بچپن کے شوق حنوز نعت اور اذکار سے جڑی ہوئی ہوں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
شاعرہ انیلا نعمان کا تعلق صدیقی گھرانہ سے ہے۔ ان کے والد کا تعلق انڈیا والدمراد آباد، والدہ لکھنو سے ہے ۔اردوزبان کی شاعرہ کی تعلیم گریجویشن اورپہلا شعر: ایک سال پہلے جناب رونق حیات کی صدارت میں پڑھا۔ اچی کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو تقسیم ہند کے بعد مراد آباد اور لکھنو کی ثقافتی حیات اور تہذیب لیکر پاکستان آیا تھا۔یعنی میرے والد کا تعلق مراد آباد اور میری والدہ ہندوستان میں شعر وادب کے دوسرے بڑے مرکز لکھنو سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان دونوں کے اشتراک سے ہمارے گھر میں جو ادبی اور ثقافتی ماحول پیدا ہوا اس سے متاثر ہونا لازمی تھا۔ میرے باطن میں ایسی مشترکہ تہذیب کی آبیاری ہوتی رہی
کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور تمام تعلیمی مراکز اسکول ، کالج اور اس وقت کی واحد یونیورسٹی جامعہ کراچی کا ماحول ادبی تھا۔ کراچی کی راتیں شعری نشستوں،مشاعروں، میلاد اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنی تھیں۔اسی ماحول میں میں نے بچپن میں نعت خوانی کی ابتدا کی اور حنوز نعت اور اذکار سے جڑی ہوئی ہوں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا میں نے افسانے ، ناول ، فلم اور اثر حاضر کی شاعری کا مطالعہ کیا جس سیمیریباطن میں تخلیق کا جوہر پیدا ہوا۔ میں نے حمد اور نعتیں لکھیں اور خاص وعام محفلوں میں انہیں نہایت عقیدت سے پڑھا۔بعد ازاں مجھے اردو شاعری کی سمت غزل بہت متاثر کرتی تھی۔تو میں نے غزل میں بھی طبع آزمائی کی، اس کے ساتھ ساتھ میں نے نظمیں اور افسانے بھی لکھنا شروع کیے اور مکمل طور پر شاعری سے رشتہ قائم کیا ، پاکستان کی نظر انداز قلم کاروں کی واحد تنظیم نیازمندان کراچی کی میں سربراہ ہوں اور اپنا کلام ممتاز و معروف شاعر جناب رونق حیات کو برائے اصلاح دکھاتی ہوں۔میرا گھر میرے شوہر کی سر پرستی سے شعر ستان بن گیا ہے۔
میرے گھر منعقد ہونے والی شعری تقاریب کے پیش نظر جناب رونق حیات نے شعر ستان کا درجہ دیاہے اور یہ درجہ دنیائے اردو کے عہد حاضر کے عظیم مفکر،شاعر ، ادیب ،محقق، نقاد اور تاریخ دان حضرت پروفیسر سحر انصاری کی منعقد ہونے والی شام فضیلت میں شریک شعراء اور ادباء کی تائید سے جناب رونق حیات نے دیا۔یہ درجہ ہمارے لیئے فخر کا باعث ہے۔ اب میں دنیائے شاعری کا مستقل حصہ ہوں اور کراچی کی ادبی شعری محافل میں اپنی تخلیقات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں۔جب یہ ملک قائم ہوا تھا اس وقت چار لسانی اکائیوں پر مشتمل تھا مگر 1947 میں تقسیم ہند کے بعد جو نوجوان، جوان اور بڑی عمر کے پختہ کار شاعر و ادیب پاکستان آئے تو انہوں نے جگہ جگہ ہر صوبے ، ہر شہر،ہر دیہات میں علم و تہذیب اور ادب و ثقافت کی شمعیں روشن کیں اور ادب کے فروغ کے لئے ادبی تنظیموں اور قلمکاروں کی زاتی جدوجہد کے سبب پاکستان ادبی لالہ زار بن گیا۔بعد ازاں کراچی میں موجود شعراء اور ادبا نے شعر و ادب کو فروغ دیا کہ کراچی کو دبستانوں کے ،دبستان کا درجہ بدرجہ حاصل ہوگیا اور یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کے لیجنڈ سکالر ڈاکٹرجمیل جالبی نے تاریخ ادب اردو لکھ کر اس کی چار جلدیں شائع کء۔ پاکستان میں سب سے پہلے نعتیہ اور بہاریہ مشاعروں کا آغاز کراچی میں ہوا اور ادبی کانفرنسیں ہویں۔افسانوی شامیں، ناولوں پر تبصرے،ادبی رسالے اسی شہر قائد سے شروع شروع میں نکالیگئے۔یہ اعزاز بھی کراچی کو ہی حاصل ہے کہ یہاں سے ہجرت کرنے والے دیگر شعراء اور ادبا نے دنیا کے دیگر ممالک میں اردو کی نئی بستیاں قائم کیں۔پاکستانی کے ادبی ماتھیکا جھومر ہے مگر موجوہ صورتحال نہایت افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ ادب کینام پر اور شاعری کے نام پر غیر متعلقہ افراد دنیائے ادب کا ناسور بن گے ہیں اور آج کی دنیائے ادب میں شاعری کیعلاوہ نہ تو تنفیر نظرآتی ہے اور نہ تحقیق۔تنقید کی صحتمندانہ روایت کے خاتمے کے بعد جو تاریخی اور توصیفی عمل شروع ہوا ہے اس نے ہمارے ادب کو روح بہ ذوال کر دیا ہے اور یہ صورتحال پورے پاکستان کے ادبی حلقیمیں پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں جو موجودہ حلقہ ء شعر و ادب ہے وہ ستائش کے مرض میں مبتلا ہے۔اس لئیے پاکستان کے قلم کار پاکستان سے باہر کی ادبی فضاء سے زیادہ واقف نہیں۔ دنیا میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ادب اپنی پوری قوت کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں ادب کیموضوعات پر شائع ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ہر شہر اور مضافات قریائیادب بنے ہوئے ہیں۔ روز مرہ کی بنیاد پر ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، کتابیں شائع ہوتی ہیں، کتابوں کی رونمائی ہوتی ہے اور ادیبوں کی تقاریب پذیرائی کے اہتمامٍ ہوتے ہیں۔اس ادبی ماحول کے پیش نظر یہ سوال حقیقت پر قائم نہیں ہے …
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جناب رونق حیات اور ادب ہے اور
پڑھیں:
جس روز حکومت کی حمایت ختم ہوئی یہ گر جائےگی، مولانا فضل الرحمان
گوجرانوالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس حکومت کو جو لائے وہی چلا رہے ہیں۔ میں سیاسی کارکن ہوں اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل پر یقین رکھتا ہوں۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ بات چیت سے قبل اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے جس روز اس حکومت کی حمایت ختم ہوئی یہ گر جائےگی۔گوجرانوالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کو جو لائے وہی چلا رہے ہیں۔ میں سیاسی کارکن ہوں اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل پر یقین رکھتا ہوں۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ بات چیت سے قبل اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے جو لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کا یہی مؤقف ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کی ہدایت پر تشریف لائے ہیں، اگر ان کا کوئی شخص خلاف بات کرتا ہے تو اس کا نوٹس انہی کو لینا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی، وہاں پر مسلح گروہوں کا راج ہے، جبکہ بلوچستان کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جو حالات ہیں پنجاب میں اس کا کسی کو احساس نہیں۔ ضروری ہے کہ بلوچستان کے حالات کو ریاست کی سطح پر سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ پر صحافیوں سے بات ہوئی ہے، ان کی بات میں وزن ہے، متنازع ایکٹ پر صحافیوں کی تجاویز لینی چاہئیں تھیں۔
مولانا فضل الرحمان کا غزہ کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے 15 ماہ تک اسرائیل اور صہیونی قوتیں غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں پر آگ برساتے رہے۔ جنگ بندی کے معاہدہ میں فلسطین کو کامیابی ملی ہے، فسلطینیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ٹرمپ فلسطینیوں کو مختلف ممالک میں آباد کرنے کے بجائے اسرائیل کو فلسطین سے اٹھائیں۔