Express News:
2025-02-01@23:44:36 GMT

تیسرے درویش کا قصہ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا اور لرزتی ہوئی آواز میں بولا ’’بھائیو میری کہانی آپ سب سے مختلف ہے‘ میں خاندانی رئیس تھا‘ اﷲ تعالیٰ نے میرے خاندان کو دولت‘ جائیداد اور عزت سے نواز رکھا تھا‘ ہم مخدوم تھے‘ ہماری اپنی گدی تھی‘ میں اپنے خاندان کی واحد نرینہ اولاد تھا‘ اﷲ تعالیٰ نے میرے والد کو پانچ بیٹیوں کے بعد اولاد نرینہ سے نوازا تھا۔

چناں چہ میری پرورش نازونعم میں ہوئی‘ بچپن میں ہی میرے پاس سب کچھ تھا‘ میں گاڑی پر اسکول جاتا تھا اور جتنی دیر اسکول رہتا تھا ہمارا ڈرائیور گاڑی سمیت اسکول کے باہر کھڑا رہتا تھا‘ وہ ہر کلاس کے بعد مجھے پانی‘شربت اور کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز کھلاتا تھا‘ میرا بیگ بھی وہی اٹھاتا تھا‘ اسپورٹس کے ٹائم مجھے شوز بھی وہی پہناتا تھا اور اس دوران اگر کسی سے میرا جھگڑا ہو جاتا تھا تو وہ میری حفاظت بھی کرتا تھا اور دوسرے بچے کی ٹھکائی بھی۔ 

میرے پاس بچپن میں درجنوں جوتے‘ کپڑے‘ کھلونے‘ اسپورٹس کا سامان اور رقم ہوتی تھی‘ میرے کلاس فیلوز کے والدین نے ان کے لیے ٹیوٹر رکھے ہوئے تھے جب کہ میرے والد نے میرے لیے ٹیوٹر کے ساتھ ساتھ ہیلپر بھی رکھے تھے‘ یہ پیپرز کے دوران ہال میں بیٹھ کر میری امتحان میں مدد کرتے تھے‘ مدد بھی بس نام کی تھی‘ یہ میرا پورا پیپر لکھ دیتے تھے۔ 

والد بورڈ کوپیسے کھلا کر اپنی مرضی کے ایگزامینر کا بندوبست کر دیتے تھے اور وہ پیپرز کے دوران مجھے میرے ہیلپرز کے ساتھ دوسرے کمرے میں بٹھا دیتے تھے‘ میں پیپر کے دوران سویا رہتا تھا اور میرا ہیلپر میرا پرچہ تیار کر دیتا تھا‘ اس ہیلپ کی وجہ سے میں ہر امتحان میں اول آتا تھا لیکن عملی طور پر میرا علم صفر تھا۔ 

میں انگریزی تو دور اردو بھی نہیں لکھ سکتا تھا‘ فزکس‘ کیمسٹری اور میتھ کیا چیز تھی میں ان کے اسپیلنگز سے بھی واقف نہیں تھا‘ میں نے نو سال کی عمر میں گاڑی چلانا شروع کر دی‘ ڈرائیور کو ساتھ بٹھاتا تھا اور اپنی مرسڈیز کار گلیوں میں گھماتا رہتا تھا‘ میں نے اس زمانے میں کتنے لوگوں کا نقصان کیا مجھے یاد نہیں‘ میں دوسروں کی گاڑیاں ٹھوکتا تھا‘ کسی کی ریڑھی اور کسی کی دیوار گراتا تھا اور میرا والد ان کا نقصان پورا کرتا تھا‘ وہ مجھے کبھی کبھی سمجھانے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن میری ماں اور بہنیں میری طرف داری کرتی تھیں‘ وہ مجھے اپنے پلو میں چھپالیتی تھیں‘‘۔

تیسرا درویش رکا‘ لمبا سانس لیا اور اپنے میلے مفلر سے اپنی میلی آنکھیں صاف کیں‘ وہ دیر تک سرد آہیں بھرتا رہا‘ اس کی طبیعت ذرا سی سنبھلی تو وہ دوبارہ گویا ہوا ’’میری پرورش اس ماحول میں ہوئی تھی‘ میں نے ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ سگریٹ بھی پینا شروع کر دیے‘ ہمارے ملازم اور مرید مجھے سگریٹ پیتا دیکھ کر میری حوصلہ افزائی کرتے تھے اور کہتے تھے‘ واہ شاہ جی واہ آپ تو جوان ہو گئے ہیں اور میں اپنی دس انچ کی چھاتی پھلا کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ 

میں سگریٹ سے چرس پر کیسے آیا اور چرس سے شراب پر کیسے گیا مجھے پتا بھی نہ چلا‘ میں نے اس کے بعد عورتوں کی گود میں کب چھلانگ لگائی‘ مجھے اس کا بھی اندازہ نہ ہوا‘ بس مجھے اتنا یاد ہے میں دوپہر دو بجے اٹھتا تھا‘ نہا دھو کر تیار ہو کر نکلتا تھا‘ میرے ساتھ دس بیس فقرے ہوتے تھے‘ ہم طوائف خانوں میں جاتے تھے‘ ساری رات شراب پیتے تھے‘ گانا سنتے تھے اور طوائفوں کے پاؤں میں لاکھوں روپے بکھیر دیتے تھے۔ 

میں جب پچھلے پہر بے ہوش ہو جاتا تھا تو میرے دوست اور میرے ملازم مجھے اٹھا کر حویلی لاتے تھے اور مجھے میرے بیڈ پر ڈال کر چلے جاتے تھے اور میری آنکھ اگلے دن دو بجے کھلتی تھی اور بعض اوقات یہ بھی ہو جاتا تھا میں تین تین دن سویا رہتا تھا اور جب آنکھ کھلتی تھی تو اپنی والدہ اور بہنوں کو اپنے سرہانے قرآن پڑھتے اور روتے دیکھتا تھا‘ میرے والد نے مجھے سمجھانے اور روکنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اصلاح سے بہت آگے نکل گیا تھا‘ مجھے ان کی باتیں سمجھ ہی نہیں آتی تھیں۔ 

میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا آخر مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے‘ میں آخر کیا جرم‘ کیا گناہ کر رہا ہوں؟ بہرحال قصہ مختصر میرے والد میری حالت دیکھ کر کڑھ کڑھ کر فوت ہو گئے‘ آپ یقین کریں میں نے والد کو دفن کرتے وقت شکر ادا کیا‘ مجھے روکنے ٹوکنے والا دنیا سے چلا گیا‘ وہ خواہ مخواہ کا سیاپا تھا‘‘ تیسرا درویش رکا اور اس کے بعد دھاڑیں مار مار کر رونے لگا‘ ہم سب اسے تسلی دینے لگے لیکن اس کی آنکھیں اس وقت دریا بن چکی تھیں‘ ماحول سوگوار ہو گیا۔

وہ دیر تک روتا رہا‘ طبیعت ذرا سی سنبھلی تو وہ دوبارہ بولا ’’میرا والد گھر کا دروازہ تھے‘ وہ گئے تو میں نے اپنا ہی گھر لوٹ لیا‘ جائیدادیں نیلام ہو گئیں‘ بینک بیلنس ختم ہو گئے اور گاڑیاں بک گئیں‘ میرا والد میری بہنوں کی شادیاں کرا گیا تھا‘ وہ اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں لیکن ان کی وراثت میرے قبضے میں تھی‘ میں نے وہ بھی پھونک دی۔

رہی سہی کسر شادی نے پوری کر دی‘ میں نے ایک طوائف سے شادی کر لی‘ جب اس کے کنجر بھائی اور سازندے ہمارے گھر میں آباد ہوئے تو میری تہجد گزار ماں بھی صدمے سے مر گئی‘ میرے راستے کا دوسرا کانٹا بھی نکل گیا اور اس کے بعد میری دولت کوپر لگ گئے‘ وہ ریلوے ٹریک کے ساتھ اڑتے کاغذوں کی طرح اڑنے لگی‘ مجھے اس کی پرواہ ہی نہیں تھی‘ اﷲ نے مجھ دیا ہی بہت کچھ تھا‘ میرے لچھن دیکھ کر میرے کزنز نے مجھے گدی سے بے دخل کر دیا۔

مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں تھی‘ میں ہر سال محرم اور شب برات پر اپنے بزرگ کی قبر دھو دھو کر اکتا گیا تھا چناں چہ میں نے اس پر بھی شکر ادا کیا‘ بہرحال قصہ مختصر جب میری آنکھ کھلی تو میں پرانے لاہور کی ایک گندی نالی میں آڑھا ترچھا پڑا تھا اور پوری دنیا میں میرا کوئی ٹھکانہ‘ کوئی آسرا نہیں تھا‘ بہنوں اور بہنوئیوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا‘ شراب نوشی‘ چرس اور کوکین کی وجہ سے پورے جسم کا کوئی عضو سلامت نہیں تھا۔

اس دن مجھے کھانا کھانے کے لیے امام ضامن کھول کر چاندی کا سکہ بیچنا پڑا اور اس کے بعد دنیا تھی‘ اس کے دھکے تھے اور میں تھا‘ وہ لوگ جو دن رات میرے در پر پڑے رہتے تھے‘ جو میرا جوٹھا کھاتے اور چھوڑا ہوا پیتے تھے وہ سب منہ موڑ کر جا چکے تھے‘ میری بیوی میری دونوں بیٹیاں لے کر بھاگ گئی تھی‘ میری بیٹیاں کہاں تھیں میں نہیں جانتا‘ میرا خیال ہے ان کی طوائف ماں اب تک انھیں بھی بیچ چکی ہو گی‘ میرا گاؤں‘ میری جاگیر اور میری گدی میرے لیے اجنبی ہو چکی تھی‘ اس طرف جانے والے سارے راستے بند ہو چکے تھے‘‘ وہ رکا اور ایک بار پھر دھاڑیں مار کر رونے لگا‘ کمرے میں ایک بار پھر سناٹا ہو گیا۔

ہمارے درمیان سے صدیاں سرک گئیں‘ وہ بڑی مشکل سے بولنے کے قابل ہوا اور پھر دوبارہ گویا ہوا ’’صاحبو آپ یقین کریں خوش حالی‘ دولت اور عزت اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں آزادی اور صحت کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہوتا لیکن اگر آپ خوش حالی کے بعد غریب ہو جائیں‘ آپ کی سلطنت‘ آپ کی جائیداد اگر ایک بار آپ کے ہاتھ سے نکل جائے تو دنیا میں اس سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ 

آپ جب ان لوگوں کی نظریں بدلتے دیکھتے ہیں جنھیں آپ نے ہمیشہ اپنے جوتے اٹھاتے دیکھا ہو تو آپ کا دل چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کٹ جاتا ہے‘ ایک وقت تھا جب میرے دستر خوان پر روزانہ دو دو سو لوگ کھانا کھاتے تھے‘ میں طوائفوں کو نوٹوں کے ڈھیر میں دفن کر دیتا تھا‘ مجھے پیسوں کی ضرورت پڑتی تھی تو میں اپنے منیجر کو فون کرتا تھا اور وہ دو چار بیگے زمین بیچ کر مجھے نوٹوں کا بکسہ پہنچا دیتا تھا اور پھر ایک ایسا وقت آیا جب میں سو روپے کے نوٹ کو ترس گیا‘ میرا ایک کزن درد دل رکھتا ہے‘ وہ اب مجھے ہر ماہ بیس ہزار روپے بھجوا دیتا ہے اور میں ان میں گزارہ کرتا ہوں۔

کھانا آپ جیسے لوگ دے دیتے ہیں‘ کپڑے کزن بھجوا دیتا ہے‘ ایک کھولی میں رہ رہا ہوں جس میں باتھ روم بھی نہیں ‘ مسجد میں جا کر نہاتا ہوں اور اپنے رب سے معافی مانگتا ہوں‘‘ وہ رکا اور لمبا سانس لے کر بولا ’’اﷲ تعالیٰ بہت کم لوگوں کو بادشاہ بناتا ہے‘ اس کا مالی فضل بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے‘ وہ لوگ بہت احمق ہوتے ہیں جو اس کے فضل کو ٹھکرا دیتے ہیں‘ تکبر کرتے ہیں اور اس کا مال ضایع کرتے ہیں۔

 یہ لوگ خسارے میں رہتے ہیں‘ در در بھیک مانگتے ہیں لہٰذا میرا انجام دیکھو اور توبہ کرو‘ اﷲ تعالیٰ نے اگر آپ کو خوش حال بنایا ہے‘ آپ پر اپنے فضل کے دروازے کھولے ہیں تو کبھی کفرانِ نعمت نہ کریں‘ اﷲ کا شکر کریں اور اس کی نعمت اس کے فضل کی حفاظت کریں اور میں وہ بدنصیب ہوں جس نے اپنی سلطنت اپنے ہاتھوں سے جلا دی‘ میں نے خود کو خود ہی برباد کر دیا‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔

ہم سب نے چوتھے درویش کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ وہ سیدھا ہوا‘لمبی سانس لی اور بولا ’’صاحبو! میری کہانی تم سب سے مختلف ہے‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہو جاتا تھا میرے والد اﷲ تعالی اس کے بعد کرتا تھا تھا اور اور میں کے ساتھ تھے اور اور اس بھی نہ

پڑھیں:

’دعا کررہا ہوں کہ کوئی میری بیوی کو دریا سے نکال لے‘، امریکی طیارے میں سوار خاتون کے شوہر کی ویڈیو وائرل

امریکا میں واشنگٹن ائیرپورٹ کے قریب مسافر طیارہ اور فوجی ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

طیارے میں سوار ایک خاتون کا شوہر ہوائی اڈے پر اس کا انتظار کر رہا تھا جس کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں سوار تھی جس نے حادثے سے چند منٹ قبل ہی اسے میسج کیا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ ہم 20 منٹ میں لینڈ کرنے والے ہیں۔

اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ ’میں صرف دعا کر رہا ہوں کہ کوئی میری بیوی کو فوراً دریا سے نکال لے‘۔

#NEW: A man waiting at the airport tells us that his wife was onboard the plane involved in the crash at DCA. He says she texted him shortly before crash.

"I'm just praying that someone is pulling her out of the river right now” @wusa9

pic.twitter.com/FIwnMCIFBP

— Alexis Wainwright (@AWainwrightTV) January 30, 2025

واضح رہے کہ امریکا میں واشنگٹن ائیرپورٹ کے قریب مسافر طیارہ، فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بعد قریبی دریا میں گرگیا، ابتدائی اطلاعات تک ریسکیو ٹیموں نے 20 لاشیں اور 4 زخمیوں کو پانی سے نکال لیا ہے اور دیگر کی تلاش جاری ہے۔ حکام کے مطابق مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکی ایئر لائن کی پرواز کینساس کے شہر وکیٹا سے واشنگٹن پہنچی تھی جہاں طیارے کو دریائے پوٹومیک کے اوپر رن وے کے قریب حادثہ پیش آیا۔ فلائٹ ریڈار کے مطابق حادثہ شام 5 بج کر 48 منٹ پر پیش آیا، جب طیارے کی رفتار 166 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس سے 5 کلومیٹر دور امریکی مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں تصادم، درجنوں ہلاک، تحقیقات شروع

ابتدائی اطلاعات کے مطابق طیارے میں 64 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جو فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بعد پوٹومیک دریا میں گرگیا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طیارے میں 60 مسافر جبکہ 4 عملے کے افراد سوار تھے، حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔

طیارے سے ٹکرانے والے فوجی ہیلی کاپٹر میں 3 اہلکار سوار تھے، حادثے کے بعد ریگن نیشنل ایئر پورٹ پر تمام پروازیں معطل کر دی گئی ہیں

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

طیارہ حادثہ واشنگٹن ائیرپورٹ

متعلقہ مضامین

  • میرا پنوں....
  • میرا برانڈ پاکستان، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
  • پاک بحری نے 240 ملین روپے کی شراب قبضے میں لے لی
  • 18 ماہ میں میری کسی درخواست پر سماعت نہیں ہوئی، عمران خان کا سپریم کورٹ سے شکوہ
  • مسلسل تیسرے روز اضافے کے ساتھ سونے کی قیمت نئی بلند ترین سطح پر آگئی
  • ’دعا کررہا ہوں کہ کوئی میری بیوی کو دریا سے نکال لے‘، امریکی طیارے میں سوار خاتون کے شوہر کی ویڈیو وائرل
  • توہین امام زمانہ کیخلاف استور میں تیسرے روز بھی دھرنا جاری
  • ترک صدر کی انقرہ میں حماس رہنما محمد اسماعیل درویش سے ملاقات
  • ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل: میری آبزرویشن کو میڈیا نے غلط رپورٹ کیا، جسٹس جمال مندوخیل