مدارس کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے، سراج الحق
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
لاہو ر (نمائندہ جسارت)سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے جمعیت طلبہ عربیہ کے سالانہ اجتماع ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دینی علوم کے ساتھ مدارس کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے، مدارس کے طلبہ دینی علوم کے ساتھ اس میں بھی مہارت حاصل کریں، ہمیں جدید علوم کو سیکھنا ہے
اور ہر محاذ پر دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔سراج الحق نے کہا کہ استعماری طاقتوں نے تعلیم، معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے، دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو ایک پیج پر آنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مدارس کو مسالک اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر امت کے اتحاد اور فکری ہم آہنگی کے لیے کام کرنا ہو گا،امت فرقہ واریت اور مسالک میں تقسیم رہی تو اسے بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں۔سابق امیر جماعت نے کہا کہ غزہ میں اہل فلسطین نے مزاحمت کی تاریخ کی رقم کی ہے۔ غزہ جارحیت کے دوران اسلامی دنیا کے نام نہاد حکمران بھی بے نقاب ہو گئے ہیں، جنھوں نے خیر اور شر کے مقابلے میں ڈھکے چھپے شر کا ہی ساتھ دیا، یہ امریکی دبائو کو قبول کرتے رہے ا ور اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے اسلامی ممالک کی حکومتیں آگے آئیں اور پاکستان کو اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ملک پر جاگیرداروں، وڈیروں او کرپٹ سرمایہ داروں کی حکومت ہے جو ایک مافیا کی صورت اختیار کر چکی ہے، خاندانوں کی حکومتوں کی وجہ سے عوام کو حقوق نہیں ملتے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
سڑک پر دودھ اور کتابیں بیچنے والا بھارتی یومیہ 1 ارب کمانے والا کیسے بنا؟
کاروبار کی مسابقتی دنیا میں بھارتی شہری رضوان ساجن کی متاثر کن کامیابی کی داستان ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔
ممبئی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے رضوان سجن کو ابتدائی طور پر مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی کفالت کے لیے انہوں نے چھوٹی موٹی نوکریاں کیں یہاں تک سڑکوں پر کتابیں اور دودھ بھی بیچا۔
تاہم زندگی نے ایک سخت موڑ لیا جب انہوں نے اپنے والد کو کھو دیا اور انہیں بیرون ملک بہتر مواقع تلاش کرنے پر مجبور کیا۔
1981 میں انہوں نے کویت جانے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے بطور ٹرینی سیلز مین کام کرنا شروع کیا۔ یہ ملازمت کامیابی کی طرف پہلے قدم کے طور پر ثابت ہوئی جس سے انہیں قیمتی کاروباری بصیرت اور سیلز کا تجربہ ملا۔
ان کے کیریئر کا ایک اہم لمحہ 1993 میں آیا جب انہوں نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے Danube گروپ کی بنیاد رکھی، جو کہ ابتدائی طور پر تعمیراتی مواد سے متعلق کام کرتی تھی۔
لگن اور مقصد کے ساتھ ساتھ کمپنی ایک بڑے ادارے میں تبدیل ہوئی جس نے گھریلو سجاوٹ اور رئیل اسٹیٹ کا کام بھی کرنا شروع کردیا۔
آج ڈینوبے گروپ سعودی عرب، قطر، بحرین، عمان اور بھارت سمیت متعدد ممالک میں کام کرتی ہے جو اسے سرکردہ کمپنیوں میں سے ایک بناتی ہے۔
ڈینوبے روزانہ ایک ارب پاکستانی روپے سے زائد کماتی ہے اور اس کے کل اثاثوں کی مالیت 2.5 بلین ڈالرز ہے۔