تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی خوشحالی اور روشن مستقبل کی کنجی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 24 جنوری کو دنیا بھر میں تعلیم کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور اس کی بہتری کے لیے اجتماعی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔ اقوام متحدہ نے اس دن کا آغاز 2018 میں کیا جس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو تعلیم کے بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم کے مواقع حاصل ہوں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری قوم کو تعلیم جیسے اہم شعبے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج بھی پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جو کہ دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان تعلیمی ترقی کے عالمی انڈیکس میں انتہائی نچلے درجے پر موجود ہے۔
پاکستان میں تعلیم کو درپیش مسائل کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا شامل نہ ہونا ہے۔ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص بجٹ نہایت کم ہے جو کہ کل قومی بجٹ کا صرف 2 فیصد کے قریب ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے نزدیک تعلیم کو کتنی کم اہمیت حاصل ہے۔
مزید برآں ناقص منصوبہ بندی کرپشن سیاسی عدم استحکام اور دیہی علاقوں میں بنیادی تعلیمی سہولیات کی عدم دستیابی مسائل کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔دیہی علاقوں میں اکثر اسکولوں میں بنیادی سہولتیں جیسے کہ فرنیچر صاف پانی اور بیت الخلا موجود نہیں ہوتے۔ کئی اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے اور جو موجود ہیں ان میں سے بعض تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو خاص طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے کیونکہ اکثر دیہی اور غریب گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر اس بحران کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو دہلی ایک ایسی مثال پیش کرتا ہے جہاں تعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں۔ دہلی حکومت نے ثابت کیا کہ جب قیادت میں خلوص وژن اور عوامی خدمت کا جذبہ ہو تو وسائل کی کمی کے باوجود تعلیم کے شعبے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ دہلی حکومت نے اپنے بجٹ کا تقریباً 25 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جو کہ ان کے عزم کا عکاس ہے۔
دہلی میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو جدید طرز پر تعمیر کیا گیا اور ان میں وہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں جو کسی بھی نجی اسکول میں ہوتی ہیں۔ اساتذہ کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی اور انھیں بیرون ملک بھیجا گیا تاکہ وہ جدید تعلیمی طریقوں سے آگاہ ہو سکیں۔
بچوں کے لیے نصاب کو مزید دلچسپ اور معیاری بنایا گیا اور امتحانی نظام میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔والدین کو اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے تعلیمی نظام میں شامل کیا گیا جس سے ان کا اعتماد بڑھا اور وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے لگے۔ آج دہلی میں والدین اپنے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ نجی اسکولوں سے زیادہ معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
کیا پاکستان یہ ماڈل اپنا سکتا ہے؟پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو دہلی کے طرز پر بہتر کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ اس کا جواب سیاسی عزم اور ترجیحات میں چھپا ہوا ہے۔ دہلی حکومت نے یہ ثابت کیا کہ اگر قیادت مخلص ہو تو تعلیم کے شعبے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں لیکن ان کا درست استعمال نہیں کیا جاتا، اگر ہمارے سیاستدان دہلی جیسی سنجیدگی دکھائیں تو پاکستان میں بھی تعلیمی شعبے کو ترقی دی جا سکتی ہے۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی بجٹ کو بڑھائے اور اس کا کم از کم 20 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے۔ اساتذہ کی تربیت اور بچوں کے لیے معیاری نصاب فراہم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مزید یہ کہ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعمیر اور لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہ غربت کو کم کرتی ہے سماجی مساوات کو فروغ دیتی ہے اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتی ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بنے تو ہمیں تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ دہلی کے ماڈل سے سیکھتے ہوئے ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں اصلاحات صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ والدین اساتذہ اور معاشرے کے ہر فرد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اگر ہر فرد اپنی سطح پر کوشش کرے تو بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو اولین ترجیح دیں اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دقیانوسی خیالات کو ترک کریں۔ اساتذہ کو بھی اپنے پیشے کو صرف ایک نوکری کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقدس فریضے کے طور پر دیکھنا چاہیے کیونکہ ایک استاد ہی وہ شخصیت ہے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔
تعلیمی میدان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج کے دور میں آن لائن تعلیم ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز اور جدید تدریسی طریقے دنیا بھر میں رائج ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولت ابھی بھی محدود پیمانے پر دستیاب ہے۔ اگر حکومت اسکولوں میں کمپیوٹر لیبز انٹرنیٹ اور جدید تعلیمی وسائل فراہم کرے تو بچے زیادہ موثر طریقے سے سیکھ سکتے ہیں۔ مزید برآں آن لائن تعلیم کو دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بھی متعارف کرایا جائے تاکہ وہ بچے جو اسکول جانے سے قاصر ہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سرکاری اور نجی شعبے کے درمیان تعاون بھی ناگزیر ہے۔ نجی تعلیمی ادارے زیادہ وسائل اور بہتر تعلیمی معیار رکھتے ہیں جب کہ سرکاری تعلیمی نظام میں زیادہ تر بچے زیر تعلیم ہیں۔ اگر دونوں شعبے مل کر کام کریں تو تعلیمی معیار کو بلند کیا جا سکتا ہے۔ نجی ادارے اساتذہ کی تربیت جدید نصاب کی تیاری اور تعلیمی منصوبہ بندی میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات اور کارپوریٹ سیکٹر بھی تعلیمی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ کئی ممالک میں دیکھا گیا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کو محض رسمی ڈگریوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہنر مندی اور فنی تعلیم پر بھی توجہ دی جائے۔ ہمارے ہاں لاکھوں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزگار سے محروم ہیں کیونکہ وہ عملی مہارتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں، اگر پاکستان میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس اور مہارت پر مبنی کورسز کو فروغ دیا جائے تو نوجوان نہ صرف اپنے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کر سکیں گے بلکہ ملکی معیشت کو بھی فائدہ پہنچا سکیں گے۔ تعلیم کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ ہر فرد کو ایسا علم اور ہنر فراہم کیا جائے جو اسے خودمختار اور معاشرے کا مفید شہری بنا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لڑکیوں کی تعلیم تعلیم کے شعبے تعلیمی نظام اسکولوں میں پاکستان میں بچوں کے لیے علاقوں میں اپنے بچوں اساتذہ کی میں تعلیم کے طور پر دنیا بھر فراہم کر تعلیم کو سکتے ہیں سکتا ہے کو فروغ کو بہتر جا سکتا کیا جا
پڑھیں:
چین کا عالمی ریل اینڈ روڈ طلسم ہوشربا اور اپنا کفران نعمت
صدیوں پرانی کہاوت ہے کہ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں، یہ کہاوت ہمیں چین کی طرف سے شروع کیے گئے عالمگیر نیٹ ورک ون بیلٹ ون روڈ یا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو (بی آر آئی) کے ساتھ ہمارے ہاں کیے جانے والے افسوس ناک سلوک کو دیکھ کر بے اختیار یاد آ جاتی یے۔
دنیا کے درجنوں ممالک اس ترقیاتی پروگرام کی تیز رفتار تکمیل کے ذریعے اپنی سیر و سیاحت اور تجارت کو ترقی دے کر خوشیوں اور خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، لیکن ہمارے ہاں ابھی تک یہی مخمصہ ختم نہیں ہوا کہ چین کی طرف سے شروع کیا گیا یہ منصوبہ ہمارے فائدے میں ہے یا چین کے بین الاقوامی غلبے کے کسی خفیہ طویل المدت منصوبے کا حصہ ہے۔
پاکستان میں بی آر آئی کا نام سی پیک ہے، دنیا کے جن ممالک نے اس ریل اینڈ روڈ نیٹ ورک کی برکتوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے اس کی تعمیر اور تکمیل میں ہر ممکن تعاون کیا، وہ آج اس کی بدولت سیر و سیاحت اور تجارت کے حوالے سے اتنے فائدے سمیٹ رہے ہیں کہ جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
اس پراجیکٹ نے مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے کس طرح سمیٹ دیئے ہیں، ہم آج کے اس آرٹیکل میں اس کی ہلکی سی جھلک پیش کر کے پھر اپنے اصل موضوع پر تفصیل سے بحث کریں گے، یہ ہلکی سی جھلک بھی کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو نعمتیں ہمیں پچھلے 2 عشروں سے اپنی دہلیز پر میسر ہیں، ہم اپنی کوتاہی اور کم علمی کی وجہ سے اس سے محروم ہیں، آج ہم آپ کو اس کفران نعمت کی کہانی بھی سنائیں گے۔
دنیا کے انتہائی مشرق میں واقع چین کے ساحلی شہر شنگھائی سے دنیا کے شمال مغرب میں واقع روس کے دارالحکومت ماسکو کا فاصلہ 6 ہزار 8 سو 67 کلومیٹر ہے، اور بی آر آئی کے تحت چلنے والی انٹرنیشنل ٹرین یہ فاصلہ ساڑھے 15 گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔
اس کے مقابلے میں اسلام آباد سے کراچی کا فاصلہ صرف 1521 کلومیٹر ہے اور ہمارے ہاں مسافر ٹرین یہ فاصلہ 23 گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔ کوئٹہ سے پشاور ریلوے ریلوے ٹریک کا فاصلہ بھی صرف 1458 کلومیٹر ہے اور ہمارے ہاں مسافر ٹرین یہ فاصلہ ساڑھے 28 گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ سے جرمنی کے شہر برلن کا فاصلہ 7 ہزار 3 سو 58 کلومیٹر ہے اور انٹرنیشنل ٹرین یہ فاصلہ 24 گھنٹے میں طے کر رہی ہے، چین کے شمال مشرقی شہر ارمچی سے جرمنی کے شہر برلن تک وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کے کئی ممالک کے بڑے شہروں کو براستہ ماسکو جوڑا جا رہا ہے، یہ تیز رفتار ریلوے ٹریک 2026ء میں مکمل ہو جائے گا جس کے بعد 9 ہزار 4 سو 47 کلومیٹر کا یہ فاصلہ انٹرنیشنل ٹرین صرف 20 گھنٹوں میں طے کیا کرے گی۔
کم و بیش یہی حال چین سے وسط ایشیا اور یورپ کے درمیان تعمیر کیئے جانے والے موٹر ویز کا ہے، اگر پاکستان، ایران، افغانستان، عراق، کویت، شام، اردن، ترکی، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، اومان اور یمن سمیت خطے کے تمام مسلم ممالک بھی پچھلے 15, 20 برسوں سے جاری ان ریل اینڈ روڈ پراجیکٹس کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لیتے تو نہ صرف ہمارے ہاں اندرون ملک سفر اور تجارت انتہائی با سہولت اور تیز رفتار ہو چکا ہوتا، بلکہ ملک کے 25 کروڑ عوام کو مقامات مقدسہ کی زیارت، حج اور عمرے کی ادائیگی اور سمندر پار ملازمت کیلئے صرف مہنگے ہوائی سفر کی مجبوری سے نجات مل چکی ہوتی۔
چین، روس، جرمنی ، فرانس اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے ساتھ زمینی تجارت اور سفر کی سہولیات کی وجہ سے نہ صرف سستے سفر سے بچت ہوتی بلکہ فاصلے سمٹ جانے کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ تجارت میں ٹرانسپورٹ اخراجات کم ہونے سے سستی اشیاء ضرورت عام دستیاب ہوتیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو پاکستان کے ذریعے چین تا روس وسط ایشیا تک بہترین ریل اینڈ روڈ لنک میسر ہوتا تو براستہ پاکستان افغانستان ، براستہ پاکستان چین اور براستہ پاکستان ایران سالانہ کھربوں روپے کی تجارت ہوتی اور پاکستان میں اس کی وجہ سے لاکھوں ملازمتیں پیدا ہوتیں، لوگوں کے کروڑوں اربوں روپے کے کاروبار چلتے، اور ملک سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو جاتا۔
ابھی تو ہم نے سی پیک کے صرف ایک حصے کے ثمرات کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی ہے، پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری لگانا، مشرق وسطیٰ کے تیل کو صاف کرنے والی آئل ریفائنریوں کی تعمیر، ایران سے قطر تک خطے کے ممالک کی گیس کی براستہ گوادر انٹرنیشنل ٹریڈنگ کی سہولت فراہم کرنا، اور خاص طور پر ٹیکسٹائل، گارمنٹس اور فوڈ انڈسٹری بھی سی پیک پراجیکٹس کا حصہ ہے۔
چین کی جدید مشینری اور عرب ممالک کے سرمائے کے اشتراک سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمینوں کو آباد کر کے پاکستان کو مشرق وسطیٰ کی فوڈ باسکٹ بنانا بھی سی پیک پراجیکٹس میں شامل ہے، اگر ہم نے پچھلے دس پندرہ برس وہم اور مخمصے کا شکار ہو کر ضائع نہ کر دیئے ہوتے تو آج پاکستان کی معیشت موجودہ معاشی دلدل کا شکار نہ ہوتی۔
پاکستان کے مختلف صوبوں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں عظیم معدنیات کے جو ذخائر ہیں، انٹرنیشنل ریل اینڈ روڈ نیٹ ورک سے منسلک ہو جانے کی وجہ سے ان کو نکال کر عالمی منڈیوں میں پہنچانا آسان ہو جاتا۔
تھوڑی بہت عقل رکھنے والے ایک عام سے شہری یا دیہاتی کو یہ تفصیلات بتائی جائیں تو اسے بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ سی پیک کی تیز رفتار تعمیر ہماری تیز رفتار ترقی و خوشحالی کا راستہ ہے، لیکن افسوس ہوتا ہے ان مفاد پرستوں پر کہ جو اپنے بیرونی آقاؤں سے ملنے والے ڈالروں کی چمک کی وجہ سے سی پیک کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کر کے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں۔
ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے اس سفر سے روکنے کیلئے پراکسی وار کے جو جال پھیلائے ہوئے ہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے، بلوچستان کی نسلی و لسانی دہشت گرد تنظیمیں ہوں یا خیبرپختونخوا میں سرگرم فتنہ الخوارج کے دہشت گرد ان سب کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے سفر میں روڑے اٹکانا۔
عالمی میڈیا بھی اس حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے میں وطن دشمنوں کا آلہ کار ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جو مغربی اخبارات پاکستان کے راستے چین کی ایران، عراق ، ترکی، شام، لبنان، مصر، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، اومان اور یمن تک رسائی کو سازش اور چینی غلبہ قرار دیتا ہے وہ چین سے منگولیا، روس، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان، ترکستان، ترکمانستان، آذر بائیجان، یوکرین، پولینڈ، جرمنی،فرانس، اٹلی اور پرتگال تک ریل اینڈ روڈ نیٹ ورک کے خلاف ایسا زہریلا پروپیگنڈا کبھی نہیں کرتا۔
مغربی ممالک چین کے اس ریل اینڈ روڈ نیٹ ورک کے ذریعے خود تو کھربوں ڈالر سالانہ کی تجارت اور سیر و سیاحت کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں اور پاکستان میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ہماری ترقی و خوشحالی کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائیں ہوئی ہیں۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے تمام صوبوں کے عوام میں چین کے ساتھ سی پیک پراجیکٹس کے اصل حقائق جو شیئر کرنے کیلئے مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی خصوصی مہم چلانے، اور افواج پاکستان نے دشمنوں کی سازشوں اور پراکسی وارز کے باوجود سی پیک پراجیکٹس کو آگے بڑھانے کیلئے جو قربانیاں دی ہیں، انہیں اجاگر کیا جائے، کیونکہ اپنے مخمصے اور وہم کی وجہ سے ہم سی پیک پراجیکٹس کو سو فیصد رفتار سے تو آگے نہیں بڑھا سکے لیکن تیس چالیس فیصد رفتار سے یہ پراجیکٹس ضرور آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس محدود رفتار کے ساتھ بھی بہت اہم پراجیکٹس مکمل کر لیئے گئے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں، انتہائی زہریلے پروپیگنڈے کے طوفان اور خوف ناک دہشت گردی کے باوجود افواج پاکستان نے جس طرح سی پیک پراجیکٹس کی حفاظت اور آبیاری کی ہے اس کی وجہ سے پاکستان سی پیک کے حوالے سے ٹیک آف پوزیشن پر آ چکا ہے۔
امید کی جانی چاہیئے کہ قوم اب وہم اور مخمصے سے نکل کر یکسوئی اختیار کرے گی اور سی پیک پراجیکٹس کو پوری طاقت سے آگے بڑھانے پر کمر بستہ ہو جائے گی۔
اس وقت تک جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ان میں 3000 کلو میٹر روڈ انفراسٹرکچر اور 5000 میگاواٹ بجلی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس دوران 75 ہزار ملازمتیں پیدا ہوئیں۔
انشاء اللہ العزیز جب گوادر تا خجراب ریل اینڈ روڈ نیٹ ورک مکمل ہو جائے گا اور پاکستان میں چین کے تعاون سے زراعت اور صنعت کا نیا انقلاب برپا ہو گا تو پاکستان حقیقی معنوں میں سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہو گا۔ گوادر انٹرنیشنل پورٹ اور گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تکمیل اس سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
ہماری رفتار سست ضرور رہی، لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ دشمنوں کی طرف سے ڈالی جانے والی خوف ناک اور خونی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک روز انشاء اللہ منزل پر پہنچ کر دم لیں گے اور پاکستان کے عوام بھی عالمی برادری کا اس طرح حصہ بنیں گے کہ کاروبار، سیر و سیاحت اور مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے انہیں سستے اور جدید ریل، روڈ اور سمندری سفر کی عام سہولتیں میسر ہونگی۔
احمد منصور
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد منصور