Express News:
2025-04-15@07:57:49 GMT

سید حسن نصر اللہ کی جدوجہد

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

سید حسن نصر اللہ تاریخ کی ایک ایسی شخصیت اور کردار کا نام ہے جس کے بارے میں دوست اور دشمن دونوں ہی معترف ہیں کہ انھوںنے دنیا کے حالات پر اپنا ایک خاص نقش چھوڑا ہے۔ دنیاآپ کو لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ کی حیثیت سے جانتی تھی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح سید حسن نصر اللہ دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان شہرت اور عزت کا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اسی طرح دشمن بھی ان کی ان صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔حسن نصر اللہ نے جس زمانے میں لبنان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف ظلم کا دور تھا۔

جس وقت حسن نصر اللہ جوانی کو پہنچے تھے اس وقت تک لبنان کئی ایک داخلی جنگوں کے بعد آخر کار صہیونی غاصبانہ تسلط کا شکار ہو چکا تھا۔ سید حسن نصر اللہ کہ جن کا تعلق ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا ہر گز اس بات کو قبول نہ کر سکے کہ لبنان کی آزادی پر کوئی حرف آئے۔

حسن نصر اللہ ابتدائی ایام میں لبنانی جوانوں کی متحرک تحریک امل میں شامل رہے اور امام موسی صدر کی قیادت میں لبنان میں صیہونی دشمن کے قبضہ کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی طرح جب  1982میں باقاعدہ حزب اللہ قائم کی گئی تو سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کر لی۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے جو پوری امت مسلمہ کے لیے متفقہ مسئلہ ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مسلم امہ کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے چاہے کس قدر اختلافات موجود ہوں لیکن جب بات قبلہ اول بیت المقدس کی آتی ہے تو سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے بھی القدس کی آزادی کے راستے میں عملی جدوجہد کی اور یہاں تک کہ اپنی جان قربان کر کے ثابت کیا کہ مسلمان ایک ہیں اور قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک زبان اور ایک جان ہیں۔

سید حسن نصر اللہ کی شخصیت نے فلسطین کاز کے لیے سرگرم تحریکوں کو باہمی یکجہتی کے رشتہ میں جوڑنے میں اہم کردار کیا۔ انھوںنے  2006  میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اور مسلم دنیا میں ان کو مزید عزت اور حمایت حاصل ہوئی۔

انھوںنے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں کو باہمی ارتباط کی لڑی میں پرو ہنے کا کام انجام دیا اور ایک ایسا رابطہ اور تعلق قائم کیا جس میں وحدت اور یکجہتی قائم تھی۔ ان کی یہ تمام تر کوششیں اور جدوجہد وحدت اسلامی کا پیغام دیتی ہے کیونکہ انھوںنے فلسطین جیسے اہم مسئلہ پر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا ادراک کروایا کہ ہم سب کے اتحاد او وحدت کے بغیر قبلہ اول آزاد نہیں ہو گا۔ یہ سید حسن نصر اللہ ہیں کہ جنھوںنے اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے مسلم دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ القدس کی آزادی کی چابی مسلم امہ کے اتحاد میں ہے۔

سید حسن نصر اللہ چونکہ لبنان کے ایک ایسے معاشرے میں موجود رہے کہ جہاں سنی، شیعہ، عیسائی ، دروز اور اسی طرح مسلمانوں کے متعدد فرقو ں پر مبنی سوسائٹی موجود ہے۔ ایسے معاشرے میں انھوںنے حزب اللہ کی 32سال تک قیادت سنبھالی اور سات اکتو بر کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اپنی جان بھی فلسطین کاز کے لیے قربان کر دی۔سید حسن نصر اللہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ مسلم امہ کو داخلی انتشار اور اختلافات سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی کیونکہ سید حسن نصر اللہ اس بات پر مضبوطی سے یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں الجھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے متحد ہو کر مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں امریکا اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انھوںنے ہمیشہ اس اتحاد کو فلسطین کی آزادی کی کلید سے تشبیہ دی۔

سید حسن نصر اللہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو قائم کرنے کے لیے مسئلہ فلسطین کو انتہائی نوعیت کی اہمیت دیتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری وحدت اور اتحاد کے بغیر انجام نہیں دی جا سکتی۔سید حسن نصر اللہ نے فلسطین کا زکی حمایت صرف اس لیے انجام دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی سب سے اہم ذمے داری ہے۔فلسطین کی حمایت کو کسی ایک فرقہ یا قوم و مسلک کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔

سید حسن نصر اللہ کی زندگی بھر میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کی جانے والی کوششیں یقینا قابل قدر ہیں۔ ایک اور اہم کوشش یہ ہے کہ انھوںنے فلسطین کی عسکری تنظیموں کی معاونت کی اور فلسطینی تنظیموں تک جدید ٹیکنالوجی اور عسکری مدد پہنچانے کو ہمیشہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا۔ ان کی یہ مدد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ فرقوں اور مسالک کی قید سے آزاد ایک بلند و بالا مقام کے انسان تھے کہ جن کی پوری زندگی مسلم امہ کی ترقی اور کامیابیوں کے لیے صرف ہوئی اور اسی لیے آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ کا مسلم امہ کے اتحاد کے لیے کردار ایک بے مثال کردار ہے جس کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کا جا سکتا۔

سید حسن نصر اللہ نے اپنی اس عملی جدوجہد سے اور شہادت کے عظیم رتبہ سے ثابت کیا ہے کہ مسلم امہ کے اتحاد اور خاص طور پر ہمارے مشترکہ مسئلہ فلسطین کے لیے ہر چیز کو قربان کیا جا سکتا ہے اور انھوںنے خود اپنی جان کو قربان کر کے دنیا بھر کے لوگوں کو سوگوار کیا ہے لیکن اصو ل پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

سید حسن نصر اللہ دنیا بھر کی باعزت اور حریت پسند اقوام کے درمیان ایک چمکتا ہوا ستارہ رہیں گے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرتے رہیں گے اور مسلم امہ کے اتحاد کے لیے جہاں ان کی زندگی میں کوشش جاری رہی اب ان کی شہادت کے بعد آنے والی نسلوں کے ذریعہ یہ مشن اور کاز جاری رہے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد آج اسلامی تعلیمات کے مطابق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔مسلمانوں کا اتحاد قرآنی تعلیمات کے مطابق دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔موجودہ دور میں جہاں مسلم دنیا کو آج فرقہ واریت ، استعماری طاقتوں کی غنڈہ گردی، داخلی تنازعات اور دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ، ایسے حالات میں سید حسن نصر اللہ جیسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے اور اب وہ چونکہ شہید ہو چکے ہیں تو ان کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے سید حسن نصر اللہ کے مشن اتحاد بین المسلمین کو زندہ رکھا جائے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سید حسن نصر اللہ نے مسلم امہ کے اتحاد مسلمانوں کے فلسطین کی نے فلسطین اتحاد کے حزب اللہ کی آزادی دنیا بھر ہے کہ جس کہ مسلم اللہ کی کے لیے ہے اور تھے کہ اور اس اس بات

پڑھیں:

نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون

معصوم مرادآبادی

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد وقف بل نے ایک ایسے قانون کی شکل اختیار کرلی ہے جو پورے ملک میں ہزاروں کروڑ کی وقف جائیدادوں کا تیا پانچہ کردے گا۔اس کا سب سے زیادہ اثر اترپردیش میں ہوگا، جہاں پچاس ہزار سے زیادہ وقف جائیدادیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل پر صدرجمہوریہ کی مہر لگنے سے قبل ہی اترپردیش کی یوگی سرکار سرگرم ہوگئی ہے ۔ سبھی ضلع مجسٹریٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیرقانونی طورپر وقف قرار دی گئی جائیدادوں کی نشان دہی کرکے انھیں بحق سرکار ضبط کریں۔ واضح رہے کہ یوپی کی جو وقف املاک محکمہ مالیات میں درج نہیں ہیں، ان پر اب وقف بورڈ کی جگہ ضلع مجسٹریٹ کو فیصلہ لینے کا مجاز قرار دیا گیا ہے ۔ نئے وقف ایکٹ میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جن سے اوقافی جائیدادوں پر مسلمانوں کی بجائے حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس کی زد مسجدوں، درگاہوں اورقبرستانوں پر بھی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کشمیر سے کنیا کماری تک احتجاج کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ نیا قانون چونکہ دستوری تحفظات کے بھی صریحاً خلاف ہے ، اس لیے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔ اس کی پہل ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کی ہے ، جنھوں نے لوک سبھا میں اس بل پر نہایت مدلل تقریر کی تھی اور اس کی کاپی پھاڑ ڈالی تھی۔اس بل کی حمایت کرنے والے نام نہاد سیکولرلیڈروں چندربابو نائیڈو اور نتیش کمار کو اپنے اپنے صوبوں میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔ نتیش کمار کی پارٹی میں شامل کئی مسلم عہدیدار پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور وجے واڑہ کی سڑکوں پر نائیڈو کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس غیر آئینی بل کو چیلنج کرنے والوں میں ڈی ایم کے ، کانگریس پارٹی، مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں اگر اس بل کے خلاف مضبوط پیروی کی گئی تو پوری امید ہے کہ یہ قانون کالعدم ہوجائے گا کیونکہ اس کی بہت سی شقیں دستوری تحفظات سے متصادم ہیں۔
تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب مودی سرکارنے مسلمانوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کا دروازہ کھولا ہے ۔ اس کے بعد یکساں سول کوڈ کا نمبر ہے جو بی جے پی کے انتخابی منشور کا اہم حصہ ہے ۔پچھلے گیارہ سال کا جائزہ لیا جائے تو اس حکومت نے ہر وہ کام کیا ہے جس کی ضرب مسلمانوں کے مفادات پر پڑتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مسلم آبادی کے بنیادی شہری حقوق پر ڈاکہ زنی کرنا ہی اس حکومت کا بنیادی مقصدہے ۔ وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد کھربوں روپوں کی وقف جائیدادوں کا مستقبل تاریکی میں چلا گیا ہے ۔ رات کی تاریکی میں منظور کی گئی ترمیمات مسلم حقوق پر شب خون کے مترادف ہیں۔
اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت مسلمانوں کی سب سے بڑی خیرخواہ ہے اور ان کی فلاح وبہبود چاہتی ہے ۔ کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ وقف املاک ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی مسلمانوں کی بدحالی دور نہیں ہوسکی؟ ان کے اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقف ترمیمی قانون کے وجود میں آنے کے بعد ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی بدحالی دور ہوجائے گی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ اوقاف کی جائیدادوں کومسلمانوں سے چھین لینے کا ایک انتہائی تکلیف دہ عمل شروع ہوگا۔اس جھوٹ کو باربار بولا گیا ہے بولاگیاہے کہ وقف کے نام پر مسلمانوں نے سرکاری زمینوں پر قبضے کررکھے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار ایسی سرکاری عمارتیں ہیں جو وقف کی زمینوں اور قبرستانوں پر بنائی گئی ہیں۔ کرن رجیجو کی ایک گھنٹہ طویل تقریر کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کانگریس پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے درست ہی کہا ہے کہرجیجو کی تقریر گمراہ کن اور جھوٹی تھی۔ انھوں نے رجیجو کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو حکومت مسلمانوں کو عید کی نماز پڑھنے سے روکتی ہے اور جس کا لوک سبھا میں ایک بھی ممبر مسلمان نہیں ہے ،وہ آخر مسلمانوں کی خیرخواہ کیسے ہوسکتی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیرداخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران دہلی میں وقف کی 123 قیمتی جائیدادوں کو سرکاری املاک قراردے دیا ہے ۔ واضح رہے کہ ان قیمتی جائیدادوں کو2013 کے وقف بل میں دہلی وقف بورڈ کو سونپا گیا تھا۔ مگر نئے بل میں اس پر سرکاری قبضہ بحال کردیا گیا ہے ۔2007میں سچر کمیٹی نے ان اوقافی جائیدادوں کی قیمت کا تخمینہ چھ ہزارکروڑ روپے لگایا تھا، جن سے اب مسلمان محروم کردئیے جائیں گے ۔مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے وقف جائیدادوں کو ‘لینڈجہاد’ سے تشبیہ دے ڈالی ہے اور یہی کام یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی کررہے ہیں۔
حکومت کے ان ہی عزائم کے پیش نظر گزشتہ برس اگست میں وقف ترمیمی بل کی پارلیمنٹ میں زبردست مخالفت ہوئی تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کی زبردست مزاحمت کے بعد حکومت اس بل کو جو ائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی)کو بھیجنے پر مجبور ہوئی تھی۔ بی جے پی ممبر جگدمبیکا پال کی سربراہی والی اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ممبران شامل تھے ، لیکن جب اس کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی تو اس میں اپوزیشن ممبران کے اعتراضات کو درکنار کرتے ہوئے صرف سرکاری ممبران کی رائے کو ہی اہمیت دی گئی۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ حکومت پہلے ہی طے کرچکی تھی کہ وہ ہرصورت میں وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروالے گی۔ اس سے پہلے کم وبیش پانچ کروڑ مسلمانوں نے ای میل بھیج کر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی۔ خود اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے یہ تسلیم کیا کہ انھیں اس بل کے سلسلے میں 97 لاکھ عرضداشتیں موصول ہوئی ہیں۔ اس دوران حکومت نے مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے کچھ ضمیر فروشوں کو اس بل کی حمایت میں بیان جاری کرنے کوکہا۔ اس میں درگاہ اجمیر اورفتحپور سیکری کی درگاہ کے نام نہاد سجادہ نشین بھی شامل تھے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کاکام مسلم مفادات کے خلاف حکومت کے ہرغلط کام کی تائید کرنا ہے ۔ ایسے ہی گندم نما جوفروش پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وقف ترمیمی بل کیحمایت میں مودی کی تصویریں لے کرجگہ جگہ مظاہرہ کررہے تھے اور گودی میڈیا کے چینل انھیں خوب نمایاں کرکے دکھارہے تھے ۔اسی قسم کے لوگوں نے نتیش کمار کے افطار کے بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود پوری بے شرمی کے ساتھ اس میں شرکت کی
تھی۔سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس نتیش کمار سے مسلمانوں نے ان کے ‘سیکولر’ ہونے کی بنا پر بڑی امیدیں باندھی تھیں ان کے نمائندے للن سنگھ نے پارلیمنٹ میں بی جے پی ممبران سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ وقف ترمیمی بل کی حمایت کی اور وزیراعظم کی شان میں قصیدے پڑھے ۔اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران نے اوقافی جائیدادوں کے معاملے میں حکومت کے خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت کی ہمنوا جن نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے مسلمانوں نے اس بل کی مخالفت کی امیدیں باندھی تھیں انھوں نے سب سے پہلے اپنے ممبران کو ہدایت دی کہ وہ وقف ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ باربار ایک ہی قسم کے لوگوں سے دھوکہ کھاتے ہیں۔ اس میں قصور دھوکہ دینے والوں کا نہیں بلکہ بے جا اعتبار کرنے والے مسلمانوں کا ہوتا ہے ۔ مسلمان جنھیں سیکولر سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں وہ سب سے بڑے موقع پرست ثابت ہوتے ہیں۔مسلمانوں کو سب سے زیادہ تعجب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پر ہے ۔ بہار میں اسمبلی انتخابات کی آمد آمد ہے اور مسلمانوں کو یقین تھا کہ وہ مسلم ووٹوں کے لالچ میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت کریں گے ۔ اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پٹنہ میں ایک احتجاجی پروگرام بھی کیا تھا مگرنتیش نے مسلمانوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کاکام کیا۔ حکومت کے دوسرے اتحادی چندرا بابو نائڈو نے تو باقاعدہ وجے واڑہ میں جمعة الوداع کی نماز میں شرکت کی اور چوغہ پہن کر مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ وقف کے معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں انھوں نے بھی نتیش کمار ہی راہ لی۔ اسی طرح چراغ پاسوان اور جینت چودھری سے بھی مسلمانوں کو کچھ امیدیں تھیں، لیکن انھوں نے بھی اس بل کی تائید کی۔جن حقیقی سیکولر پارٹیوں نے پوری قوت کے ساتھ اس بل کی مخالفت کی ہے ، مسلمانوں کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
  • سیاسی جدوجہد کا مقصد مذاکرات ہی ہوتے ہیں، سلمان اکرم راجا
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • اسرائیل غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں پر تاریخ کی بدترین سفاکیت و بربریت جاری رکھے ہوئے ہے، علامہ فاروق سعیدی
  • اپوزیشن اتحاد کا 20 اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا فیصلہ
  • استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
  • نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون
  • جے یو آئی پنجاب کا پی ٹی آئی سے اتحاد سے متعلق اہم فیصلہ
  • مادیت کی زنجیروں سے نجات