اخلاقی فرض ہے بلکہ دین کی اصل روح کا عکس ہے جو ہمیشہ انسانیت کی فلاح کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اسلام نے جنگ و امن کے جو اصول وضع کیے ہیں، وہ انصاف، انسانیت، اور اخلاقیات پر مبنی ہیں۔ ان کا مقصد محض فتح نہیں، بلکہ ظلم کا خاتمہ، مظلوموں کی حمایت، اور انسانی وقار کا تحفظ ہے۔ حماس نے اپنے عمل سے ایک ایسی تصویر دنیا کے سامنے رکھی جو مغربی میڈیا کے یک طرفہ بیانیے سے مختلف تھی۔ ان کی جدوجہد نے ان اصولوں کو اجاگر کیا جو عالمی سطح پر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف اور حقیقت کی ترجمانی کے لیے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔ اسلام کے اصول ہمیں ہمیشہ یہ سکھاتے ہیں کہ ہماری جنگ صرف ظلم اور ناحق کے خلاف ہے، اور یہ جنگ اخلاقیات، انصاف، اور انسانیت کے دائرے میں رہ کر لڑی جانی چاہیے۔ یہ پیغام دنیا کے سامنے پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

فلسطینی عوام اور قیادت کی قربانیاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ حماس کی جدوجہد نے نہ صرف فلسطینی مسئلے کو زندہ رکھا بلکہ دنیا کو دکھایا کہ ظلم و جبر کے سامنے ان کا سر جھکنا ناممکن ہے۔ عرب دنیا کی بے رخی اور بین الاقوامی برادری کی دوغلی پالیسی کے باوجود، غزہ کے عوام نے اپنی قربانیوں سے اس مسئلے کو زندہ رکھا۔ حماس کی حالیہ جدوجہد نے ان قوتوں کو بھی چیلنج کیا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن تھیں۔ یہ قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ حق کو دبایا تو جا سکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جا سکتا۔ فلسطینی عوام کا عزم اور قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے حقوق بلکہ امت مسلمہ کی غیرت اور اتحاد کے لیے بھی کھڑے ہیں۔ یہ قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن کر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔ غزہ کے مجاہدین نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا کہ محمد مصطفی کے امتی دشمنوں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق، رحمدلی اور انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہودی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام نہ صرف اپنے پیرو کاروں کو انصاف اور رحم دلی کا درس دیتا ہے بلکہ مخالفین کے ساتھ بھی بہترین برتاؤ کا حکم دیتا ہے۔ بدر، اْحد اور صلحِ حدیبیہ جیسے واقعات ہمیں رسول اللہ کی بے مثال شفقت اور کرم کی یاد دلاتے ہیں، اور غزہ کے مجاہدین نے انہی اصولوں کو زندہ کر دکھایا۔ انہوں نے اپنی جدوجہد سے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور یہ پیغام دیا کہ اسلام ہی حقیقی انسانیت اور عدل کا علمبردار ہے۔ ان کا یہ عمل ان لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو اسلام کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں یا اس کے پیرو کاروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں اور اعلیٰ کردار ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اسلام ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، لیکن رحم اور انسانیت کا دامن نہیں چھوڑتا۔ شکریہ اہلِ غزہ، آپ کی جدوجہد نے دنیا کو حق اور تکریمِ انسانیت کی روشن مثال دکھائی۔

متعلقہ مضامین

  • خالی ہاتھ
  • 3 شعبان۔۔۔ ولادتِ محبوبِ عالم، حسین ابن علیؑ مبارک
  • لمحہ فکریہ
  • وسیم اکرم کے بیٹے نے ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا
  • پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا ہے، عطا تارڑ
  • پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا،عطاء اللہ تارڑ
  • پاک چین دوستی پوری دنیا میں ایک مثال ہے: عطا تارڑ
  • فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (آخری حصہ)
  • مغرب کی قائدانہ ناکامی