جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان چیف الیکشن کمشنرتھے۔جناب عمران خان صاحب ملک کے وزیراعظم تھے، چیف الیکشن کمشنرسردار رضا خان کی مدت ملازمت 6دسمبر2019کوپوری ہونے والی تھی ۔نئے چیف کی تعیناتی کامسئلہ جنم لے رہا تھا ۔آج کے وزیراعظم شہبازشریف اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے۔ آئین پاکستان میں درج چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے اٹھارویں ترمیم میں وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم کی اپوزیشن لیڈر سے بامعنی مشاورت کے نتیجے میں چیف الیکشن کمشنر نے تعینات ہونا تھا۔شہبازشریف نے اس تعیناتی کی مہم کو لیڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔اپوزیشن لیڈر نے الیکشن کمیشن کو غیر فعال ہونے سے بچانے کے لیے ستمبر 2019میں ہی وزیراعظم سے مشاورت شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کے نزدیک اس طرح کے کام فضول شمار ہوتے تھے۔ وہ ایک پیج کے گھوڑے پر سوار کسی اپوزیشن لیڈر کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شہباز شریف سے ملاقات تو درکنار بات تک کرنے کے روادارنہیں تھے لیکن تعیناتی کا طریقہ کار تو بہرحال بامعنی مشاورت ہی تھا جو آج بھی ہے۔
شہبازشریف کی مشاورتی کوششیں مسلسل اس وجہ سے ناکام ہورہی تھیں کہ جناب عمران خان اس موڈ میں تھے ہی نہیں کہ ’’شہبازشریف‘‘ سے مشاورت کرکے کسی کی تعیناتی کی جائے ۔وہ جنرل باجوہ کی قیادت میں خود کو اتنا طاقتور تصورکررہے تھے کہ ان کے نزدیک کسی اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہیں تھالیکن آئینی کام تو آئینی ہوتے ہیں ۔ستمبر گزرگیا،اکتوبر اور نومبر بھی اسی خط وکتابت میں گزرگیا۔اپوزیشن لیڈر کی طرف سے جو تین نام سامنے لائے گئے وہ عمران خان کو قابل قبول نہیں تھے تو عمران خان کے کسی نام پر شہبازشریف متفق نہیں تھے ۔مشاورت بھی آمنے سامنے کی نہیں بلکہ خط وکتابت پر مشتمل تھی ۔ایک خط آتا تو ہفتوں بعد جواب دینے کا سوچتے جناب وزیراعظم ۔اس مشاورتی عمل میں دسمبر آگیا ۔جسٹس سردار رضا خان ریٹائرڈ ہوکر گھر چلے گئے۔ ان کے ساتھ دو ارکان کی مدت ملازمت بھی ختم ہوگئی یوں وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہوگیا۔آئین کی رو سے الیکشن کمیشن چارصوبائی ارکان اور ایک چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل ادارہ کہلاتا ہے ۔ان میں سے اگر کوئی ایک بھی عہدے پر موجود نہ ہو تو الیکشن کمیشن نامکمل اور غیر فعال ہوجاتا ہے۔الیکشن کمیشن 6دسمبر 2019کو غیرفعال ہوگیا لیکن عمران خان صاحب اس وقت اپوزیشن کو ’’نُکرے‘‘ لگانے اور دیواروں میں چنوانے میں مصروف تھے۔ ان کے سامنے احسن اقبال کو جیل میں ڈالنا تھا۔ مریم نوازکو باپ کے سامنے پکڑنا تھا۔رانا ثنا للہ پر ہیروئن ڈال کر اس کو جیل کی سیرکروانی تھی اور خواجہ آصف ،مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی جیسے لیگیوں کو سبق سکھانے کا اہم ٹاسک تھا اس لیے الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے کا ان کو کوئی رنج تھا نہ اپنی ذمہ داری کا احساس۔
معاملہ جب ڈیڈلاک پر پہنچ گیا تو پھر ان کے مرشد نے ہی خان صاحب کو سمجھایاکہ جناب آپ وزیراعظم صرف اپوزیشن کا صفایا کرنے کے لیے ہی نہیں بنے بلکہ مملکت کے کچھ کام بھی کرنے ہوتے ہیں ۔اس کے بعد انہوں نے کچھ نرمی دکھائی اور ناموں میں کچھ تبدیلی کرکے شہبازشریف کو 18دسمبر 2019کو خط کا جواب دیا ۔اس بار آنے والے تین ناموں میں ایک نام موجودہ چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا کا بھی تھا۔یہ راجا اتفاق رائے کی کڑی بن گیا۔وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان یوں ’’بامعنی مشاورت‘‘ مکمل ہوئی۔نام پارلیمانی کمیٹی میں گئے اور انسانی حقوق کی وزیرشیریں مزاری نے قوم کو خوشخبری سنائی کہ کمیٹی نے جناب سکندرسلطان پر اتفاق کرلیا ہے۔اس نام پر سب کا اتفاق اس لیے بھی ہوگیا کہ سکندرسلطان ریلوے کے سیکریٹری کے طورپر کچھ ہی عرصہ پہلے ریٹائر ہوئے تھے، ریلوے کے وزیرشیخ رشید کو ان کا اعتماد اچھی طرح حاصل تھا۔ بطور بیوروکریٹ سکندر سلطان راجا ایک بااصول اور ایماندار افسر کی شہرت رکھتے تھے۔ پنجاب میں شہبازشریف کے ساتھ بھی کچھ عرصہ وہ بطور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کام کرچکے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر سرداررضا خان کی ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ ماہ بعد الیکشن کمیشن کو سربراہ میسر آیا ۔پھر دوارکان پر بھی اسی طرح کی مشاورت ہوتی رہی وہ تنازع بھی حل ہوا تو الیکشن کمیشن دوبارہ فعال ہوا۔ زندگی ارتقا سے گزرتی ہے۔ ضرورت کے مطابق قوانین بنتے ہیں آئینی ترامیم کی جاتی ہیں ۔الیکشن کمیشن کی اس غیرفعالیت سے بچنے کے لیے حکومت نے قانون سازی کردی کہ نئے سربراہ کی تعیناتی تک موجودہ سربراہ الیکشن کمیشن اپنے عہدے پر موجود رہے گا ۔اس وجہ سے سکندرسلطان راجا صاحب اپنے عہدے پر اس عبوری مدت کے لیے موجود ہیں کیونکہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت جو سیاسی ماحول ہے وہ عمران خان کے دور سے بھی زیادہ کشیدہ ہے ۔ اُس وقت تو عمران خان براہ راست سامنے تھے تو مشاورت کو چار ماہ لگ گئے تھے اب تو وہ سامنے بھی نہیں ہیں اور اپوزیشن لیڈر کسی سے بات کرنے کوتیار نہیں ہیں انہوں نے شہبازشریف کی طرح اس عمل کاآغاز بھی نہیں کیا ہے کہ وہ عمران خان کی اجازت کے بغیر کسی ایک نام کا پہلا حرف بھی کسی کو دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ عمران خان جنہوں نے مذاکرات ختم کردیے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے لیے کسی نام پر اتفاق کرلیں یہ ممکنات میں سے ہی نہیں ہے اس لیے ’’بامعنی مشاورت‘‘ کسی نئے نام پر اتفاق تک سکندر سلطان راجا ہی عہدے پر رہیں گے تاکہ الیکشن کمیشن فعال رکھا جائے ۔
پی ٹی آئی کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم چلانا بے اثر بھی ہے اور بے معنی بھی ۔بس سوشل میڈیا کی حد تک گند اچھالا جاسکتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی مشن جاری ہے اس سے کسی کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے اصل کام نئے سربراہ پر اتفاق رائے ہے جب تک پی ٹی آئی اس طرف نہیں آتی بات آگے نہیں بڑھے گی ۔اگر آج مشاورت شروع کریں پھر بھی پرانے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے دوتین ماہ تو لگ ہی جائیں گے اس وقت تک سکندرہی راجا ہیں ۔
پی ٹی آئی کو راجا صاحب کو گھر بھیجنے کی جلدی کبھی نہ ہوتی اگر راجا صاحب ڈسکہ الیکشن میں دھند کو تسلیم کرلیتے ۔وہ الیکشن ملہی صاحب اور پی ٹی آئی کو جتوادیتے لیکن راجا صاحب نے اصولوں پر سودانہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ صرف برے ہی نہیں بلکہ آرٹیکل چھ کے مستحق ہوگئے؟جن کو آج جلد ی ہے ان کے لیے ایک انہی کی حکومت سے مثال پیش خدمت ہے ۔جناب عمران خان صاحب نے آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو ریٹائر ہونے سے روک کر غیرمعینہ مدت تک توسیع دے دی تھی تاکہ کسی سے مشاورت نہ کرنی پڑے!
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: چیف الیکشن کمشنر بامعنی مشاورت الیکشن کمیشن اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی پی ٹی ا ئی نہیں تھے پر اتفاق غیر فعال ہی نہیں کے لیے
پڑھیں:
انٹرا پارٹی الیکشن: بلاول بلامقابلہ پی پی کے چیئرمین، چودھری شجاعت ق لیگ کے صدر منتخب
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + اپنے سٹاف رپورٹر سے + خبر نگار خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے انٹراپارٹی انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کو 4 سال کے لئے پی پی پی کا چئیرمین منتخب کر لیا گیا۔ سینٹرل الیکشن کنوینئر، فوزیہ حبیب کے جاری کردہ بیان کے مطابق پیپلز پارٹی کے انٹر پارٹی الیکشن 12 اپریل 2025ء کو سینٹرل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ہوئے۔ پارٹی آئین کے مطابق عہدیداران کو چار سال کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کا چیئرمین، ہمایوں خان کو سیکرٹری جنرل، ندیم افضل گوندل (چن) کو سیکرٹری اطلاعات اور آمنہ پراچہ کو سیکرٹری فنانس منتخب کیا گیا۔ علاوہ ازیں شجاعت حسین انٹرا پارٹی الیکشن میں ق لیگ کے صدر منتخب ہو گئے۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ قرآن ہمارا منشور ہے، منافقت اور تکبر سے اجتناب کریں اور خدمت کی سیاست کریں۔ پاکستان مسلم لیگ نے ملک بنایا تھا، یہی جماعت ملک کو بچائے گی، ایک مرتبہ پھر پارٹی کا صدر منتخب کرنے پر جنرل کونسل کے ارکان کا شکریہ، تمام عہدیداران پارٹی کو منظم، مستحکم اور فعال بنائیں۔ پارٹی کی مرکزی اور صوبائی جنرل کونسل کے اجلاس میں سینئیر نائب صدر چوہدری سالک حسین، پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری شافع حسین، چیف آرگنائزر ڈاکٹر محمد امجد، سیکرٹری جنرل طارق حسن خان، سیکرٹری اطلاعات غلام مصطفیٰ ملک، رکن قومی اسمبلی مسز فرخ خان، مرکزی عہدیداران، صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی صدور اور جنرل سیکرٹریز، مختلف ونگز کے صدور، جنرل سیکرٹریز اور ملک بھر سے مرکزی جنرل کونسل کے اراکین نے شرکت کی۔ جنرل کونسل کا اجلاس چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت پر انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے طلب کیا گیا۔ انٹرا پارٹی الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین کو آئندہ تین سالوں کے لئے مرکزی صدر، چوہدری سالک حسین کو مرکزی سینئیر نائب صدر، چوہدری شافع حسین کو پنجاب کا جنرل سیکرٹری اور طارق حسن کو مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ تمام امیدواران بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ جنرل کونسل کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے آئندہ تین سالوں کے لئے ڈاکٹر محمد امجد کو مرکزی چیف آرگنائزر اور غلام مصطفیٰ ملک کو مرکزی سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا گیا۔ اجلاس میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے مذمتی قراردادیں پیش اور منظور کی گئیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ قرآن الحکیم ہمارا منشور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس اور انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کا صدر منتخب کرنے پر سب کا شکریہ۔ آپ سب نے مسلم لیگ کی چھتری تلے متحد ہو کر اسے مظبوط کرنا ہے۔ سب عہد کریں کے تکبر اور منافقت سے احتراز کرتے ہوئے خدمت کی سیاست کو فروغ دیں گے۔ چوہدری سالک حسین، چوہدری شافع حسین، ڈاکٹر محمد امجد، طارق حسن خان اور غلام مصطفیٰ ملک نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے پارٹی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، جنرل کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ پارٹی قائد چوہدری شجاعت حسین کے نظریے کے مطابق خدمت کی سیاست کریں گے اور پارٹی کی ترقی کے لئے دن رات کام کریں گے۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ (ق) کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ ق بطور سیاسی جماعت قانون ساز اسمبلیوں میں عوامی امنگوں کی یونہی نمائندگی اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔ انہوں نے مسلم لیگ ق کی نو منتخب قیادت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ق حکومت کی اہم اتحادی سیاسی جماعت ہے جس نے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کیلئے اپنی سیاست کی قربانی میں سب اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے اس امید کا اظہار بھی کیا کی بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ق قانون ساز اسمبلیوں میں عوامی امنگوں کی یونہی نمائندگی اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابات میں پارٹی چیئرمین منتخب ہونے پر دلی مبارکباد دی ہے۔ شہباز شریف نے ہمایوں خان کو سیکرٹری جنرل، ندیم افضل گوندل(چن) کو سیکرٹری اطلاعات اور آمنہ پراچہ کو سیکرٹری فنانس منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ وزیرِ اعظم نے پارٹی کے نو منتخب عہدیداران کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی نوجوان قیادت کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے انٹرا پارٹی الیکشن میں بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا دوبارہ بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور بلاول بھٹو زرداری کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا دوبارہ چیئرمین منتخب ہونا ان پر پیپلز پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان کے مکمل اعتماد کا مظہر ہے، بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کے فروغ اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک مدبر اور زیرک سیاستدان ہیں، بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی مزید مضبوط ہو گی اور جمہوریت کیلئے جد و جہد جاری رکھے گی۔ سردار ایاز صادق نے چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان مسلم لیگ کے بلا مقابلہ صدر منتخب کی مبارکباد دی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان مسلم لیگ کا بلا مقابلہ صدر اور چوہدری سالک حسین کو سینئر نائب صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے پاکستان مسلم لیگ کی نو منتخب قیادت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کا پاکستان مسلم لیگ کا صدر منتخب ہونا ان پر پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان کے مکمل اعتماد کا اظہار ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین ایک کہنہ مشق، زیرک اور دور اندیش سیاسی رہنما ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہونا کارکنان کے بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کا علم بلند رکھا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک دور اندیش اور باصلاحیت رہنما ہیں، بلاول بھٹو کی قیادت میں پارٹی نے نئی سیاسی سمت حاصل کی ہے۔