Nawaiwaqt:
2025-02-02@04:48:04 GMT

31 مقدمات، بشریٰ بی بی کی ضمانت میں 8 فروری تک توسیع

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

31 مقدمات، بشریٰ بی بی کی ضمانت میں 8 فروری تک توسیع

راولپنڈی (جنرل رپورٹر) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے 26 نومبر احتجاج کے31  مقدمات میں بشریٰ بی بی کی ضمانت میں 8فروری تک توسیع کر دی، بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت پیش نہیں کیا گیا، عدالت نے ملزمہ کو تمام مقدمات میں شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا۔ تمام مقدمات کے تفتیشی افسروں کو ملزمہ کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا گیا، ملزمہ کی درخواست ضمانت پر آئندہ سماعت بھی اڈیالہ جیل میں کی جائے گی۔ دوسری جانب انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت6 فروری تک ملتوی کر دی۔ استغاثہ کے مزید دو گواہوں کی شہادت ریکارڈ کی گئی، نو مئی کے روز نقصانات کے فوٹو بنانے والے پولیس کانسٹیبل عمران کی شہادت ریکارڈ کی گئی۔ پولیس کانسٹیبل عمران نے ساڑھے نو مئی کے روز کی 15 تصاویر عدالت میں پیش کیں، جی ایچ کیو حملہ میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے والے ایس ڈی او بلڈنگ اویس شاہ کا بیان بھی قلم بند کیا گیا۔ ایس ڈی او بلڈنیگ نے تخمینہ رپورٹ عدالت پیش کی۔7 لاکھ 80 ہزار روپے نقصان کی تفصیلات بھی عدالت پیش کر دیں، اضافی رپورٹس کی نقول مکمل نہ ہونے پر دو گواہ ریاض اور احمد یار کا بیان ریکارڈ نہ ہو سکا، استغاثہ کی جانب سے ڈیجیٹل شہادت پر مشتمل13 یو ایس بی عدالت میں داخل کروا دی گئی، عدالتی حکم پر یو ایس بیز میں موجود ڈیجیٹل شہادت کمپیوٹر میں محفوظ کر لی گئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ جس ملزم کو ڈیجیٹل شہادت چاہیے ہو وہ نقل اپلائی کر کے عدالت سے حاصل کر سکتا ہے۔ عدالت نے پی آئی ڈی پیمرا ایف ائی اے اور انٹرنل سکیورٹی رپورٹ نہ مکمل ہونے پر ایس ایس پی اپریشن راولپنڈی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ ٓائندہ سماعت پر تمام اضافی رپورٹس کی نقول مکمل کر کے عدالت پیش کی جائیں، سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کو عدالت پیش کیا گیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: عدالت پیش حکم دیا پیش کی

پڑھیں:

مصالحتی عدالتیں: جسٹس منصور علی شاہ کا صائب مشورہ

عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ نے کراچی میں آئی بی اے میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر تنازع سیدھا عدالت میں لانے کے بجائے پہلے بات چیت اور مصالحت کی کوشش کی جانا چاہیے اگر مصالحت سے مسئلہ حل نہ ہو تب ہی عدالت کا رخ کیا جانا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں 86 فی صد مقدمات ضلعی عدالتوں میں ہیں اور ان عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، ہر کیس عدالت میں لے جانے کی کوشش کے بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مقدمات میں سست روی کے تناظر میں معاملات کے حل کے لیے دیگر ذریعے استعمال ہونے چاہئیں، انصاف تک رسائی کا مطلب مسئلے کا حل سمجھا جانا چاہیے۔ حکم امتناع اور ضمانت سے معاملات حل نہیں ہوں گے، ہمارے پاس ججوں کی تعداد محدود ہے۔ پاکستان اب تک سنگل ٹریک پر ہے، ہر تنازع عدالت میں جاتا ہے تاہم معاملات ثالثی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، عوام کی ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر آگاہی ضروری ہے اور پراسیکیوشن کورٹس میں 13 سے 14 فی صد مقدمات ہیں، عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں کے لیے 90 ججز ہیں جب کہ ہمارے پاس جج کم ہیں اور یہ تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج نے اپنے طویل عدالتی تجربہ کی روشنی میں ملک کے نظام انصاف کی خستہ حالی کے اسباب کا درست تجزیہ کیا ہے اور اس کا معقول حل بھی پیش کیا ہے، انہوں نے گزشتہ ہفتے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اس نہایت تکلیف دہ معاملہ کے حل کے ضمن میں منعقد کی گئی کانفرنس سے خطاب میں بھی توجہ دلائی تھی کہ عوام بیس بیس برس تک مقدمات کے لٹکے رہنے سے تنگ آچکے ہیں، اس لیے موجودہ عدالتی خرابیوں سے نجات پانے کے لیے موثر اقدامات ضروری ہیں جن میں سے نہایت آسان، کم خرچ اور ہماری دیرینہ روایات کی روشنی میں کارگر اور قابل عمل نظام مصالحتی عدالتوں کو رواج دینا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار تمام ذہنی تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج کی بات پر توجہ دیں تاکہ عوام کو موجودہ عدالتی نظام کی سست روی، اس کے بے پناہ اخراجات اور قیمتی وقت کے ضیاع کے سبب پیش آنے والی ذہنی اذیت سے نجات مل سکے۔ مصالحتی عدالتوں یا پنچائت کا نظام ہمارے خطے میں ماضی میں رائج رہا ہے۔ اس نظام کے ذریعے فریقین کو موجودہ عدالتی نظام کے مقابلے میں بہت جلد اور بھاری بھر کم اخراجات کے بغیر آسانی سے انصاف مل جاتا ہے۔ پنجایت یا مصالحتی عدالت کے ارکان چونکہ مقامی معززین ہی ہوتے ہیں اس لیے وہ فریقین سے اکثر و بیشتر شناسا اور ان کے ماضی کے کردار سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے انہیں معاملہ کے حقائق تک پہنچنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی جب کہ ہمارے رائج الوقت نظام عدل میں منصف جھوٹے سچے گواہوں کی شہادتوں، وکلا کی بحث، دلائل اور قانونی موشگافیوں میں الجھے رہتے ہیں، ان کے لیے انصاف کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا آسان نہیں ہوتا، پھر مصالحتی عدالتوں میں فریقین کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے وکلا کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ انہیں اپنا موقف مخصوص انگریزی کے بجائے اپنی قومی یا مادری زبان میں بیان کرنے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی اس طرح مصالحتی عدالتی نظام ہماری معاشرتی ضروریات سے بھی ہم آہنگ ہے، سستا بھی ہے اور جلد انصاف کا بھی ضامن ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکمران جسٹس منصور علی شاہ کی تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔

متعلقہ مضامین

  • جلائو گھیرائو مقدمات میں عمر ایوب کی عبوری ضمانتوں میں18فروری تک توسیع
  • 26 نومبر احتجاج کے 31 مقدمات میں بشریٰ بی بی کو شامل تفتیش کرنے کا حکم
  • 26 نومبر احتجاج، بشریٰ بی بی کی 31 مقدمات میں ضمانت میں توسیع
  • عمر ایوب کے خلاف 9 مئی کے تین مقدمات میں پولیس کو تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت
  • عمران خان، بشریٰ بی بی سیاسی قیدی ہیں، عمر ایوب
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی مقدمات میں سزا یافتہ ملزمان کو رہا کردیا
  • مصالحتی عدالتیں: جسٹس منصور علی شاہ کا صائب مشورہ
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس: شہزاد اکبر اور فرح گوگی کے پاسپورٹ بلاک
  • خدیجہ شاہ کی حفاظتی مقدمات میں توسیع، کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم