پیکا بل اور القادر یونیورسٹی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
موجودہ حکومت جب سے وجود میں آئی ہے، نت نئے قوانین کا ظہور ہوا ہے۔ اس عمل سے ملک کے متعدد ادارے اور تجارتی سرگرمیاں کمزور ہو چکی ہیں، تعلیمی لحاظ سے بھی کوئی خاص کارکردگی سامنے نہیں آئی ہے۔
اب ایک بل اور منظور کر لیا گیا ہے یہ ہے پیکا ترمیمی بل، جسے وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا تھا۔ اس بل کی صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق، سول سوسائٹی سخت مخالفت کر رہی ہے، چونکہ سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کیا۔
اس احتجاج کی وجہ یہ ہے بل کے تحت جھوٹی خبر پر تین سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ شبلی فراز نے اس موقعے پرکہا کہ ’’ یہ بل قرآن و حدیث کی روشنی میں نہیں بنایا گیا ہے، اس لیے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ لیکن ہوتا یہ ہے کہ حکومت کے تمام امور اور قوانین محض اپنے مفاد کے لیے ہیں، عوام اور اپوزیشن کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
پیکا ترمیمی بل جوں ہی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو اسی وقت صحافی پریس گیلری سے واک آؤٹ کر گئے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ یہ قانون بغیر مشاورت کے پاس کرایا جا رہا ہے، اس بل کا مقصد ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرنا ہے، اس شور شرابے اور احتجاج کے باوجود تھوڑی ہی دیر میں پیکا ترمیمی بل سینیٹ سے منظور کر لیا گیا اور اب صدر آصف زرداری نے بھی الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیے ہیں۔ صدر کے دستخط کے بعد ترمیمی بل قانون بن چکا ہے۔
ترمیمی بل 2025 (پیکا) کی منظوری کے خلاف صحافتی تنظیموں نے ملک بھر میں احتجاج کیا اور آزادی صحافت پر اسے حملہ قرار دیا گیا ہے۔ صحافی ترمیمی بل پر تحفظات دور کرنے کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
ان حالات میں یہ سوال بھی زیر غور ہے کہ جن حکومتی ارکان نے یہ بل بنایا اور پاس کروایا ہے تو کیا وہ مقتدر حضرات سچائی پر قائم ہیں؟ آج تھانوں اور جیلوں کی صورت حال اس قدر گمبھیر ہے اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، ان مظلوموں کو اس حال پر کس نے پہنچایا ہے؟ اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔
تو اس بل کے سب سے پہلے بدعنوان اور غیر منصفانہ رویوں پر عمل کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اس بل کو اپنے مخالفین اور حقیقت کی نقاب کشائی کرنے والوں کی حد تک محدود رکھنا جگ ہنسائی کرانا ہے۔ صحافی زرد صحافت سے دور رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دہشت گردی اور سماجی برائیوں کا مقابلہ اور ظلم و ستم کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں وہ سفاکیت اپنانے والوں کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ ان حقائق کی نشان دہی کرنے والے بے شمار صحافی شہید اور پابند سلاسل کردیے گئے ہیں۔ ٹارچر سیل میں ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا سامنے کرنے پر مجبور ہیں۔
ان سنگین حالات میں بہت سے صحافی اور صداقت پسند معاشرے کے اہم لوگ معذور ہو چکے ہیں اس ظلم پر قانون بنانے کی ضرورت تھی نہ کہ قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرنے اور ساتھ میں تین لاکھ رقم جرمانے کے طور پر ادا کرنے کا قانون (پیکا) بنا دیا گیا ہے۔ ہماری نظر میں ہیں، شاید آپ کی نظر میں نہ ہوں کہ ایسے بھی صحافی ہیں جن کی آمدنی بہت کم ہے، کم آمدن کے باعث مہینے کے آخر میں نوبت ان کے گھروں میں فاقوں کی پہنچ جاتی ہے ان کے بچے تعلیم اور علاج سے محروم رہتے ہیں۔
محض اپنے آپ کو اور اپنی کرسیوں کو مضبوط کرنے کے لیے راست گوئی کرنے والوں کو طاقت کی بنا پر روکنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب صحافیوں کو ان کی خدمات کے عوض مراعات دی جاتی تھیںاور آج سچ بولنے کی سنگین سزائیں دی جا رہی ہیں جب کہ سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اب آتے ہیں القادر یونیورسٹی کی طرف جوکہ بانی پی ٹی آئی نے بنوائی ہے، بانی پی ٹی آئی کو عمارات اور وہ بھی اسپتال اور یونیورسٹیز بنانے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے، جب حکومت میں تھے اور غربا و مساکین شیلٹرز کا قیام عمل میں آیا تاکہ محنت مزدوری کرنے والوں کو ایک ایسی جگہ میسر ہو جہاں وہ موسموں کی سنگینی سے بچ سکیں، بھوکے پیٹ کے لیے کھانا میسر ہو جس طرح ان کی نمل یونیورسٹی میں طلبا کے لیے سہولیات موجود ہیں، شوکت خانم اسپتال میں بھی بے شمار مریض داخل ہوئے اور اللہ نے انھیں شفا نصیب کی، کینسر کا علاج کرانا غریب کے بس کی بات نہیں ہے، لاکھوں کا علاج معمولی تنخواہ پانے والے سوچ بھی نہیں سکتے، کراچی میں بھی کینسر اسپتال زیر تعمیر ہے، پشاور میں یہ اہم ادارہ مریضوں کے علاج میں مستعد اور مستند ہے۔
آخر بانی پی ٹی آئی کو ایسے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے جن کی رو سے مخلوق خدا کی خدمت ہو اور والدین کے لیے صدقہ جاریہ۔ ہمارے ملک میں نیک اور صالح، ملک و قوم کی محبت سے سرشار حضرات اور ہستیوں کی قدر ہرگز نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی ناانصافی کی روایت کو برقرار رکھا جاتا ہے اور یہی پاکستان کی بدنصیبی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہی جب القادر یونیورسٹی کاوجود سامنے آیا اور جس مقصد کے لیے اس یونیورسٹی کو قائم کیا گیا تھا الحمدللہ وہ مقصد پورا ہوچکا ہے۔
یونیورسٹی کی نہ کہ عمارت جو جدید تقاضوں کے اعتبار سے مکمل بن چکی ہے بلکہ اس میں باقاعدہ اساتذہ کا تقرر اور طلبا و طالبات کے داخلے اور پڑھائی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
کشادہ کلاس روم، ساتھ میں کمپیوٹر لیب،لیبارٹری، لائبریری اور اسلامی طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طلبا کی ذہنی نشوونما اور آج کے دور میں ترقی کے جو ذرائع ہیں وہ سب چیزیں وہاں موجود ہیں حتیٰ کہ کھانے پینے کا بھی مفت انتظام ہے، نماز پڑھنے کے لیے مساجد کاقیام عمل میں لایا گیا ہے، طلبا وقت مقرر پر اپنی اپنی مساجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں اورقرآنی تعلیم و احادیث سے استفادہ کرتے ہیں۔
درس و تدریس کے علما دین اور جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی پڑھانے کے لیے اساتذہ موجودہیں، چونکہ اس یونیورسٹی کی خصوصیت یہ ہے اور جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے وہ ہے سیرت النبی ﷺ کی تعلیم سے ذہنوں کے دریچوں کو روشن کیا جاسکے۔
آج ہمارے معاشرے میں قتل و غارت، نامحرموں کے آپس کے تعلقات نے پرسکون فضا میں زہر گھول دیا ہے، زن، زر، زمین کی وجہ سے 5 سے 10، 15 لوگوں تک کا قتل روز کا معمول ہے اسلامی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کے مواقعوں پر لڑکے، لڑکی کی مرضی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ہے، گاؤں گوٹھ کے وڈیروں کا قانون سے کوئی تعلق ہرگز نہیں ہے اور اگر علم ہے بھی تو ہاریوں اور مزدوروں کے بچوں کے کانوں سے دور رکھا جاتا ہے، اپنی اولاد کو بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلانا عام چلن ہے اپنے ملازمین سے خوب محنت کرواتے ہیں ساتھ میں ان کی عزت و ناموس کو پیروں تلے کچل دیتے ہیں۔
جتنی بھی حکومتیں آئیں انھوں نے گاؤں کے اصولوں کو اسی طرح رہنے دیا جس طرح صدیوں سے رائج ہیں، بے چارے بھوکے پیاسے کچے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں، سیلاب آئے، طوفان آئے، برسات ہو یا سخت گرمی ہو یہ بے چارے ہر سہولت سے محروم کر دیے گئے ہیں، کوئی ایسا قانون اور قانون دانوں کے پاس اختیارات نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو وہ لوگ پیسے اور تعیشات زندگی میں شان دار زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ان کی بلا سے کہ ان کے لیے جو باہر ملکوں سے امداد آتی ہے وہ کہاں جاتی ہے، شادی کرنے کے جرم میں لڑکے لڑکیوں کو قتل کرنے پر پابندی اور ساتھ میں قاتلوں کے لیے سزا مقرر نہیں کی گئی۔
وہ سب آزاد ہیں جو چاہیں کریں اب اگر بانی پی ٹی آئی نے ایک ایسا ادارہ بنا دیا ، جہاں سے طلبا اسلامی تعلیمات اور ایک دوسرے کے حقوق کے بارے میں جان کر اور سرٹیفکیٹ حاصل کرکے باہر آئیں تاکہ لوٹ کھسوٹ، قتل، چوری، ڈاکا اور بددیانتی کا جو بازار گرم ہے اس کے خاتمے کے لیے نئی نسل کے لوگ حقیقی معنوں میں کام کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی کرنے والوں والوں کو کرتے ہیں ساتھ میں کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 نافذ العمل ، نوٹیفکیشن بھی جاری
پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 نافذ العمل ہو گیا جس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔وزارت قانون کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پیکا قانون کا باضابطہ اطلاق ہو گیا، ڈیجیٹل نیشن بل کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 پر دستخط کردیئے تھے جس کے بعد دونوں بل قانون بن گئے تھے۔خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے ترمیمی بل کو پہلے قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا تھا اور اس کے بعد ایوان بالا نے بھی ترمیمی بل کی منظوری دے دی تھی جس کے بعد صدر مملکت کے دستخط کے لئے ایوان صدر بھیجا گیا تھا۔