بلوچستان کے حالات آج سے خراب نہیں ہیں، مولانا عبدالغفور حیدری
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
کندھکوٹ(نمائندہ جسارت)کندھکوٹ جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل ایم این اے مولانا عبدالغفور حیدری حافظ ربنواز چاچڑ ھاؤس میں پْرھجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حالات آج سے نہیں بلکہ پاکستان میں شامل ہونے وقت سے ہی خراب تھے۔ فوجی آمروں کے دؤر میں ھمیشہ سرداروں کو گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا جو زیادتیاں عروج پر پہنچیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دؤر حکومت میں بلوچستان کو چلنے نہیں دیا گیا بلوچستان کو برخواست کیا گیا خیبر پختونخواہ کے حالات بہی بلوچستان کی طرح خراب ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کو شہید کرنے کے بعد بلوچستان اس وقت حالت جنگ میں ہے ریاست اور حکومت کو چاہیے کہ مسائل طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ بنگلادیش جیسا کوئی سانحہ نہ ہو۔ پیکا ایکٹ اظہار کی آزادی کو روکنے کیلئے نہیں ہونا چاہیے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے ایسے قانون کے حوالے سے صدر اور وزیراعظم سے بات کی ہے ہر ادارے کو چاہیے کہ اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اس وقت ملک کے حالات خراب ہیں ریاست کو اپنی ذمیداری ادا کرنی چاہیے کندھ کوٹ ضلع سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں لوگ غیر محفوظ ہیں اغوا برائے تاوان، لوٹ مار، اور بھتہ خوری کے واقعات روز کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ حکومت اور ریاست امن قائم کروانے میں ناکام نظر آ رہی ہے چند ڈاکوؤں کو حکومت کنٹرول نہیں کر پا رہی تو ایسے حکمرانوں سے ملک کیسے چلے گا موجودہ حکمرانوں سے ملک نہیں چل پا رہا اسمبلیوں میں نااہل لوگ لائے گئے ہیں جس کو قانون اور آئین کا ہی پتہ نہیں ہے حکومت کی مدت پوری کروانے والے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں وہ چاہیں تو حکومت مدت پوری کریگی نہیں چاہیں تو حکومت مدت پوری نہیں کریگی 2024 کے انتخابات میں نامزدگیاں ہوئی ہیں سیلکٹ کر کے نااہل لوگوں کو لاکر ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا گیا ہے دریائے سندھ میں سے نہریں نکالنا اور سندھ کے حصے کا پانی چھیننا ناجائزی ہے بلوچستان کو بھی حصے کا پانی نہیں مل رہا جو بڑی ناجائزی ہے جے یو آئی اور پی ٹی آئی والے ماضی میں سخت مخالف رہے اس وقت دونوں جماعتیں اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے سیز فائر کیا ہے عمران خان کے مستقبل کا اللہ کو ہی پتا ہے میرے حلقے قلات میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سردی میں منفی حرارت 12 تک چلا جاتا ہے پر وہاں گیس نہیں ہے عوام کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کیلئے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے کندھ کوٹ میں رہنے والی اقلیتی ھندو برادری کو ڈاکوؤں کی جانب سے بھتہ کی پرچیاں مل رہی ہیں جس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اقلیتی ھندو برادری پاکستانی ہیں جو شریف اور کاروباری کمزور طبقہ ہے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے حالات
پڑھیں:
کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اٹھارویں آیئنی ترمیم کے تحت تعلیمی پالیسی سے متعلق فیصلے صوبوں کو کرنے چاہییں۔ قابل اعتماد ذرائع نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ صدر نے سینیٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل کی پیشکش اور منظوری کی پرائیویٹ سطح پر مخالفت کی ہے۔ صدر کی مخالفت کی وجہ سے یہ بل فی الحال مشترکہ اجلاس میں پیش نہیں کیا گیا۔
پاکستانی پروفیسر کی معافی، تعلیمی نظام کہاں جا رہا ہے؟
یہ بل اگرچہ پی ڈی ایم کی حکومت، جو کہ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد وجود میں آئی تھی، نے قومی اسمبلی میں دو ہزار تیئیس میں منظور کیا تھا، لیکن اس کے بعد کسی وجہ سے یہ سینیٹ میں پیش نہ کیا جا سکا اور دو سال گزرنے کے بعد بھی سینیٹ میں اس کی منظوری نہیں ہو سکی۔
(جاری ہے)
حکومت اب اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن صدر نے لابنگ کرتے ہوئے اس کی پیشکش اور منظوری رکوا دی کیونکہ یہ بل وزیر اعظم کے دفتر کو مزید اختیارات دے رہا تھا اور تعلیمی معاملات کو مرکزی سطح پر لانے کی راہ ہموار کر رہا تھا، جبکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی معاملہ بن چکا ہے۔درسگاہیں غیر شرعی نظام کی بنیاد ہیں، حملے جائز ہیں، طالبان
قانون کیا تبدیلیاں تجویز کرتا ہے؟
بل کے مسودے کے مطابق، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہوگا، جبکہ موجودہ قوانین کے تحت کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور وزیر اعظم صرف ایچ ای سی کے چیئرمین اور چند اراکین کی تقرری کر سکتے ہیں۔
بل میں کمیشن کے اراکین کی تعداد کو کم کر کے دس کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، جن میں سے چار تعلیمی ماہرین، آئی ٹی ماہرین اور سائنسدان وزیر اعظم کی نامزدگی سے شامل ہوں گے۔ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ صوبائی کمیشن صرف سندھ اور پنجاب میں فعال ہیں، جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس کمیشن میں نمائندگی سے محروم رہیں گے۔
امتحانات میں بد عنوانی اور پنجاب کا تعلیمی نظام
ماہرین کا ماننا ہے کہ تعلیمی امور کو تعلیمی ماہرین کے ذریعے ہی چلایا جانا چاہیے۔ تعلیمی شعبے کو سیاست زدہ کرنا نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور یہ چیز تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی بجائے نقصان پہنچائے گی۔ تعلیمی امور کے ایک ماہر تیمور بانڈے کا کہنا ہے، ''تعلیم ایک غیر مرکزی معاملہ ہے اور اسے صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہی رہنا چاہیے۔
حکومت مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ ایچ ای سی کو خود مختار اور غیر مرکزی رہنا چاہیے۔‘‘ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو نہ صرف صوبوں کے تعلیمی معاملات سے متعلق فیصلوں سے دور رہنا چاہیے بلکہ وفاق میں بھی تعلیم کے شعبے میں سیاست کا داخلہ نہیں ہونا چاہیے۔ تیمور بانڈے کہتے ہیں، ''وفاقی سطح پر بھی، ایچ ای سی کو خود مختار رہنے دیا جائے اور یہی بہتر ہے۔
اگر وزیراعظم بہت سی پوسٹس پر لوگوں کو لگائیں گے تو اس صورت میں میرٹ کی پاسداری مشکل ہو سکتی ہے۔‘‘پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے کیوں؟
کیا صوبے بہتر طریقے سے تعلیمی معاملات چلا سکتے ہیں؟
تعلیمی معاملات کی خود مختاری سے اتفاق رکھتے ہوئے بعض ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ صوبے اپنی ذمہ داری صحیح سے نہیں نبھا رہے اور بہت سی جامعات میں جنہیں صوبے خود چلا رہے ہیں بہت سی آسامیاں خالی ہیں جس کی وجہ سے کام میں اور تعلیمی معیار میں بہتری لانے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ، نئی تحقیق کے لیے کتنا؟
معروف تعلیمی ماہر بیلا رضا جمیل کہتی ہیں کہ ابھی تک صوبے تعلیم کے لیے وفاقی حکومت سے پیسے مانگتے ہیں اور اگر وفاق پیسے نہ دے تو یونیورسٹیز کا چلنا مشکل ہو جائے۔ وہ لیکن یہ سمجھتی ہیں کہ اس مسئلے کا یہ حل نہیں ہے کہ تعلیم کے شعبے کو مرکز تک محدود کر دیا جائے بلکہ صوبوں کواپنی ذمہ داریاں صحیح سے نبھانے کی ضرورت ہے۔
بیلا رضا کا مزید کہنا تھا،''ہم تو اس چیز کے قائل ہیں کہ تعلیم کو ضلعی سطح تک ڈی سینٹرلائز کر دیا جائے اور ضلعی حکومتیں اسکولوں کا نظام چلائیں اور ان کی بہتری کے لیے کام کریں۔ صوبائی حکومتوں کا کردار صرف پالیسی کی حد تک ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی تمام سطحیں، جیسے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، اور ضلعی حکومت، مؤثر طریقے سے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں۔‘‘