بھارتی ٹیم فتح کے لیے منفی ہتھکنڈوں پر اتر آئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
کراچی:
بھارتی ٹیم فتح کیلیے منفی ہتھکنڈوں پر اتر آئی، انگلینڈ کے خلاف چوتھے ٹی 20 میں ’کنکشن‘ قانون کا ناجائز فائدہ اٹھالیا۔
بطور بیٹنگ آل راؤنڈر شیوم دوبے کے متبادل فاسٹ بولر ہریشت رانا کو میدان میں اتارا گیا، انگلش کپتان جوز بٹلر اور سابق کرکٹرز میزبان سائیڈ کی حرکت پر بھڑک اٹھے۔
تفصیلات کے مطابق بھارت نے جمعے کو چوتھے ٹی 20 میں انگلینڈ کیخلاف 15 رنز سے فتح حاصل کر کے 5 میچز کی سیریز 1-3 سے اپنے نام کر لی،اس میچ میں میزبان پر کنکشن قانون کے ناجائز استعمال کا الزام بھی عائد ہوگیا۔
بھارتی اننگز کی آخری گیند پر شیوم دوبے رن آؤٹ ہوگئے، اس سے پچھلی گیند ان کے ہیلمٹ پر لگی تھی، انھوں نے 53 رنز بنائے، بعد ازاں بولنگ کے دوران بھارت نے بطور کنکشن متبادل ہریشت رانا کو میدان میں اتارا۔
انھوں نے اس سے قبل بھارت کی صرف 2 ٹیسٹ میچز میں نمائندگی کی تھی، اس طرح متبادل کی صورت میں ٹی 20 ڈیبیو کیا اور مہمان ٹیم کے اہم کھلاڑیوں لیام لیونگ اسٹن، جیکب بیتھل و جیمی اورٹن کو آؤٹ کیا۔
آئی سی سی قانون کے تحت سر پر چوٹ کھانے والے کھلاڑی کا متبادل بالکل ویسا ہی ہونا چاہیے جبکہ بھارت نے بیٹنگ آل راؤنڈر شیوم دوبے کی جگہ اسپیشلسٹ فاسٹ بولر ہریشت رانا کو میدان میں اتارا۔
میچ میں شکست کے بعد انگلش کپتان جوز بٹلر نے کہا کہ یہ بالکل بھی کنکشن پلیئر کا ہو بہو متبادل نہیں تھا، کیا دوبے فاسٹ بولنگ کرنے لگے یا پھر ہریشت نے اپنی بیٹنگ بہت زیادہ بہتر بنالی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم سے متبادل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، فیلڈ میں انھیں دیکھ کر امپائر سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میچ ریفری نے اجازت دی، ہم اس بارے میں ریفری جواگل سری ناتھ سے پوچھیں گے۔
سابق انگلش کپتان کیون پیٹرسن اور مائیکل وان نے بھی ہریشت کو کھلانے پر تنقید کی۔ دوسری جانب بھارتی بولنگ کوچ مورنی مورکل نے کہاکہ میدان سے واپسی پر دوبے کا سر چکرا رہا تھا، ہم نے جس وقت ہریشت کو تیار ہونے کا کہا تب وہ ڈنر کررہے تھے مگر فوری طور پر میدان میں اترے اور اچھی کارکردگی پیش کی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا
پڑھیں:
ہماری تہذیبی جنگ کے بڑے میدان
یہ محفل علماء کرام کی ہے اور موجودہ حالات میں ان کی ذمہ داریوں پر گفتگو اس کنونشن کا خصوصی موضوع ہے۔ جہاں تک علماء کرام کے حوالہ سے موجودہ صورتحال کا تعلق ہے، مجھے ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ یاد آرہا ہے جس میں انسان کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت دنیا میں اہلِ دین کو اور اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو جن محاذوں کا سامنا ہے اور جن جن مورچوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر اس محاورے کا دامن تنگ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ شاید اسے ڈبل کر کے بھی درپیش منظر کی پوری طرح عکاسی نہ کی جا سکے۔ مگر میں ان میں سے چند اہم محاذوں اور مورچوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن پر اس وقت دنیائے اسلام کے اہل دین کو محاذ آرائی درپیش ہے۔
(۱) پہلا مورچہ تو عالمی سطح کا ہے کہ عالمی قوتوں نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اہل دین کو اقتدار اور قوت میں آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے، اور یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت عثمانیہ بھی جرمنی کے ساتھ تھی اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف ترکوں کو ’’ترک نیشنل ازم‘‘ کے نام پر عربوں کے خلاف ابھارا گیا تھا، اور دوسری طرف عربوں کو ان کی برتری کا احساس دلا کر ’’عرب قومیت‘‘ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔
مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف حسین کو عرب خلافت کا لالچ دے کر ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا جس کی بغاوت کے بعد عرب علاقے ترکی کی دسترس سے نکل گئے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ عراق اور اردن پر شریف مکہ کے ایک ایک بیٹے کو بادشاہ بنا کر حجاز پر آل سعود کا قبضہ کرا دیا گیا تھا۔
اس دوران جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب قسطنطنیہ یعنی استنبول پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو ترکوں کو ترکی کی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اتحادیوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ترکی کے قوم پرست لیڈروں کو اس شرط پر ترکی کا حکمران تسلیم کیا گیا کہ وہ ترکی کی حدود تک محدود رہیں گے، خلافت کو ختم کر دیں گے، ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے، اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ کبھی اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی خلافت بحال کی جائے گی۔
مصطفیٰ کمال اتاترک اور دیگر ترک قوم پرست لیڈروں نے ان شرائط کو قبول کر کے ترکی کا اقتدار سنبھالا اور ان شرائط پر عمل بھی کیا۔ آج بھی یہی صورتحال درپیش ہے اور مغربی ممالک اپنی ان شرائط پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تیاپانچہ اسی جرم میں کیا گیا کہ انہوں نے اسلامی قوانین نافذ کر دیے تھے اور خلافت کے قیام کی طرف پیشرفت کر رہے تھے۔
اس لیے ہمارا سب سے بڑا محاذ یہ عالمی گٹھ جوڑ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام میں اصل رکاوٹ ہے۔ اس محاذ سے عالم اسلام کی رائے عامہ کو آگاہ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو بیدار کرنا اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف منظم کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔
(۲) ہمارا دوسرا محاذ داخلی ہے اور ہمارے حکمران طبقے اور مغرب کی تہذیب و ترقی سے مرعوب حلقے ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر و تشریح کی جائے جس میں اسلام کا پرچم بھی ہاتھ میں رہے، مغرب بھی ہم سے ناراض نہ ہو، اور ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔
سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی، شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، ناچ گانے اور عریانی و فحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے، اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب ایسا اسلام جس میں نماز کی پابندی ضروری نہ ہو، سود کو نہ چھیڑا جائے، شراب پر کوئی پابندی نہ ہو، اور ناچ گانے کے فروغ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہماری سابق تاریخ میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اب اسے ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سابقہ تعبیرات کو ترک کر کے اس ’’روشن خیالی اور ترقی پسندی‘‘ کو اپنا لیا جائے۔
میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس قسم کے اسلام کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا جس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں قبیلہ ثقیف کے قبولِ اسلام کے تذکرہ میں کیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور گزارش کی کہ ہم طائف والے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری چند شرائط ہیں:
(جاری ہے)