Express News:
2025-04-15@06:29:51 GMT

پنجابی زبان کا سچا سیوک، طاہر وزیرآبادی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

وزیرآباد کا ذکر آتے ہی بابائے صحافت مولانا ظفرعلی خاں، علامہ صائم کرنالی، منو بھائی، سلیم کاشر، مولانا عبدالغفور، عطاء الحق قاسمی، شفقت تنویر مرزا، عرفان اللہ راجا، شریف فیاض وزیرآبادی اور مدثر اقبال کے اسمائے گرامی سے اس کی کہکشاں جگمگانے لگتی ہے۔

طاہر وزیرآبادی جن کی جنم بھومی گمرولہ گاؤں، جو قصبہ درمان (تحصیل ظفر وال ضلع نارو وال) سے متصل ہے۔ جہاں وہ 1960 میں چوہدری برکت علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ 1970 میں تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہوئے۔ انھوں نے 1977میں گورنمنٹ پبلک ہائی اسکول وزیر آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،جب کہ 1979میں گورنمنٹ مولانا ظفر علی خاں ڈگری کالج وزیرآباد سے ایف اے کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں شعبہ صحافت سے منسلک ہوگئے۔

 کالم نگاری اور تجزیہ نگاری ان کی مرغوب غذا تھی۔ ان کے اُردو میں چند کالم ایک اردو روزنامہ میں پڑھنے کو ملے مگر ان کے زیادہ تر کالم پنجابی زبان میں ہمیں ایک اخبار میں پڑھنے کو ملتے۔ ان کے کالم ادبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مبنی تھے۔

طاہر وزیر آبادی نہایت وضع دار اور مجلسی قسم کے آدمی تھے۔ وہ ادبی، صحافتی اور سماجی دائرہ تعلقات کے نہایت متنوع تھے، اسی وجہ سے تمام ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں کے لوگ احباب ان سے محبت اور انکساری سے پیش آتے۔

کیونکہ وہ خود بھی محبت سے بھرپور آدمی تھے اور ساری زندگی چاہتیں دے کر محبتیں سمیٹتے رہے۔ اس حوالے سے مدثر اقبال بٹ بتاتے ہیں کہ ’’ وزیر آباد کی مٹی سے میرا رشتہ ماں بیٹے جیسا ہے۔ میں اس مٹی کا بیٹا ہوں اور ساری زندگی اسی کی محبت کا مزا لیتا رہا ہوں۔

اس مٹی کی خوشبو کو ہمیشہ میری سانسوں نے محسوس کیا۔ میں جب بھی وزیرآباد کا نام لیتا تو میرے سامنے وزیرآباد کی ایک ہنستی مسکراتی صورت طاہر وزیر آبادی کی آجاتی اور میں جب بھی وزیرآباد آتا تو میرا میزبان طاہر وزیر آبادی ہوا کرتا ۔ وہ میرے مشکل وقت کا ساتھی تھا، میری دھرتی کا ایک نیک بیٹا تھا، وہ میرا بھائی بھی تھا اور میرا دوست بھی۔‘‘

طاہر وزیر آبادی لسانی اعتبار سے اُردو اور پنجابی پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ فکری حوالے سے وہ ایک محبِ وطن پاکستانی تھے جب کہ موضوعاتی زاویے سے ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع تھا۔ اپنے ارد گرد رونما ہونیوالے روزمرہ واقعات کو اپنے شعروں اورکالموں کی صورت میں پیش کرتے نظر آتے۔ ان کے پنجابی شاعری اورکالموں میں نہایت رنگارنگی پائی جاتی۔ حمد ونعت، نظم و غزل، طنز ومزاح، الغرض ہر میدانِ سخن میں رواں دواں تھے۔ ان کے نعتیہ کلام سے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

سوہنا رب رحیم وی سانجھا

کر دا کرم کریم وی سانجھا

سانجھا پاک کلام ہے اُسدا

رحمت بھریا میم وی سانجھا

طاہر وزیر آبادی کی شاعری میں پختہ کاری کے تمام اجزا اور جوہر موجود ہیں۔ انھوں نے چھوٹی بحر میں جو لفظی و معنوی کمالات دکھائے وہ اس بات کا حقیقی ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے شعری سفرکو خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ طے کیا۔ وہ دورِ حاضر میں مفاد پرستی، منافقت اور ناہمواریوں کے دور کو دیکھ کر بہت دُکھی رہتے۔ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ ہمیشہ حق و صداقت کی صدائیں بلندکرتے ہوئے جھوٹے اور مکار لوگوں کے چہروں سے نقاب اُٹھاتے۔

غرق ہووے شیطان دی بیڑی

جھوٹھے سیاستدان دی بیڑی

چک لے ربا دیس دے ویری

نالے کوڑگیان دی بیڑی

ان کی شاعری میں تصوف کا رنگ بھی نمایاں جھلکتا دکھائی دیتا ہے، جس کی خاص وجہ ان کے اندر وارث شاہ، بھلے شاہؒ، میاں محمدبخشؒ اور حق باہوؒ جیسے صوفیائے کرام سے محبت کا جذبہ موجود تھا، ان کی یہ محبت عقیدت کا روپ لیے کچھ اس طرح سے اظہار کرتی ہے کہ:

وارث شاہ دی جوء تو صدقے

بُھلے دی خُشبو توں صدقے

میاں محمد تو جند واراں

حق باہو دی ہُو تو صدقے

طاہر وزیر آبادی کے پاس وسیع ذخیرہ الفاظ موجود تھے۔ جن کو وہ اپنی ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں سے استعمال کرنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے تھے۔ انھوں نے بعض اشعار اتنی گہرائی سے کہے ہیں کہ پڑھنے والا ہر شخص اس کے آثار میں اُترکر ڈوب مرتا ہے۔ ایسے ہی کچھ اشعار شامل کرتا چلوں کہ:

تتلیاں دے سینے انج پاڑے گئے

پُھل گلابی پیراں ہیٹھ لتاڑے گئے

بوٹ وچاری چڑیاں دے وچ آلنیاں

ظالم سوچ دے ہتھوں زندہ ساڑے گئے

ایس تو اُتے ہور بے قدری کیہ ہونی

رُکھاں اُتوں سجرے بور وی جھاڑے گئے

………

صدیاں وچ شمار نہ جندے

ساہواں دا اتبار نہ جندے

سکھنا جا سی خاک دا پُتلا

ڈھیر کلاوے مار نہ جندے

طاہر وزیرآبادی کے اندر ایک سچا اورکھڑا شاعر موجود تھا ایسا شاعر اور انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، انھیں سب پیار سے ’’ لالہ جی‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے، مجھ خاکسارکا جب پہلا پنجابی شعری مجموعہ ’’بھلیاں راہواں‘‘ اشاعت پذیر ہُوا تو اس پر انھوں نے بہت جامعہ مضمون لکھا جو بعد میں پنجابی اخبار ’’بھلیکھا‘‘ میں شایع بھی ہُوا۔

ان کی سے میری پہلی ملاقات ’’بھلیکھا‘‘ اخبار کے زیر اہتمام آل پاکستان پنجابی مشاعرہ آرٹس کونسل گوجرانوالہ میں ہوئی۔ میدان سخن کا یہ منفرد شاہسوار، مشاہدات کی تصویر کو اپنے لفظوں میں پیش کرنیوالا فن کار، ادب کی دنیا سے جُڑے لکھاریوں کا خدمت گزار، چاہتیں بکھیر کر محبتیں سمیٹنے والا فنکار، چلتی سانسوں کو راہِ ادب میں وقف کرنے والا جی دار، صنف شعر و سخن سے جنون کی حد تک پیار کرنے والا قلمکار، عاجزی اور انکساری کا روشن مینار اور شہر وزیر آباد کا شہزادہ طاہر وزیر آبادی محبت کے عالمی دن 14 فروری 2020 کو اپنے چاہنے والوں کی محبتیں، عزتیں اور شہرتیں سمیٹ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

ان کی نمازِ جنازہ سجادہ نشین علی پور سیدہ شریف کے صاحبزادہ حافظ پیر سید کرامت علی حسین نے پڑھائی کیونکہ طاہر وزیرآبادی 1982 میں حضور قبلہ عالم پیر علی حسین شاہ صاحب کے دستِ حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ ’’ لالہ طاہر وزیر آبادی‘‘ کی وفات پر نہ صرف وزیرآباد ویران ہوا ہے بلکہ سارا شہر ویران ہو گیا ہے۔ خالد شریف کے اس ضرب المثل شعر کے مصداق۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہرکو ویران کرگیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاہر وزیر ا بادی طاہر وزیرا بادی انھوں نے

پڑھیں:

وزیر صحت مصطفی کمال کا آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی

وزیر صحت مصطفی کمال کا آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)وزیر صحت مصطفی کمال نے آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی کردیا اور کہا ہے کہ اس بار افغانستان اور پاکستان میں ایک ہی روز مہم شروع ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق وزیر صحت مصطفی کمال نے وزیراعظم کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا فاروق کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ رواں سال دسمبر 2025 میں پاکستان کو پولیو فری کردیں گے، اب تک چھ نئے پولیو کیس سامنے آئے ہیں، 21 اپریل سے ملک بھر میں انسداد پولیو مہم شروع ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دو ہی ممالک ہیں جہاں پولیو موجود ہے لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے، افغانستان میں طالبان کی مذہبی بنیاد پر حکومت ہے لیکن پورے افغانستان میں بھرپور پولیو مہم چل رہی ہے، اس بار افغانستان اور پاکستان میں ایک ہی روز مہم شروع ہوگی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مذہب سے انسداد پولیو ویکسین کا کوئی تعلق نہیں، حج اور عمرہ کیلئے جائیں تو لائن میں لگا کر پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، پاکستان براہ راست یونیسیف سے پولیو ویکسین حاصل کرتا ہے، پاکستان میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کو پولیو ویکسین یونیسیف فراہم کرتا ہے، پاکستان پولیو ویکسین نہیں خریدتا بلکہ یونیسف خود خریداری کرتا ہے اور ہمیں فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پولیو کا کوئی علاج نہیں صرف بچاو کی ویکسین ہے، پورے ملک میں سیوریج ٹیسٹ میں پولیو وائرس موجود ہے، وائرس پورے ملک میں موجود ہے بچا کا طریقہ صرف ویکسین ہے، پاکستان میں بہت کم ایسے واقعات ہوتے ہیں جن پر پوری قوم متحد ہوجائے مگر پولیو ایسا مسئلہ ہے جس پر پورا ملک متحد ہے تمام صوبوں کے وزیر صحت یک زبان ہو کر اس مہم میں ایک مٹھی کی طرح شریک ہیں اس اتحاد کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہم پولیو پر قابو پالیں گے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ عہدہ سنبھالتے ہی چاروں صوبائی وزرا صحت سے رابطہ کیا۔ صوبائی وزرا کا ریسپانس بہت مثبت تھا، چار لاکھ پچیس ہزار ہیلتھ ورکرز گراونڈ پر کام کریں گے انھیں اتنے پیسے نہیں دئیے جا رہے کہ وہ اس سیکیورٹی رسک میں بھی کام کر رہے ہیں اس لیے ہیلتھ ورکرز کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا جانا ضروری ہے۔مصطفی کمال نے مزید کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان اس مرض سے جان چھڑا لے اور ہم اکیلا پولیو زدہ ملک نہ رہ جائیں، والدین سے گزارش ہے کہ وہ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ پاکستان پولیو فری ممالک میں شامل ہوجائے۔

متعلقہ مضامین

  • حضورؐ آخری نبیؐ، شک کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج: طاہر القادری 
  • مصر کی غزہ جنگ بندی کیلیے نئی حیران کن تجویز؛ حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ
  • سید عباس عراقچی کی ہاکان فیدان کیساتھ مشاورت
  • وزیر صحت مصطفی کمال کا آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی
  • ریحام خان نے مادری زبان میں سُر بکھیر دیے
  • وزیراعظم اور وزیر خزانہ ایک پیج پر نہیں، بیرسٹر سیف
  • احسن اقبال کا ینگ ڈاکٹرز کو اے آئی سیکھنے کا مشورہ
  • امت مسلمہ متحد ہو جائے تو فلسطین آج آزاد ہو سکتا ہے: طاہر محمود اشرفی
  • ریحام خان نے اپنی مادری زبان میں سُر بکھیر دیے، ویڈیو وائرل
  • مریم نواز کی ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات