‘ہم کوئی دودھ کے دھلے تو نہیں، مگر اتنے برے بھی نہیں ہیں’۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت پر تنقید کے نشتر برسانے کی رفتار کچھ زیادہ تیز کردی ہے۔ پنجاب میں پارٹی کے گورنر سردار سلیم حیدر خان صوبائی حکومت کی پالیسیوں پر تندوتیز بیانات کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اسی طرح سے پچھلے کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی کی سیاست کا محور وفاقی حکومت کے اتحادی بغیر مشاورت کے اہم فیصلے کرنا بن چکا ہے۔
مریم نواز شریف کی عملی سیاست کا آغاز ہی وزارت اعلیٰ سے ہوا ہے۔ ان کے چچا وفاق میں بیٹھے مشکل ترین فیصلے کرنے میں مصروف ہیں اور امید دلا رہے ہیں کہ بہت جلد معاشی صورتحال کی بہتری کے اثرات عوام تک پہنچ جائیں گے۔ مگر مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے میں مریم آئے روز نئے منصوبوں کا اعلان کر رہی ہے۔ ستھرا پنجاب سے لے کر بڑے شہروں میں تجاوزات کے خاتمے جیسے اقدامات کے ساتھ ان کی توجہ نوجوانوں پر ہے جنہیں وہ سکوٹیاں، قرضے اور لیپ ٹاپ دے رہی ہیں۔
پچھلے روز مریم نواز کی کارکردگی سے متاثرشہر قائد کے تاجروں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال سے ایک انوکھا مطالبہ کردیا۔ کہنے لگے کچھ عرصے کے لیے مریم نواز انہیں دے دیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو آپ رکھ لیں۔ اس مطالبے نے پیپلز پارٹی کی پوری قیادت کو سیخ پا کردیا۔ بلاول بھٹو نے تاجروں سے ملاقات میں کہا کہ اگر کوئی شکایت ہے تو انہیں بتائیں کسی اور چغلی کرنے کیا کیا ضرورت ہے۔
ہماری حکومت آپ سے کوئی بھتہ تو نہیں مانگ رہی بلکہ آپ کے مسائل حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم اور افسران ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کردی ادھر کراچی میں لوڈشیڈنگ کم ہے مگر دوسرے شہروں میں 12 سے 14 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہور رہی ہے۔ بلاول کہتے ہیں کہ ان کی مشاورت کے بغیر وفاق کے فیصلوں کے نتائج انہیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو ایک لمبے عرصے بعد موقع ملا ہے کہ سندھ میں حکومت کے ساتھ کراچی میں میئر کی نشست بھی انہی کے پاس ہے۔ سندھ اور کراچی میں گورننس کے سنگین معاملات کے ساتھ امن و امان، صاف پانی کی فراہمی، سڑکوں کی بری صورتحال سمیت کئی گھمبیرمسائل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو مخالفین نے ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا۔ پارٹی لیڈرز کہتے ہیں کہ سڑکوں کے بجائے ان کا فوکس صحت اور تعلیم پر ہے۔ ساری موٹرویز وفاق نے پنجاب میں بنائیں۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی بھی سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے کام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
آئے روز ایسی خبریں آتی ہیں کہ شاید پیپلز پارٹی اپنے اتحادی مسلم لیگ نواز سے خفا ہے اور بہت جلد بلاول کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے۔ تاہم، بلاول اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حکومت 5سال مکمل کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی تھی کہ حکومت میں باقاعدہ شامل ہو کر کٹھن ترین معاشی فیصلوں کا ملبہ اپنے سر لینے کے بجائے آئینی عہدے سنبھال کر سندھ میں ترقیاتی کام کروائیں اور اپنی پوزیشن مضبوط کریں۔
پیپلز پارٹی کے خیال میں وفاقی اور پنجاب حکومت پر تنقید کرنے اور فیصلوں میں مشاورت نہ ہونے کا ڈھول پیٹنے سے مسلم لیگ کی پوزیشن خراب ہوگی اور وہ مزید مضبوط ہوں گے۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں مقبولیت انتہائی نچلے درجے پر ہے اور مسلم لیگ نواز کا کراچی میں اپنی سیاسی جگہ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کو پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔
تاریخی عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان حکومت کے خاتمے اور اندرونی اور بیرونی سازش پر ایک کامیاب بیانیے اور پی ڈی ایم دور اور حالیہ حکومت کے معاشی فیصلوں سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سارا فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گاہے بگاہے پیپلز پارٹی کی اپنی اتحادی حکومت پر تنقید بھی تحریک انصاف کے حق میں جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء سمجھتے رہے کہ پنجاب سے نکلنے کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف ہی مسلم لیگ نواز کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے لیے پنجاب میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا ورنہ مشکل ترین حالات میں بھی پنجاب کے ہرحلقے میں پیپلز پارٹی کا 25 سے 30 ہزار ووٹ موجود رہا جو اب تحریک انصاف کے پاس جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی شاید اس گمان میں بھی ہے کہ مستقبل میں اگر انہیں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر بھی حکومت بنانا پڑ سکتی ہے۔
جیسے مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے باہر کردیا تو مشترکہ بیانیے سے مسلم لیگ نواز بھی پنجاب میں عوامی مقبولیت کھوسکتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اور بالخصوص حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی پنجاب میں بڑھتی پذیرائی سے مسلم لیگ نواز کو خاصی تشویش کا سامنا ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ آج کے حریف کل حلیف بن سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا اولین مقصد سندھ اور کراچی میں اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا ہے۔ جس میں وہ تاحال کامیاب نظر آتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کا حمزہ شہباز کے بجائے مریم نواز کو وزارت اعلیٰ کا قلم دان سونپنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں پارٹی کی کوشش ہوگی کہ وفاق میں مشکل ترین معاشی فیصلوں کے باوجود پنجاب میں چند اچھے منصوبے اور اقدامات اٹھا کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا جاسکے۔ صوبے میں مریم نواز کے بعض منصوبوں کو اچھی پذیرائی مل رہی ہے مگر مہنگائی کم کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرکے عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرنا اس حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد ولید .ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف کے مسلم لیگ نواز سے مسلم لیگ کراچی میں مریم نواز پارٹی کے حکومت کے کچھ عرصے کے ساتھ رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کا ایم کیو ایم کے چیئرمین خالد مقبول کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار
ایک بیان میں سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ایم کیو ایم مردہ سیاست کو زندہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتی ہے، ایم کیو ایم کے کسی بھی رہنما کے بیان کو سنجیدہ نہیں لیتے، کراچی میں تاجروں کے اعزاز میں ظہرانہ ایک کامیاب اجتماع تھا۔ اسلام ٹائمز۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے چیئرمین خالد مقبول کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ایم کیو ایم مردہ سیاست کو زندہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے کسی بھی رہنما کے بیان کو سنجیدہ نہیں لیتے، کراچی میں تاجروں کے اعزاز میں ظہرانہ ایک کامیاب اجتماع تھا۔ دریں اثنا ترجمان بلاول بھٹو زرداری مرتضی وہاب نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی پیپلز پارٹی مخالف پریس کانفرنس جھوٹ کے سوا کچھ نہیں، ایم کیو ایم رہنما آپسی اختلافات کا غصہ کسی اور پر نکال رہے ہیں۔