اسلام ٹائمز: امریکی عوام درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں کے نقصان کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی حکومت پر اس طرزِ فکر پر نظرثانی کیلئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجارتی جنگ کیوجہ سے پیدا ہونیوالی داخلی بے اطمینانی اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے اپنے اتحادیوں کیساتھ تجارتی جنگ کے شعلوں کو کم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ تحریر: امیر علی ابوالفتح
کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25% ٹیرف اور چین سے درآمدات پر 10% ٹیرف کے نفاذ کے ساتھ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگ کا ایک نیا دور شروع کر دیاہ ہے۔ یہ مسئلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یورپی یونین سے کچھ اشیا کی درآمد پر ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اگر برکس کے رکن ممالک نے ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی شروع کی تو وہ اس تجارتی گروپ کے ارکان پر بھی 100 فیصد ٹیکس عائد کر دیں گے۔ امریکہ فرسٹ کے نعرے کے ساتھ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اتحادیوں اور تجارتی شراکت داروں کے ساتھ گویا امریکی تجارتی تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ میں حکمران طبقے کا خیال ہے کہ ملکوں کے درمیان کھلے دروازے کی پالیسی اور تجارتی محصولات میں کمی بالآخر امریکہ کے لیے نقصان دہ ہوگی اور یہ کہ ملک کو گذشتہ چند دہائیوں کے راستے پرپلٹنا ہوگا۔
ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہمارا ملک اس وقت امیر تھا، جب اس نے ٹیکس عائد کیے تھے۔" ٹرمپ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے اس دور کا ذکر کر رہے ہیں، جب امریکہ نے بیرون ملک سے درآمد شدہ اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کیے تھے۔ اب تجارتی ٹیکس کے خاتمے یا نمایاں کمی کے ساتھ، امریکہ ایک بڑے برآمد کنندہ ملک سے ایک بڑے درآمد کنندہ ملک میں تبدیل ہوگیا ہے، جس کا غیر ملکی تجارتی خسارہ تقریباً 500 بلین ڈالر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، امریکی اپنی برآمد سے ہر سال پانچ سو بلین زیادہ درآمد کرتے ہیں۔ یہ صورت حال، جو برسوں سے جاری ہے، امریکی حکومتی اہلکاروں کی نظر میں ناقابل برداشت ہے اور ان کی نگاہ میں اسے ہر ممکن طریقے سے تبدیل کیا جانا چاہیئے۔
ٹرمپ کے نزدیک اس کا حل درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ کرنا ہے، اس امید پر کہ درآمدی اشیا مزید مہنگی کرنے سے ان کا حجم کم ہو جائے گا اور امریکی غیر ملکی تجارتی خسار ہ بھی کم ہو جائے گا۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس طرح وہ امریکی مینوفیکچرنگ اور امریکی کارکنوں کی حمایت کرسکیں گے۔ تاہم، کینیڈا، میکسیکو، چین یا یورپی یونین کے رکن ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر بھاری ٹیکس عائد کرنے پر ان کی طرف سے بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے درآمدات پر اسی طرح کے محصولات عائد کرنے کے لیے ردعمل سامنے آئے گا۔ اس سے امریکی برآمدات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
دوسرے لفظوں میں ٹرمپ نے جو ٹیرف وار شروع کی ہے، وہ نہ صرف درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ امریکہ کی برآمدی منڈیوں کو بھی نقصان پہنچے گا اور دونوں طرف سے امریکی شہریوں پر دباؤ پڑے گا۔ اس حد تک کہ ٹرمپ خود امریکی عوام پر اس دباؤ کا اعتراف کرچکے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی بھی چیز نے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو تجارتی جنگ میں داخل ہونے اور اسے بڑھانے سے روکا ہے۔ ان کے خیال میں امریکی معیشت اس قدر مضبوط اور بڑی ہے کہ اس تجارتی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر کینیڈا، میکسیکو یا یورپی یونین کے رکن ممالک امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور بالآخر وہ امریکہ کی شرائط کو تسلیم کر لیں گے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے، امریکہ بیجنگ پر سیاسی اور سکیورٹی دباؤ بڑھا کر اس ملک کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن غیر ملکیوں کے ساتھ تجارتی جنگ میں امریکہ کے اندر بھی ایک ردعمل آسکتا ہے۔ امریکی عوام درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں کے نقصان کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی حکومت پر اس طرزِ فکر پر نظرثانی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجارتی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی داخلی بے اطمینانی اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگ کے شعلوں کو کم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیمتوں میں اضافے ساتھ تجارتی جنگ درآمدی اشیا درآمدات پر امریکہ کے ٹیکس عائد دباؤ ڈال سکتی ہے کے ساتھ
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کا بھارت کو مشورہ!
برطانوی اخبار ‘‘فنانشل ٹائمز’’ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ساختہ ہتھیار زیادہ خریدیں اور دونوں ممالک کے درمیا ن تجارتی تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہئیں،اخبار کے مطابق یہ بات دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہی گئی۔
وہائٹ ہاؤس نے اس خبر کی تصدیق کی ہے اوربتایاہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ گفتگو ‘‘نیتجہ خیز’’ رہی۔ مودی نے ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ سے قریبی تعلقات قائم کیے، اور نئی دہلی واشنگٹن کی جانب سے بیجنگ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی میں ایک اسٹریٹجک پارٹنر رہا ہے۔
مودی نے ٹرمپ کے ساتھ اپنے ان تعلقات کو اس ننگے طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی کہ ان کے عزائم ٹرمپ سے چھپے نہ رہ سکے جس کا اظہار ٹرمپ نے اپنی حالیہ انتخابی مہم کے دوران بھارت کو تجارت کے حوالے سے بہت بڑا غلط فائدہ اٹھانے والا کہہ کر کیا ۔ ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی خسارے، روسی تیل کی درآمدات اور بھارتی شہریوں کی امریکہ آمد جیسے مسائل پر اختلافات موجود ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت میں دونوں ممالک کے تعلقات پہلے جیسے مضبوط رہنے کا امکان کم ہے، اور جیسا کہ ٹرمپ نے صاف کہہ دیا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کا زیادہ تر انحصار اب لین دین پر مبنی ہوں گے، جس میں ٹرمپ بھارت سے کچھ رعایتیں بھی طلب کرسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کو مدعو نہ کرکے بظاہر یہ تاثر دے چکے ہیں کہ وہ بھارت کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور کسی ایسے ملک کے سربراہ کو اہمیت نہیں دینا چاہتے جس کی وفاداریاں مشکوک ہوں،اطلاعات کے مطابق بھارت نے امریکہ میں موجود اپنی مضبوط لابی کے ذریعے مودی کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دلوانے کی بہت کوشش کی اور غیررسمی طورپر اس دعوت نامے کیلئے درخواست بھی دی لیکن بھارت کی جانب سے دعوت نامے کے حصول کی درخواست رد کردی گئی اور ٹرمپ نے اس حوالے سے کوئی سفارش قبول کرنے سے انکار کردیا ،بھارتی وزارت خارجہ کے اہم اراکین کا کہنادہے کہ مودی کیلئے دعوت نامے کی اس درخواست کا رد کیا جانا جواہرلال نہرو کے بھارت کی سفارتی تعظیم کے لیے اچھا نہیں۔
یہ حقیقت کہ نریندر مودی کی جگہ بھارتی وزیرخارجہ نے تقریب حلف برداری میں شرکت کی لیکن اسے بھارت کی سفارتی کامیابی نہیں سمجھنا چاہیے۔عالمی تسلط کے حامی اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ہر طرح کے رہنماؤں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ میڈیا نے مکیش امبانی کو بھی بھرپور کوریج دی جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود مدعو کیاان دونوں کی پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ مکیش امبانی نے بھارت کی ایک بین الاقوامی تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کی بھی میزبانی کی تھی۔ مکیش امبانی اور ان کے بھائی انیل امبانی کو بل کلنٹن اور جارج بش کی تقریب حلف برداری میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ دوسری جانب ہیلری کلنٹن نے امبانی کی شادی میں بھنگڑا بھی ڈالاتھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی سیاستدان پیسے کے حصول کی کوششوں میں رہتے ہیں اور اپنے حلف لینے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مواقع پر اربوں ڈالرز جمع بھی کرچکے ہیں۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ مشکل معاشی حالات میں، ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کے لیے بھارت کتنی دولت خرچ کرسکتا ہے اور ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے امریکہ سے کون کون سے اور کتنے ہتھیار خرید سکتاہے۔یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ مودی کے قریبی سمجھے جانے والے دو بزنس ٹائیکونز امریکہ کے ساتھ کتنے مختلف تعلقات میں ہیں۔ مکیش امبانی اور گوتم اڈانی وہ دو شخصیات تھیں جنہوں نے من موہن سنگھ کے بعد نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی دلوانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔ دونوں نریندر مودی کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے لیکن مکیش امبانی اب مودی سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں لیکن ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود وہ مودی کو تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ نہیں دلواسکے جس سے ظاہرہوتاہے کہ ٹرمپ اور مودی کے تعلقات میں دراڑ زیادہ گہری ہوچکی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور مکیش امبانی کے درمیان قریبی تعلقات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ وہ روسی کرنسی روبل کی ادائیگی کرکے روسی تیل خرید رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا جبکہ گزشتہ روز جب مودی نے ٹرمپ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے فون کیا تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی سے کہا کہ وہ مزید امریکی دفاعی ساز و سامان خریدیں اوریہ کہ امریکہ کے ساتھ تجارت اپنے حق میں رکھنے کی ان کی پالیسی اب نہیں چلے گی اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے مودی کو واضح الفاظ میں جتلا دیا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر حلف اُٹھانے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی پہلی گفتگو تھی۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق مودی فروری کے دوسرے ہفتے میں آرٹیفشل انٹیلی جنس سمٹ میں شرکت کرنے کے لیے پیرس جا رہے ہیں اور وہ وہاں سے واشنگٹن روانہ ہو جائیں گے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات جلد ہی باہمی اتفاق سے طے کی گئی تاریخ پر ہوگی۔اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان گفتگو کے دوران ٹیکنالوجی، تجارت، توانائی اور دفاعی تعاون جیسے موضوعات پر بات ہوئی ہے۔
صدر ٹرمپ اور مودی کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بعد بھارت اور امریکہ کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔لیکن وائٹ ہاؤس کے بیان میں ایک چیز اہم تھی جس میں بھارت سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکہ سے مزید دفاعی ساز و سامان خریدیں اور تجارتی تعلقات بھی برابری کی سطح پر رکھیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اکثر بھارت کو ‘ٹیرف کنگ’ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ان کا مطلب یہ ہوتاہے کہ بھارت امریکہ میں زیادہ چیزیں فروخت کرتا ہے اور وہاں سے کم اشیا خریدتا ہے۔اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ٹرمپ نے بھارت کا جی ایس پی ا سٹیٹس معطل کر دیا تھا۔ اس سے قبل بھارت کو امریکہ تک کچھ ڈیوٹی فری چیزیں ایکسپورٹ کرنے کی اجازت تھی۔اس وقت امریکہ کا مؤقف تھا کہ بھارت نے اپنی مارکیٹ تک امریکہ کی رسائی میں رُکاوٹ ڈالی ہوئی ہے جس کے سبب امریکہ کی معیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر اب بھارت کی حکومت صدر ٹرمپ کے دور میں آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔بلومبرگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اب امریکہ سے مزید شراب، اسٹیل اور تیل کی خریداری کے ذریعے امریکہ کے ساتھ تجارتی توازن قائم کرنے کی کوشش کرے گا لیکن امریکہ سے تیل کی خریداری کی صورت میں بھارت کو نسبتاً زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے گی جس کا بوجھ سرکاری خزانے کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ امریکہ کے مقابلے میں روس سے تیل کی خریداری میں بھارت کو ایک طرف کم قیمت پر تیل دستیاب ہوتاہے دوسری طرف اس کیلئے بھارت کو اپنے ڈالر کے ذخائر پر بوجھ نہیں ڈالنا پڑتا۔ اس کے علاوہ بھارت ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے امریکی اشیا پر ٹیرف کم کر سکتا ہے جس سے امریکہ سے درآمد کی ہوئی اشیا کی قیمت کم ہوجائے گی اور امریکہ کو بھارت کیلئے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا۔ بھارتی رہنماؤں کے حالیہ بیانات سے ظاہرہوتاہے کہ بھارت کا فی الحال امریکی انتظامیہ سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔جس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے امریکہ میں مقیم 18 ہزار غیرقانونی شہریوں کو واپس بُلانے پر بھی رضامندی کا اظہار کردیاہے یعنی ان کو امریکہ میں رہائش ،کاروبار یاملازمت کرتے رہنے کی اجازت دلوانے کی جدوجہد کرنے کے بجائے برسہابرس سے امریکہ میں روزگار کمانے والے اپنی لوگوں کو واپس لے کر اپنے ملک میں بیروزگاری کاسیلاب لانے پر آمادگی کا اظہار کردیاہے۔تجارتی توازن ٹھیک کرنے کیلئے بھارت پر نئے ٹیرف لگانے کی امریکی دھمکی پر بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل لکھتے ہیں کہ ‘اگر ٹرمپ بھارت پر ٹیرف عائد کرتے ہیں تو یہ اسے امریکہ کی اقتصادی بدمعاشی سمجھا جائے گا۔ امریکہ کی معیشت بھارت کے مقابلے میں بہت بڑی ہے۔‘امریکی معیشت کا حجم 29 کھرب ڈالر ہے جبکہ بھارتی معیشت صرف 4کھرب ڈالر پر مشتمل ہے۔ان کے مطابق امریکہ دنیا کے اقتصادی نظام کو کنٹرول کرتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کا ہی استعمال ہوتا ہے۔امریکی پالیسیوں کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے اور وہ اپنا موازنہ بھارت سے نہیں کرسکتا۔ جہاں تک ٹرمپ کی جانب سے بھارت کو امریکہ سے اسلحہ خریدنے کا مشورہ دینے کا تعلق ہے توگذشتہ دہائیوں کے دوران بھارت کی جانب سے امریکی دفاعی و ساز و سامان کی خریداری میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے امریکہ سے ڈرون خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جس کی کُل مالیت 3ارب ڈالر ہے۔ اسلحہ کی خریداری سے متعلق اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ بھارت تواتر سے دفاعی ساز و سامان خریدنے کے لیے روس پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اس سے بھی زیادہ ساز و سامان خریدے اس سے ظاہرہوتاہے کہ ٹرمپ بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو بڑھانے کا اعادہ کر رہے ہیں۔
ٹرمپ ایک جانب یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنے لیے امن دوست کا امیج پسند کرتے ہیں ،اور دوسری طرف بھارت جیسے ملک کو جس کی ہوس ملک گیری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مزید اسلحہ خریدنے کی ترغیب دے رہے ہیں ،اس سے ان کی دوعملی ظاہر ہوتی ہے اگر ٹرمپ واقعی امن دوست کا امیج پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں نوے کی دہائی کے امریکی صدر بل کلنٹن کا راستہ اپناناہوگا جو خلیج کی پہلی جنگ کے بعد امریکہ کے صدر بنے اور انہوں نے اپنے لیے دنیا کے تین خطوں کو درپیش سنگین مسائل کے حل کو ہدف بنالیا۔ ان میں پہلا مسئلہ مشرق وسطیٰ، دوسرا شمالی آئرلینڈ اور تیسرا پاک بھارت تنازع کی جڑ کشمیر تھا۔ کلنٹن کے دور میں تینوں مقامات پر مسائل کے حل کے لیے خفیہ سفارت کاری کا یا تو آغاز ہوا یا اس عمل میں تیزی لائی گئی۔ 1998 میں کلنٹن اپنا دوسرا ہدف مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جنوبی ایشیا میں بھی پس پردہ سفارت کاری کے نتیجے میں وہ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے پر آمادہ ہوئے کہ انہیں مسئلہ کشمیر کو ‘‘ونس فار آل’’ کے اصول کے تحت حل کرنا چاہیے۔ کلنٹن کی ہلہ شیری سے نوازشریف اور واجپائی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے تھے مگر کارگل کی جنگ نے اس ڈپلومیسی کی ساری بساط ہی اُلٹ ڈالی یوں کلنٹن جنوبی ایشیا میں اپنے مقصد
میں کامیاب نہ ہو سکے۔
نئے امریکی صدر کے حلف لینے کے بعد انہیں پوری دنیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ فی الوقت پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر حصوں میں اس حوالے سے ابہام اور غیریقینی کی صورت حال پائی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی پالسیز اور عالمی سطح پر اس کے ضوابط کیسے ہوں گے۔گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ہیں اور پاکستان میں امریکیوں کے خلاف یا ان کی حمایت میں جذباتی وابستگی قائم کرلی گئی ہیاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاک ۔امریکہ تعلقات کس بنیاد پر قائم ہوئے اور یہ کہاں کھڑے ہیں۔ اگر ہمارے حکمراں یہ نہیں سمجھ سکے تو وہ ٹرمپ کے ساتھ غیرحقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کرلیں گے ، جس کی وجہ سے ہمارا پالیسی ردعمل متاثر ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک-امریکہ تعلقات اب لین دین پر مبنی ہیں جبکہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی یہ اسی طرح قائم رہیں گے۔ اس سے پاکستان کے لیے اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک کرے کیونکہ جذباتی ردعمل تعلقات کو نبھانے میں مؤثر ثابت نہیں ہوں گے۔اپنے دوسرے دور حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ اب کسی بھی ملک کے لیے کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ملک امریکہ کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ وہ پیسے کے زور پر یقین رکھتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے اور وہ کیسے وعدے کرتے ہیں، اس حوالے سے بہت ہی محتاظ رہنا چاہیے۔اس کے ساتھ یہ یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ کوششیں نہ کی جائیں اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ماضی کی طرح اس کے سامنے لیٹ جانے سے گریز کرنا چاہئے۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں زیادہ متوازی تفہیم پیدا کرکے مختلف نظریات اور غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس سے عوام میں مثبت تاثر جنم لے گا جبکہ اعلیٰ حکام کی غیرحقیقت پسندانہ توقعات کا غبارہ بھی پھٹ جائے گا۔ ایسا کرنے سے عوام اور حکومت ان تعلقات کو جس نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے درمیان فرق کم ہو جائے گا جو کسی بھی بڑی عوامی پالیسی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔