Express News:
2025-02-01@23:51:00 GMT

خواتین کی خدمت میں مصروف ایک باکمال خاتون

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

بلاشبہ ہم اپنے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی تمنا رکھتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک معاشی، صنعتی، سماجی، علمی اور اخلاقی میدانوں میں سب سے آگے نظر آئے مگر کیا ہم اپنی خواتین کو میدان عمل میں لائے بغیر یہ مقاصد حاصل کرسکتے ہیں، ہرگز نہیں، اس لیے کہ ہمارے ملک کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

ہمیں اپنی خواتین کو فعال شہری بنانا ہوگا ۔ خواتین کی حقیقی خدمت میں مصروف یہ ادارہ ’’تنظیم فلاح خواتین‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس کی روح رواں قمر النسا قمر ہیں جو جگت باجی ہیں جنھیں ضیا الحق سے لے کر محمد خان جونیجو وغیرہ بھی قمر باجی کہہ کر پکارتے رہے، ان کا تعلق ریاست بھوپال سے ہے۔

ریاست بھوپال نے ہندوستانی مسلمانوں پر احسانات کی جو بھرمار کی ہے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ کبھی 1947 کے فسادات کے زمانے میں مسلمانوں کو محفوظ جگہ فراہم کی تو کبھی علی گڑھ مسلم کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں اپنی خدمات پیش کیں۔ پھر پاکستان کے قیام میں نواب بھوپال حمید اللہ خان کا کردار تو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا، اگر وہ فرنگی حکومت کو مسلمانان ہند کے مطالبہ پاکستان کو تسلیم کرانے کے لیے اپنے ذاتی تعلقات استعمال نہ کرتے۔

مزیدبرآں قیام پاکستان کی دستاویز پر گاندھی کے دستخط نہ کراتے تو شاید پاکستان کا قیام تشنہ ہی رہ جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی نواب صاحب کی عنایات پاکستان پر جاری رہیں۔

1947 میں پاکستان تو بن گیا مگر ہر طرف فسادات بھڑک اٹھے گوکہ اس وقت ریاست بھوپال مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ ریاست تھی لیکن اس کے باوجود بھوپال کے کچھ پاکستان سے محبت رکھنے والے خاندان بھوپال کو چھوڑ کر تعمیر پاکستان میں حصہ لینے کے لیے قافلہ در قافلہ، جوق در جوق پاکستان کی جانب کھنچے چلے آئے اور اس مملکت خداداد میں آ کر جو اس وقت بے سرو سامانی کے عالم میں تھی اپنے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

انھی پاکستان پہنچنے والے قافلوں میں ریاست بھوپال کے پولیٹیکل سیکریٹری میر احمد حسین کا خاندان بھی شامل تھا۔ اب وہ تو حیات نہیں رہے تھے۔ ان کے بیٹے نورالدین چشتی اپنے اہل عیال کے ساتھ کراچی آ کر سکونت پذیر ہوگئے۔ اس خاندان کی ایک ہونہار بیٹی قمرالنسا بھی تھیں جو بعد میں اپنی ادبی سماجی خدمات اور خواتین کے حقوق کے لیے پرزور آواز بلند کرتے اور ان کو ملک کا فعال شہری بنانے کی وجہ سے قمر باجی کے نام سے موسوم ہوئیں۔

انھیں بچپن سے ہی سماجی کاموں کے کرنے کا شوق تھا۔ وہ بھوپال میں اپنے وکٹوریہ اسکول میں غریب نادار لڑکیوں کو داخل کرا کے بہت خوشی محسوس کرتی تھیں۔ پاکستان آمد کے بعد بھی سماجی خدمت کیے بغیر چین سے نہ بیٹھیں۔ کراچی میں میٹرک اور پھر ایم اے کیا، سماجی خدمات کے صلے میں 1979 میں کونسلر بنیں اور پھر 1985 میں قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں وہاں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کی۔ ملکی ترقیاتی منصوبوں اور تعلیمی اداروں کو ملک بھر میں قائم کرنے کے لیے حکومت کو آمادہ کیا۔

اس طرح پاکستان کی خدمت کے جذبے کو پورا کیا۔ قومی اسمبلی کی ممبر کی حیثیت سے کئی ممالک کا دورہ کیا وہاں کے تعلیمی اور سماجی نظام کا مشاہدہ کیا۔ آپ افسانہ نگاری اسکول کے زمانے سے ہی کرتی چلی آ رہی تھیں۔ آپ کے افسانے ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتے رہے، تاہم آپ کی شناخت کا سب سے بڑا حوالہ ’’تنظیم فلاح خواتین‘‘ کا قیام ہے۔ 1973 میں آپ نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی جو خواتین کے لیے مژدہ جاں فزا ثابت ہوا۔ آپ کے بھتیجے ظہورالحسن شہید کی قوم کے لیے خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں مگر انھیں عوام کی خدمت سے دور کرنے کے لیے کچھ شرپسندوں نے جلد ہی شہید کر دیا۔

قمرالنسا قمر اپنی مادرانہ شفقت، بلند کردار اور جذبہ خدمت کی بدولت خواتین میں بے حد مقبول ہوئیں۔ آپ وہ خاتون ہیں جو اب جدید مغربی تہذیب کی چکا چوند میں بھی باپردہ رہتی ہیں اور انھیں اپنے باپردہ رہنے اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی پر بے حد ناز ہے۔

اس سے انھوں نے پاکستانی خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ باپردہ رہ کر بھی مردوں کی اس دنیا میں اپنے لیے مقام پیدا کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قمر باجی اپنی گونا گوں خوبیوں کی وجہ سے جگت باجی بن گئی ہیں، وہ ایک فعال پاکستانی خاتون ہیں۔ وہ پورے ملک میں عوام کے نزدیک ایک سماجی رہنما اور مذہبی اقدار کی علم بردار کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں، ان کی خدمات صرف کراچی تک محدود نہیں ہیں ملک میں کسی بھی جگہ کے عوام کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ان کی خدمت کے لیے اپنی خواتین ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچ جاتی ہیں۔

ملک میں کہیں زلزلہ، سیلاب، قحط یا بارش کی تباہ کاریاں درپیش ہوں تو ان کا دل تڑپ جاتا ہے اور وہ وہاں کے عوام کی خدمت کے لیے بمع ضروری سامان پہنچ جاتی ہیں اور اگر نہ جاسکیں تو پھر ضروری ساز و سامان وہاں روانہ کر دیتی ہیں۔ وہ بھیجنے والا امدادی سامان اپنے دفتر میں اپنی نگرانی میں ہی نہیں بلکہ خود بھی اس کی تیاری میں ہاتھ بٹا کر متاثرہ علاقے کو روانہ کردیتی ہیں۔

تھر کا علاقہ پاکستان کا ایک پسماندہ خطہ ہے وہاں کے ریگستانی علاقے میں پانی کی ہمیشہ ہی قلت رہتی ہے۔ آپ وہ واحد خاتون رہنما ہیں جنھوں نے وہاں خود جا کر ایک دو نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں ایک درجن کنوئیں کھدوائے اور وہاں کے لوگوں سے ہی ان کنوؤں کا افتتاح کرایا یعنی کہ پبلی سٹی کے لیے کسی سرکاری عہدیداروں کو مدعو نہیں کیا۔

ایسا اخلاص ہمیں ملک میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے کشمیر سرحد اور بلوچستان میں آنے والے لرزہ خیز زلزلوں سے ہونے والی ہولناک تباہی سے متاثرہ لوگوں کے لیے نہ صرف امدادی سامان بھیجا ۔ آپ نے تھر سمیت ملک کے مختلف پسماندہ علاقوں میں دینی مدرسے اور اسکول بھی قائم کیے، ساتھ ہی خواتین کے لیے ووکیشنل سینٹر بھی قائم کرائے۔

گزشتہ دنوں کراچی کی نامور ’’محبان بھوپال فورم‘‘ جو ملک میں باکمال لوگوں کو اعزازات اور ایوارڈز دے کر ان کی عزت اور ہمت افزائی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے کے روح رواں اویس احمد ادیب انصاری نے پاک امریکن کلچر سینٹر کے تعاون سے قمر باجی کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز کر حکومت پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی حقیقی باکمال ہستیوں کو اپنے ایوارڈز عطا کرکے اپنے ایوارڈز کو عزت عطا فرمائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کی میں اپنی کی خدمت وہاں کے ملک میں کے لیے

پڑھیں:

الحمراء میں ویمن آف دی ورلڈ فیسٹیول پاکستان!

الحمراء آرٹس کونسل میں 8 واں سالانہ ویمن آف دی ورلڈ فیسٹیول پاکستان کا آغاز آج سے ہو رہا ہے۔اس فیسٹیول کی میزبانی برٹش کونسل کر رہی ہے۔لاہور آرٹس کونسل الحمراء میں یہ فیسٹیول یکم سے 2 فروری تک جاری رہے گا۔اس پْروقار ایونٹ سے قبل ایک پریس بریفنگ میں میڈیا کے ذریعے تمام تفصیلات کو شائقین ادب و ثقافت کے سامنے پیش کر دیا گیا۔چیئرمین الحمراء رضی احمد اور ایگزیکٹوڈائریکٹر الحمراء توقیر حیدر کاظمی فیسٹیول انتظامیہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اہم سہولیات کی فراہمی کے لئے متحرک نظر آتے ہیں۔

الحمراء آرٹس کونسل لاہور میں ہونے والے اس رنگارنگ میلے کی میزبانی برٹش کونسل کے ساتھ ساتھWOW فاؤنڈیشن، UNFP اور انٹرپرینیورشپ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (ECDI) بھی شامل ہیں۔ لاہور میں WOW فاؤنڈیشن کے بانی اور سی ای او جوڈ کیلی اور برٹش کونسل کے کنٹری ڈائریکٹر جیمز ہیپسن نے ایونٹ کے انعقاد پر بہت پْرجوش نظر آتے ہیں۔ ان اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اس فیسٹیول کا مقصد زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی کامیابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا، خواتین کو درپیش چیلنجز اورمتعلقہ امور پر بات چیت کرنا اور مسائل کے حل کے لیے مکالمے کی روایت کو فروغ دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیسٹیول میں ہر عمر خواتین، بچیوں اور فیملیز کو ان کی دلچسپی کی منفرد اور جامع سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کو موقع فراہم کیا جائے گا، ایونٹ میں پاکستانی طرزِ زندگی اور ماحولیاتی شعور کے امتزاج کے جائزے پر مشتمل برٹش کونسل کی سسٹین ایبل فیشن رپورٹ بھی پیش کی جائے گی، جبکہ اریب اظہر کی موسیقی، سوہائے علی ابڑو کے رقص اور عطیہ داؤد اور زنبیل کی شعر وادب کی پرفارمنسز کے علاوہ فیملیزاور بچوں کے لیے خالد انعم کے انٹرایکٹو پاپ اپ، اور مصورہ صومیہ جیلانی کی پینٹنگز کی نمائش بھی کی جائے گی۔ ایونٹ میں ڈیسٹی نیشن میڈیا کی خواتین کے فنون لطیفہ میں کردار پر ایک مسحور کن فلم کی نمائش بھی کی جائے گی، مجموعی طور پراس WOWفیسٹیول کے ذریعے زندگی کے مختلف کرداروں میں خواتین کے کردار کو سراہنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نو عمر خواتین کو بااختیار بنانے کی حمایت کاپیغام دیا جائے گا۔ اس حوالے سےWOW فاؤنڈیشن کی بانی اور سی ای او جوڈ کیلی کا کہنا ہے کہ برٹش کونسل کی باصلاحیت ٹیم کی بھرپور محنت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ WOW پاکستان جوش وجذبے سے بھرپور ایک خوبصورت اور یادگار ایونٹ ہو، کیونکہ یہ میلہ خواتین کی دلیری اور جرأت مندی کی حمایت کرتا ہے، اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ حقیقی اور پائیدار تبدیلی فوری نہیں بلکہ رفتہ رفتہ آتی ہے، فیسٹیول ہر ایک کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے، بالخصوص خصوصی افراد کے لیے اشاروں کی زبان کے ذریعے ترجمانی، بریل ریسورسز، وہیل چیئر کے لیے ریمپس اورعلیحدہ سے مختص گزرگاہیں شامل ہیں،اس سال کا تھیم ’’سرخاب‘‘ رکھا گیا ہے جو خواتین کی فطری قدر اور استقامت کی نمائندگی کرتا ہے۔ WOW فیسٹیول کے ذریعے برٹش کونسل خواتین کے لیے ایسے پلیٹ فارمز مہیا کرتی ہے جہاں وہ اپنے مسائل کو بیان کر سکیں، سسٹم کی رکاوٹوں کو چیلنج کر سکیں اور اپنی کامیابیوں پر فخر محسوس کر سکیں۔

میری نظر میں ویمن آف دی ورلڈفیسٹیول پاکستان 2025 ء خواتین کی کامیابیوں کے اعتراف کا میلہ ہے،اس فیسٹیول میں نئی دْنیا کے نئے چیلنجز کا احاطہ کیا جائے گا۔مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے جامع اور مربوط حکمت عملی پر بحث و مباحثے ہونگے۔پسماندہ طبقات کو سسٹم کا حصہ بننے میں ان کی مدد کرنا،مثبت تبدیلیوں کے اس دور میں خواتین کو بااختیار بنانے کے عزم کا اعادہ کیا جائے گا۔فیسٹیول میں زندگی کے ہر شعبہ سے کارکن،آرٹسٹ، مصنفین، مندوبین، چینج میکر کی بااثرآواز یں سننے کا موقع میسر آئے۔فیسٹیول میں ورکشاپس،ماسٹر کلاس،مختلف پرفارمنس پیش کی جائیں گی، فلمیں دیکھائی جائیں گی، پینل ڈسکشن،مکالمے کی نشستوں میں صنفی مساوات اور خواتین کے مسائل کے حل تلاش کئے جائیں گے۔اس کے علاوہ فوڈز سٹالز ہونگے۔

برٹش کونسل پاکستان کے زیر اہتمام یہ فیسٹیول یکم فروری سے شروع ہوگا جو دو فروری تک جاری رہے گا۔یہ فیسٹیول اس بار ’’سرخاب‘‘ تھیم کے تحت منایا جا رہا ہے۔یہ تھیم اپنے آپ میں بہت دلچسپ اور توجہ طلب ہے۔پرندے ’’سرخاب‘‘ کا شمار اپنے رنگین پروں کی بدولت خوبصورت ترین پرندوں میں ہوتا ہے جو اپنی آواز اور رقص بھی منفرد ہے۔اْردو ادب میں اسی پرندے کے ’’پر‘‘ بارے کہا جاتا ہے کہ ’’اسے کونسا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے‘‘یہ ایک ضرب المثل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اْونچے درختوں پر بسرا کرنے والے اس پرندے ’’سرخاب‘‘ کا لفظ فارسی زبان سے ماخوذ ہے جس کامطلب ’’سرخ رنگ میں ڈوبا ہوا ہے‘‘۔

متعلقہ مضامین

  • الحمراء میں ویمن آف دی ورلڈ فیسٹیول پاکستان!
  • اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا
  • حیدرآباد: خاتون اپنے گزر بسر کے لیے پرندے فروخت کر ہری ہے
  • کراچی بہت گندااور صورتحال بہت خراب ہے، امریکی خاتون
  • خواتین کے خلاف تعصبات کا خاتمہ ضروری ہے، فرحین عامر
  • امریکی خاتون واپس اپنے ملک جانے پر آمادہ ہوگئی
  • خواتین کھلاڑیوں کے لیے معیاری فٹ ویئر کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے،علی خان ترین
  • خواتین جنوری 2025
  • امریکی خاتون نے کراچی سے واپس جانے کی شرط بتا دی