کشمیر کا پاکستان سے الحاق ناگزیر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
بھارتی مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت جواں ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کی عکاس ہے۔یہ کشمیریوں کی تحریک کے لیے ایک واضح راستہ متعین جبکہ بھارت کو ایک آپشن کے طور پر مکمل مسترد کرتی ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں گزشتہ 77 برس کے دوران ساڑے چار لاکھ کے لگ بھگ کشمیریوں نے ”بھارتی قبضے سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق” کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں جنوری 1989 سے اب تک 96ہزار3سو29 کشمیری شہید کیے۔ کشمیری بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی کے باوجود” غیر قانونی بھارتی قبضے سے آزادی اور پاکستان کیساتھ الحاق ”کے کشمیریوں کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
بھارتی حکمرانوں نے تو کشمیر کو اپنا انگ بنا لیا ہے لیکن ایسا محسوس کیا جا رہا ہے جیسے سانپ کے منہ میں چھچھوندر پھنس گئی ہو، نہ اگلتے بن رہی ہے نہ نگلتے بن رہی ہے۔ نہتے کشمیری جان کا عذاب بن گئے ہیں، جب سے بھارت نے اپنے اندر کشمیر کو ضم کیا ہے ایک مصیبت مول لے لی ہے، علیحدگی پسند قوموں نے بھارت سے آزادی کی تحریک تیز کر دی۔ تامل ناڈو، ناگالینڈ، خالصتان، کشمیر ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔لداخ تو ہاتھ سے نکل ہی گیا، اگر بھارت اپنی کرنی سے باز نہ آیا تو چین تو تیار بیٹھا ہے، آگے بڑھنے کیلئے، وہ دن دور نہیں جب بھارت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ سری لنکا پہلے ہی بھارتی سرپرستی سے اپنے آپ کو الگ کر چکا ہے، بنگلا دیش بھی پر تول رہا ہے، نیپال نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔
جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اسکی آزادی کیلئے ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے جانوں کی قربانی دی۔ جبکہ ہزاروں بچے یتیم ہو گئے۔ ماؤں بہنوں کی عصمتیں لٹ گئیں۔ لاکھوں بے گناہ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور وہاں کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔لوگوں کو اب بھی بلاوجہ گرفتار کیا جارہا ہے۔ حراستی اموات، گرفتار کے بعد لاپتہ کردینے، شہریوں کے مکانات نذر آتش کردینے اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کے واقعات برابر جاری ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سلامتی کونسل فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر مسلسل عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام کے حق خودارادیت کو بے دردی سے روندا گیا اور کئی دہائیوں سے غیر ملکی قبضے کو برقرار رہنے دیا گیا ہے۔ ان طریقوں کوعصری تناظر میں مستقل طور پر واضح کرنا ضروری ہے جن کے ذریعے اس اصول کو عالمی سطح پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں خواہ بحرالکاہل کے تنازعات کے پرامن تصفیہ پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب VI یا VIIجس میں نفاذ کی کارروائی شامل ہیں کے تحت منظور کی گئیں اور رکن ممالک چارٹر کے آرٹیکل 25کے تحت کونسل کے فیصلوں پر قانونی طور پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کشمیریوں کی اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کو دبانے کیلئے کشمیر مخالف ہندوتوا پالیسی پر عمل درآمد اور فوجی طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہی ہے۔
حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں بھارت کو اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے سے روکے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے عملی اقدامات کرنے پر زوردے۔ انہوں نے واضح کیاکہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے لاکھوں کشمیری شہدا، پاکستان اور آزاد کشمیر ہجرت کرنے والے ہزاروں کشمیریوں اور حریت قائدین سمیت غیر قانونی طورپر نظربند کشمیریوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیاجائیگا۔
حریت ترجمان نے مقبوضہ علاقے میں نہتے کشمیریوں پر جاری وحشیانہ مظالم، گرفتاریوں، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں، گھروں پر چھاپوں اور املاک کی ضبطگی کی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے جلد حل کے لیے اقدامات کرے۔ دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حل میں بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ سے علاقائی امن کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ بی جے پی کی ہندوتوا بھارتی حکومت اور اسکی قابض انتظامیہ نے بھارتی فوج اور پولیس کی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تمام سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر قدغن عائد کر رکھی ہے۔بھارت کشمیریوں کے ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے مطالبے کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہا ہے۔ کشمیریوں کو انکے اس بنیادی حق کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں میں دی ہے۔
علاقے میں تعینات دس لاکھ بھارتی قابض افواج جوسڑکوں اور گلیوں میں گشت کر رہی ہیں ،کشمیریوں کو اپنے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے سے روکنے میں مکمل طورپر ناکام ہو گئی ہے۔ کشمیریوں کے اس ناقابل تنسیخ حق کی ضمانت اقوام متحدہ نے اپنی متعلقہ قراردادوں میں فراہم کی ہے۔ بنیادی حقوق سے محرومی کے باوجود استصواب رائے اور آزادی کے حقیقی مطالبے کی زبردست عوامی حمایت نے بھارتی قابض افواج، خفیہ ایجنسیوں اور کٹھ پتلی حکومت کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج اورقابض انتظامیہ کی طر ف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لے اور تنازع کشمیر کو سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اورکشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے میں مدد کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: حق خودارادیت سلامتی کونسل اقوام متحدہ علاقے میں کشمیر کے کے لیے رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر کا حل
مسئلہ کشمیر نہ صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا ء کا مسئلہ ہے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے کیوں کہ ایشیا میں واقع جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم علاقہ ہے جنوبی اور مشرقی ایشیا سے اس کے تاریخی رابطے ہیں اور یہ کہ پاکستان،افغانستان،چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔
اس کا رقبہ اٹھاسی ہزار نو سو مربع میل ہے۔ایک تہائی شمالی حصہ پاکستان کے اور دو تہائی حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔
انیس سو سینتالیس اور اڑتالیس کے درمیان ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی ،مجاہدین نے آزادی کی جنگ شروع کردی، انیس سو انچاس میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور قرارداد کے ذریعے استصواب رائے کے لیے کہا۔
بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور ریفرنڈم کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔انیس سو پینسٹھ میں مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک کی جنگ ہوئی سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی سازش کے نتیجے میں پاکستان و بھارت کی جنگ ہوئی جو کہ بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔
1972 میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتہ پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا۔انیس سو نواسی میں نام نہاد انتخابات کے بعد کشمیری حریت پسندوں کی سر گرمیاں شروع ہوئیں۔
انیس سو چھیانوے کے انتخابات کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا۔انیس سو ننانوے میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا لیکن کارگل کے واقعے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی۔سن دو ہزار میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔چوبیس جولائی سن دو ہزار کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔آٹھ اگست سن دو ہزار کو بھارتی رویے کے باعث اعلان واپس لے لیا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد بار مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات ہوچکے ہیں جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئے۔بھارت نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے جب کہ پاکستان آج بھی بین الاقوامی اصولوں پر قائم ہے اور مسئلہ کشمیر کو ہر مقام پر پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہ ہے لیکن بھارت ہر بار چالاکی و عیاری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ایک طرف وہ امن کی باتیں کرتا رہا ہے تو دوسری طرف وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم بربریت کا بازار گرم کرتا رہا ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے۔کشمیر کے عوام غاصب بھارت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ کیوں کر پیدا ہوا ہے؟اس سوال کے جواب سے پوری عالمی برادری اچھی طرح واقفیت رکھتی ہے یعنی مسئلہ کشمیر اس کا بنیادی سبب ہے اور اس امر کا بھی انھیں اعتراف ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی ذمے داری پاکستان پر عائد نہیں کی جاسکتی کیوں کہ بھارت کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کے طور پر ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
تعجب خیز بات ہے یہ کہ بھارت ایک طرف امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے اور سو گنا دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہوا ہے اور کشمیریوں کو شہید کرنا،کشمیری خواتین کی عزتوں کو پامال کرنا انھیں زیر حراست شہید کرنا،ان کی املاک کو نقصان پہنچانا،کشمیری نوجوانوں کو اغواء کرکے غائب کرنا ،جیسے حالات و واقعات میں مصروف بھارت کس منہ سے امن و آشتی کی بات کرتا ہے؟سچ یہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا دادا گیر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن اس امن پسندی کو کمزوری و بزدلی نہ تصور کیا جائے۔
کشمیر کے عوام بھارت کی دہشت گردی و بربریت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان انھیں اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے۔لہٰذا عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ بڑھا کر کشمیریوں کی اخلاقی مدد کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان و بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔
یہ حقیقت بھی ہم پر عیاں ہے کہ پاکستان کی بدخواہ کچھ عالمی قوتیں پاکستان کو کمزور کرنے پر تلی نظر آتی ہیں تاکہ بھارت مزید طاقتور بنے اور اس طرح جنوبی ایشیا میں بھارت ان کے مفادات کی رکھوالی کرسکے اور انھیں مزید فروغ دے سکے۔
اس لیے پاکستان کو ہر حال میں اپنی ایٹمی قوت کی حفاظت کرنا ہے تاکہ پاکستان دشمن کے لیے تر نوالہ نہ بن سکے۔اس سلسلے میں پاکستانی قوم ہر امتحان و آزمائش سے نبردآزما ہونے کے لیے کمر بستہ ہے۔بھارت برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کررہا ہے اور پاکستان کے اندر بھی بھارتی پراکسی وار میں مصروف ہے اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے اور بھارت جیلوں میں قید کشمیری حریت پسندوں پر بھی تشدد کرکے ان کی جانیں لیں رہا ہے۔
اگر بھارت نے پاکستان پر کسی قسم کی ایٹمی جنگ یا روایتی جنگ مسلط کی تو پاکستان اپنا دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔پاکستانی قوم بیرونی قرضوں کے عوض اپنی آزادی،خود مختاری و سلامتی کو داؤ پر نہیں لگا سکتی اور یہ کہ نہ ہی کمزور پاکستان عالمی برادری کے لیے سود مند ہوگا۔مستحکم پاکستان ہی جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔
عالمی برادری، اقوام متحدہ پر زور دے کہ وہ اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرائے کہ کشمیری عوام کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے یا بھارت کے؟یہ بات ہمیشہ سے واضح ہے کہ قیام پاکستان کے دوران کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا اور دستخط کیے۔
لیکن بھارت نے اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر پر فوج کشی کی اور اس پر قابض ہوگئے اور آج تک بھارت قابض ہے اور اس قبضہ گیری کو برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے عوام کو اپنی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور آفرین ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو لاکھوں جانیں دے کر بھی اپنے فیصلے پر اٹل ہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ تھے،ہیں اور رہیں گے، لیکن بھارت کو قبول نہیں کرتے۔اس لیے ہر کشمیری کی زبان پر ہے کہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان۔‘‘
کشمیریوں کا یہی نعرہ قابض بھارت کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے اور وہ پریشان ہے کہ کس طرح اس نعرے کو بھارت کے حق میں تبدیل کیا جائے جس کے لیے وہ ہر حربہ کشمیریوں پر آزماتا رہا ہے تاکہ کشمیری زیر ہوسکیں، لیکن کشمیریوں کی ایمان افروز قربانیاں لازوال ہیں۔ خطے میں وہ ایسی تاریخ رقم کررہے ہیں جو انمٹ ہے اور تاقیامت یاد رکھنے والی ہے۔
کوئی صبح و شام ایسی نہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر ی کے عوام پر بھاری نہ گزری ہو ، ہرپل، ہر لمحہ بھارتی قابض فوجی نت نئے مظالم کے طریقے کشمیری عوام پرآزماتے ہیں جس سے انسانیت لرز اٹھتی ہے لیکن انسانی حقوق کے دعویدار عالمی ادارے اور ممالک آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں۔کیا ان کے نزدیک مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام انسان نہیں ہیں؟جب کہ وہ جانوروں کے حقوق پر بھی آوازیں بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ تو ان کا دہرا معیار دنیا پر واضح ہے لہٰذا وہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار نہ ظاہر کریں۔