Nai Baat:
2025-04-16@15:01:51 GMT

کبھی ہاں کبھی ناں

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

کبھی ہاں کبھی ناں

حکومت سے باہر رہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کا بطور ایک سیاسی پارٹی بالعموم اور اس کے بانی چیئرمین مسٹر عمران خان کا بالخصوص کسی بھی معاملہ ، چاہے وہ ملکی مفاد کے کسی منصوبے سے متعلق ہو یا حکومتی پارٹی کی کو ئی سیاسی تدبیر، میں تعاون کرناایک انہونی سی بات نظر آتا تھا۔ پھر یہ لوگ جانے کیسے اور کس مصلحت یا منصوبہ بندی کے تحت حکومت سے مذاکرات پر راضی ہو گئے۔ ہمیں یا د ہے کہ یہی پی ٹی آئی اور یہی عمران خان موجودہ حکومت کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے اور اپنی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو یکسر خارج از امکان قرار دیا کرتے تھے۔

ممکن ہے کہ ابتدا میں عمران خان کا خیال ہو کہ شائد وہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یقینا انہوں نے اس سلسلہ میں سرتوڑ کوشش بھی ضرور کی ہو گی لیکن یہ تمام سوچیں اور کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں۔ چار و ناچار انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات تو شروع کر لیے لیکن امید کہیں اور ہی باندھ رکھی اور پھر جب انہیں اس سلسلہ میں امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آئی تو انہوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنا تھا۔

داد دینی پڑے گی عمران خان کے طرز ندگی اور طرز سیاست کو کہ پورے اعتماد کے ساتھ یو ٹرن بھی لے لیتے ہیں اور پھر جھوٹا بھی اپنے مخالفین کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مذاکرات والے معاملہ میں بھی کچھ یوں ہی ہوا ۔ یعنی مذاکرات کی اگلی نشست کے لیے جو تاریخ باہمی رضا مندی سے طے ہوئی تھی اس سے قبل ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان بھی خود سے فرما دیا اور پھر اس تمام صورتحال کی ذمہ داری بھی حکومت پر ڈال دی۔

اب یہ تمام کاروائی مسٹر عمران خان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے یا پھر ان کے مشیران میں سے کسی نے ان کے کان میں پھونک ماری ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کا حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلہ کو ختم کرنا اتنا ہی احمقانہ فیصلہ ثابت ہو گا جتنا ان کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا یا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی صوبائی حکومتیں ختم کرنا تھا۔
اس بات کا اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کو عجلت میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بند کرنے کی غلطی کا احساس ہو چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ ان کے اندر اس سلسلہ میں ایک اور یو ٹرن لے کر مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ سے جوڑنے کی خواہش بھی پیدا ہو چکی ہو۔ پی ٹی آئی کے لیے تو کسی بھی بات پر یوٹرن لے لینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں کو بھی ان کے ساتھ ایک لمبا عرصہ تک معاملات چلانے کے بعد ان کو ڈیل کرنے کا طریقہ سمجھ میں آ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ جب تک پی ٹی آئی والے ایک یو ٹرن فیصلہ کے تحت دوبارہ مذاکرات میں شامل ہونے پر رضا مندی کا اظہار کریں حکومتی جماعتیں اس سلسلہ میں نئے معیار اور قوائد و ضوابط طے کر چکی ہوں۔ اور ان کے ساتھ وہی کچھ ہو جائے جو اسمبلیوں سے استعفے دینے اور اپنی ہی دو صوبائی حکوتیں ختم کرنے کے نتیجہ میں ہو چکا ہے۔ یعنی کچھ حاصل حصول تو خیر کیا ہونا تھا جو ہاتھ میں تھا وہ بھی ضائع ہو گیا۔
اپنی تمام تر سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی کی طرف سے جو پلان بی پیش کیا جا رہا ہے اس میں بھی کچھ نیا نہیں۔ احتجاج ،سڑکیں بلاک کرنااور اسلام آباد پر چڑھائی جیسی کاروائیاں پہلے بھی بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور اب تو شائد حکومت ایسی حرکتوں کو زیادہ مضبوط ہاتھوں کے ساتھ نمنٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی کا یہ بھی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی اہم ایونٹ ہونا ہو یا کسی اہم غیر ملکی شخصیت کا دورہ شیڈول ہو یہ عین اس وقت پر اپنے احتجاجی پروگرام کا اعلان کر دیتے ہیں۔ سیاسی مخالفین تو اس قسم کے رویہ کو ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بھی اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ یہ کوئی اچھا طرز عمل نہیں ہے۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم ہو جانے اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائی جانے کے بعد اب پی ٹی آئی نے پاکستان میں منعقد ہونے والے کرکٹ کے اہم ایونٹ چیمینز ٹرافی کے موقع پر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت نے اب تک جس کامیابی سے ان کے احتجاجی سلسلوں کو ڈیل کیا ہے اس کی روشنی میںتو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس مرتبہ بھی اگر چیمپینز ٹرافی کے موقع پر کسی قسم کی ہلڑ بازی کی کوشش کی گئی تو اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور پی ٹی آئی کو اس مرتبہ بھی الزام تراشی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

پی ٹی آئی اور اس کی اعلیٰ قیادت بشمول مسڑ عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اداروں پر حملہ آور ہونے، گالی گلوچ کرنے ، دھمکیاں دینے اور الزامات لگانے جیسے ہتھکنڈے سیاسی مخالفین کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ردعمل بہت سخت آتا ہے۔ انہیں الطاف بھائی اور میاں نواز شریف کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ملک میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت تو بن گئی نواز شریف کا بھائی وزیر اعظم اور بیٹی پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی بن گئے لیکن میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش دل میں ہی لیے ہوئے جاتی عمرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ الطاف بھائی بھی ملکی سیاست کا ایک قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔

عمران خان اور پی ٹی آئی اگر اب بھی ملکی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگنی پڑے اور پھر مستقبل میں مثبت رویہ رکھنے کا وعدہ کرنا پڑے گا ورنہ جس رفتار سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے جا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب یہ خیبر پختونخواہ کی ایک تیسرے درجے کی پارٹی بن کر رہ جائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حکومت کے ساتھ مذاکرات اس سلسلہ میں پی ٹی ا ئی اور پھر کرنے کی ہے کہ ا اور اس

پڑھیں:

غرہ جنگ بندی مذاکرات، صیہونی حکومت کی جانب سے نئے مطالبات

حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مصر نے کہا ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کے سلسلے میں اسرائیل کی نئی شرائط بحران پیدا کر رہی ہیں تاہم معاملات جلد مثبت ہوں گے۔ مصر کی سٹیٹ انفارمیشن سروس کے سربراہ ضیا رشوان نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات میں مصری قطری ثالثی بین الاقوامی قانون، جائز حقوق اور بین الاقوامی قانونی قراردادوں کی طرف موقف کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قاہرہ اور دوحہ کی طرف سے پیش کردہ تجاویز انصاف کے اصولوں پر کاربند اور بحران کی انسانی اور سیاسی جہتوں کو مدنظر رکھ کر پیش کی گئی ہیں۔ رشوان نے میڈیا کے بیانات میں وضاحت کی کہ اسرائیل اس دور کے دوران اپنی مذاکراتی تجاویز پیش کرنے کا خواہشمند تھا، جو اس کے خیال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے ماہ خطے کا دورہ کرنے کے ارادے سے متعلق اندرونی ٹائمنگ کے مسئلے سے منسلک ہے۔ امریکہ تل ابیب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس تاریخ سے پہلے مذاکراتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ دورہ واشنگٹن سے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں ان کے سابقہ ​​استقبالیہ کے مقابلے میں ایک غیر معمولی بحران کا انکشاف ہوا، جو غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے سیاسی اور بین الاقوامی مزاج میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ اسرائیل کی نئی شرائط اسرائیلی حکومت کے اندرونی بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان سے اس کی طاقت کی پوزیشن کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ثالث اس دور کی نازک نوعیت سے واقف ہیں اور اسرائیل مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات کی حد کو غیر حقیقی طور پر بڑھا رہا ہے۔ حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسرائیلی تجویز میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اسرائیلی تجویز کی ایک بنیادی شرط مصری اقدام سے بالکل مختلف ہے۔ اس تجویز میں 10 اسرائیلی قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا آغاز جنگ بندی کے پہلے دن اسرائیلی نژاد امریکی قیدی عیڈان الیگزینڈر کی رہائی سے ہو۔ اس کے بعد کے مراحل میں عمر قید کی سزا پانے والے 120 فلسطینی اسیران کی رہائی کے بدلے 9 اضافی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے 1,100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رائی بھی شامل ہے۔

اس تجویز میں دونوں فریقوں کے درمیان اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیران کی قسمت کے بارے میں معلومات کا تبادلہ اور اسرائیل کے زیر حراست 160 فلسطینیوں کی باقیات کے بدلے میں 16 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں سات دنوں کے لیے غزہ کی پٹی کے علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کی شرط بھی رکھی گئی ہے، جس میں رفح اور غزہ کے شمال اور مشرقی غزہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے، شہریوں تک اس کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار کے قیام اور بے گھر افراد کو پناہ دینے کے لیے ساز و سامان کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم اس تجویز میں ایک شق شامل ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل "غزہ کو غیر مسلح علاقہ قرار دے”، جسے حماس ایک سرخ لکیر سمجھتی ہے۔حماس کے بیرون ملک سیاسی بیورو کے رکن سامی ابو زہری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کی تحریک ان تمام پیشکشوں کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے گی جو فلسطینی عوام کے مصائب کو کم کر سکتی ہیں، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے ناممکن شرائط کا تعین کر رہے ہیں۔ وہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے کی تلاش میں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’شوبز میں دکھاوے کے دوست بنتے ہیں‘، نعیمہ بٹ ساتھی اداکاروں پر برس پڑیں
  • غرہ جنگ بندی مذاکرات، صیہونی حکومت کی جانب سے نئے مطالبات
  • امریکا کے ساتھ ٹیرف مذاکرات میں ریکوڈِک منصوبہ ممکنہ ترغیب ہو سکتا ہے: ڈائریکٹر ٹِم کِرب
  • بھارت اور چین کے مسافر پروازیں بحال کرنے پر پھر مذاکرات، تاریخ مقرر نہیں ہوسکی
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ
  • عمران خان سے جیل میں امریکی پاکستانی شخص کی ملاقات کا انکشاف
  • عمران سے جیل میں نومبر میں امریکی پاکستانی سے ملاقات کا انکشاف
  • عمران خان سے جیل میں امریکی پاکستانی شخص کی طویل ملاقات کا انکشاف
  • بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!
  • متنازع کینال منصوبے پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے، شرجیل میمن