Juraat:
2025-02-02@04:49:42 GMT

آزادی ٔاظہارکاقاتل پیکا ایکٹ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

آزادی ٔاظہارکاقاتل پیکا ایکٹ

حمیداللہ بھٹی

اپوزیشن میں ہوتے ہوئے سیاستدان کامسائل دیکھنے کاجوزاویہ ہوتاہے وہ اقتدار میں آتے ہی یکسر بدل جاتاہے ۔اِس خیال کی تائید پیکا ترمیمی بل سے ہوتی ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے آزاد صحافت کی بات کرنے والے حکومت میں آکر تعمیری تنقیدبرداشت کرنے سے بھی قاصرہیں ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری ملتے ہی صدرآصف زرداری نے بھی متنازع ترمیمی بل پر دستخط کردیے ہیں جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ظاہری اختلاف کے باوجود ن لیگ اور پی پی دونوں ذرائع ابلاغ کاناطقہ بند کرنے پر متفق ہیں۔ صدر نے دستخط کرنے سے قبل کسی کو اِتنا موقع ہی نہیں دیا کہ آئینی حقوق سے متصادم کسی شق کے متعلق کوئی اُنھیںآگاہ کرسکے ،حالانکہ اعتراض لگا کر چند روزبل روکنے کا اُنھیں اختیارحاصل ہے لیکن انھوں نے حکومت کاساتھ دیکر اُس کے خلاف بڑھتی نفرت میں حصہ داربننابہترسمجھا ۔اب جبکہ یہ قانون بن کر نافذ ہو چکا ہے تو اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ صحافیوں کی زندگی اجیرن ہونے کے ساتھ عام آدمی کی سچ تک رسائی کم ہوگی، نیز پاکستان میں آزادی اظہارکا نعرہ دم توڑ دے گا اور صرف حکومتی موقف عوام تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگی۔اِس بناپرموجودہ دورکو جمہوری کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔
جمہوریت تو یہ ہے کہ عوام اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرنے میں آزاد ہو، برداشت و رواداری جمہوریت کاحسن اور روح ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں بھی پیکا ایکٹ کو آزادی اظہار کا قاتل کہنامناسب ہے، اب لوگ بولنے سے قبل حکومتی اجازت نامہ حاصل کرنے پر مجبورہوں گے ،وگرنہ گرفتاری اور سزا کا سامنا ہوگا۔ پیکا قانون سے اگر حکومت آزادی اظہارکاحق سلب کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ ایسے خواب پورے ہوں بلکہ ایک نئی احتجاجی تحریک جنم لینے کا امکان ہے۔ البتہ صحافیوں سے جیلیں بھرنے کامقصد پورا ہو سکتا ہے ۔ متوقع عالمی دبائو کابھی شاید حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اخبار یا ٹی وی سے نہیں بل سوشل میڈیا کے متعلق ہے لیکن بل کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے کئی سقم ہیں جو حکومتی موقف کے برعکس ہرخبر دینے والے کو قانونی شکنجے میں لا سکتے ہیں۔ شق 29 اِس بل کے تحت ہونے والے اقدامات کو کسی عدالت یا ایجنسی کے آگے چیلنج کرنے پر قدغن لگاتی ہے ۔یہ بل صحافیوں کے ساتھ شخصی آزادیوں کی آئینی یقین دہانیوں کو غیر موثر کرتا ہے۔ دی پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی)بل جسے پیکاکا نام دیا گیا ہے کے لیے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دینے کی تجویز ہے جو سزائیں سنانے کے وسیع اختیارات کی حامل ہو گی ۔
حکمران اتحادمیں شامل دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی سے ایسے کسی انتہائی اقدام کی توقع نہیں تھی جس سے ذرائع ابلاغ میں تلاطم وہیجان جنم لے کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو نے پی پی کی بنیاد رکھی تو آمریت سے بدظن پرنٹ میڈیا نے ہواکا تازہ جھونکا محسوس کرتے ہوئے نئی جماعت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور قلیل مدت میں بھٹوکو اقتدار تک پہنچادیا۔ مشرف دورمیں جب چینلزپر پابندیاں لگائی گئیں تو اِس کڑے وقت میں بے نظیربھٹو صحافیوں کے ساتھ رہیں۔ ن لیگ کو بھی میڈیا دوست جماعت تصورکیا جاتا ہے، پی ٹی آئی کو اقتدارتک لانے میں بھی میڈیا کاکلیدی کردارہے ،جب عمران خان پر تنقید بڑھنے لگی توہ میڈیا سے نالاں رہنے لگے اوردورہوتے گئے اورپھرنجی محافل میں میڈیا کو قابو کرنے پر مشاورت شروع کردی۔ صحافیوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے قائل فوادچوہدری جیسے لوگوں نے مزیدکان بھرے تو پیکا ایکٹ جیسے کسی قانون کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے خدوخال طے کیے گئے لیکن عملی طورپرکچھ نہ کر سکے۔ دراصل آزاد صحافت کوحکمران پسندنہیں کرتے اور قابومیں رکھنے کے حیلے کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہتھکنڈوں کامقصداپنی خامیاں ،نالائقی اور بدعنوانی عوام سے پوشیدہ رکھنا ہوتاہے مگر پی پی اور ن لیگ صحافت کوقابو کرنے کے لیے تمام حدیں پھلانگ گئی ہیں،ایساتو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
دنیا میں ابلاغی ذرائع اب سیلاب کی مانند طاقتور ہیں اور عوامی رائے کو تبدیل کرنے پر بھی قادرہیںلیکن ابلاغی سیلاب کو کیسے قابو کرنا ہے؟ ابھی تک کسی کو سمجھ نہیں آرہی ۔البتہ کچھ ممالک کے سیاستدان اپنی پالیسیوں کی بدولت سوشل میڈیاکی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہیں لیکن ہماری حکومت کہتی ہے سوشل میڈیا فیک نیوز پھیلانے اور تذلیل کی اہم وجہ ہے۔ لہٰذاآزاد رکھنا خطرے کاباعث ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اِس حقیقت کو ہر گز جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ جب سچ سامنے لانے کے ذرائع بندہوتے ہیں تو یہی ذریعہ کرداراداکرتا ہے۔ حکومت کی طرح جعلی خبروں کی تو صحافی بھی مذمت کرتے ہیں۔ اِس لیے سچ جاننے کے حق سے عوام کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔علاوہ ازیں حکومت نے فیک نیوز کا تعین کرنے کا پیمانہ تو بنایاہی نہیںلیکن فیک نیوز کی آڑ میں سارے میڈیا پر قدغن لگانے میں مصروف ہے۔ اگر سوشل میڈیا پرفیک نیوز کاالزام ہے تو اسی ذریعہ سے بہت سی ایسی چیزیں بے نقاب بھی ہوئیں جو درست ہونے کے باوجود بدنامی کے ڈرسے حکمران چھپانا چاہتے تھے۔ اسی سوشل میڈیا کی طاقت نے حکمرانوں کو کچھ معاملات میں دفاعی رویہ اپنانے اورپیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، ضرورت اِس امر کی ہے کہ پابندیاں لگانے کے بجائے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ کار بنایا جائے۔
پیکاترمیمی بل سے کئی چہرے بے نقاب ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی سے بل کی منظوری میں بڑی جماعتیں ایک نظر آئیں۔ سینٹ جہاں پی ٹی آئی قدرے بہتر پوزیشن میں ہے ،یہاں وہ حکومت کی سہولت کاربنی ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام ہم خیال جماعتوں میں اِتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتی اور بل کو پاس ہونے سے روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں سمیت اجلاس کاہی بائیکاٹ کردیا۔ ایسے طرزِ عمل کامظاہرہ حکومت کو من مرضی کرنے کی کُھلی چھٹی دینے کے لیے کیا گیا۔ شبلی فراز کا مشاورت نہ ہونے اور یہ بل ایک سیاسی جماعت کے لیے بنانے کا واویلا اب محض اپنا منافقانہ کردار چھپانے کی کوشش ہے جمعیت علمائے اسلام کے سینٹر کامران مرتضیٰ نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بغیر تیاری کے ایسے اندازمیں ترامیم پیش کیں جنھیں حکومت کے لیے مسترد کرانا بہت آسان ثابت ہوا۔ پی پی ایوانوں میں بل کی حمایت کرتی ووٹ دیتی نظر آئی۔ لیکن پریس گیلریوں میں اِس کے رہنما صحافیوں کے ساتھ یکجہتی بھی کرتے رہے۔ حالانکہ پی پی حمایت میں ووٹ نہ دیتی تویہ قانون ہرگز نہ بنتا ۔اب سوال یہ ہے کہ جب سیاستدانوں کا تضاد بے نقاب ہو چکا تو مستقبل میں کیسے اپنی سوچ کو جمہوری ثابت کرپائیں گے؟۔
ملک کا آئین ہر شہری کو آزادی اظہار کاحق دیتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جمہوری دورمیں عوام سے یہ حق چھیناجارہا ہے ۔پیکا ایکٹ کی منظوری سے قبل اِس کے بنیادی فریق صحافیوں سے مشاورت کرنے اور اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش ہی نہ کی گئی ۔خود حکومتی اراکین یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں یہ بل نہ صرف جمہوریت کی روح کے خلاف ہے بلکہ آزاد صحافت کوجکڑنے کی سازش ہے ۔موجودہ جمہوری حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ معاشرے پابندیوں سے نہیں سماجی آزادیوں سے ترقی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی آڑ میں میڈیا کے تمام شعبوں کو قابوکرنے کی حکومتی کاوشوں کی کسی طورتائیدیاتحسین نہیں کی جا سکتی ۔یہ جو کہا جاتاہے کہ صحافت کے لبادے میں کچھ گندی مچھلیاں ہیں تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیاپارلیمنٹ میں بیٹھے تمام لوگ حاجی ،نمازی اور دیانتدار ہیں؟کیا حکومتی لوگوں میں بشری خامیاں نہیں؟ نیز کیا سیاست بدعنوانی ،جھوٹ اور مکروفریب سے مکمل طورپرپاک ہے؟جب کسی سوال کاجواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتاتو پیکا جیسا کالاقانون مسلط کرکے حکومت کیوں نئے تنازعات کو جنم دے رہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پیکا ایکٹ کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پیکا ایکٹ متنازع کیوں ؟ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج

ویب ڈیسک : پیکا ایکٹ ترمیمی بل،قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت  نے بھی   دستخط کردیے ،

آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج کا سبب بن رہا ہے؟صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔‘ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ عطا تارڑ کے مطابق’پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔‘

ایک برس پرانے قتل کا مفرور قاتل پکڑا گیا 

مگر صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اس کے خلاف احتجاج کر رہی  ہیں ۔کیا یہ بل آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے اور صحافیوں ہی نہیں عام شہریوں کی بھی آواز دبائی جاسکتی ہے 

 ترمیمی بل کے تحت جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے کی سزا تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گی، یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔

بل کے مسودے کے مطابق نئی شق ون-اے کے تحت ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کی جائے گی، جس کا کام ’غیر قانونی مواد‘ کی روک تھام ہو گا۔

کھیلتا پنجاب گیمز کے تمام کھلاڑیوں کی لاٹری لگ گئی، سب کو ای بائیک ملیں گی

’غیر قانونی‘ مواد کی تعریف کیا ہے؟

بل کے مسودے کے مطابق  ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔یہ قانون نافذالعمل ہونے کے بعد سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے جبکہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنا بھی غیر قانونی مواد کے زمرے میں آئے گا۔

ایف آئی اے نے 2 انسانی سمگلر گرفتار کرلیے

منظور کردہ ترمیمی بل کے متن کے مطابق سزا دیے  جانے کے حوالےسے بتایا گیا ہے کہ 

 ’جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے پر سزا اسے ہو گی جو جان بوجھ کر کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کوئی بھی معلومات کو پھیلاتا، عوامی طور پر ظاہر کرتا ہے، یا منتقل کرتا ہے، جسے وہ جانتا ہے یا جس کے متعلق اسے یقین کرنے کی کوئی وجہ ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہے اور اس سے خوف پیدا کرنے یا پیدا ہونے کا امکان ہو، عام لوگوں یا معاشرے میں خوف و ہراس یا بدامنی پھیلتی ہو۔‘

لاہور؛ 245ٹریفک حادثات میں 296 افراد زخمی 

ریگولیٹری اتھارٹی

سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز کی بقول اس قانون کے سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی اور رجسٹریشن کے معیارات کا تعین کرنے اور رجسٹریشن منسوخ کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔یہ اتھارٹی پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گی۔

ٹک ٹاک کا شوق ایک اور جان لے گیا

یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر فرد کی شکایت پر 24 گھنٹے کے اندر کارروائی کرے گی اور اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔

یہ ادارہ متعلقہ اداروں کو مواد بلاک کرنے کے حوالے سے ہدایات دے سکے گا، جس کی مدت 30 روز ہو گی، جس میں مزید 30 روز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ بھی اشتراک کرتے ہوئے کام کر سکے گی اور معلومات شیئر کر سکے گی۔

اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔

ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق اتھارٹی کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی جبکہ اس اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ان پانچ اراکین میں سے ایک صحافی ہو گا، جس کا 10 سالہ تجربہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی میں سافٹ ویئر انجینیئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہوں گے۔نو اراکین پر مشتمل اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔

پیکا کے خلاف احتجاج کیوں؟

28 جنوری، 2025 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر انتظام پیکا قانون سازی کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

صحافی  ناصر زیدی نے بتایا کہ منظور کردہ بل میں قانون کے سکوپ کو وسیع کر دیا گیا ہے جس میں شخصی آزادی اور سزا کے طریقہ کار کو بھی بڑھایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جب بھی کوئی قانون لے کر آتی ہے تو یہی کہتی ہے کہ یہ تمام شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان کے لیے ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کے سیکرٹری جنرل آصف بشیر چوہدری نے کہا ہم ’سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے غیرجانبدارانہ چیک یا ریگولیشن کے حامی ہیں اور شاید اسی لیے حکومت نے ہم سے مشاورت بھی نہیں کی تاکہ من پسند قانون لایا جا سکے۔‘ ’ہمارا اس پر ایک اور اعتراض ہے کہ فیک نیوز اور غیرقانونی مواد اتنے مبہم الفاظ ہیں کہ ان میں کسی بھی فرد کو لایا جا سکتا ہے، اس کی تعریف ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ بالکل صادق اور امین کی تعریف جیسا ہے۔‘

متعلقہ مضامین

  • آزادی اظہارکاقاتل پیکا ایکٹ
  • پیکا ایکٹ کی متنازعہ شقیں بتائیں، بات کرنے پر تیار: عطا تارڑ
  • حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہی ہے، پیکا ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں ، عمرایوب
  • حکمران آزاد صحافت کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں، بی یو جے
  • پیکا ایکٹ کی متنازع شق بتائیں، بات کرنے کو تیار ہیں، عطا تارڑ
  • حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہی ہے، پیکا ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں۔عمرایوب
  • پیکا ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں: عمرایوب
  • حکومت آزادی رائے پر قدغن لگا رہی، پیکا ایکٹ مسترد کرتے ہیں: عمر ایوب
  • پیکا ایکٹ متنازع کیوں ؟ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج