Express News:
2025-02-01@22:51:49 GMT

لمحہ فکریہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

ہرگزرتے لمحے،گھنٹے، ہفتے، مہینے اور سال کے ساتھ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، یہاں روزانہ کی بنیادوں پر نت نئے طور طریقے جنم لے رہے ہیں، پرانی طرزِ زندگی کو فرسودہ گردانا جا رہا ہے اور انسان مداری کی ڈْگڈگی پر بِنا کچھ سوچے سمجھے ناچ دیکھا رہا ہے۔ موجودہ دور میں زندگی کی رفتار کو پَر لگ گئے ہیں، جو افراد اس تیز بھاگتی زیست کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں دنیا صرف اْنھیں قبول کر رہی ہے۔ زندگی کی اس بے ہنگم دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں اور نجی وجوہات کے باعث حصہ نہ لینے والوں پر قدیم مکتبِ فکر کا ٹھپہ لگا کر مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس دنیا میں جدیدیت کا میڈل کسی انسان کو مفت میں نہیں پہنایا جاتا بلکہ خواہش مند اْمیدواروں کو اپنی پہچان کھو کر یہاں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی بلکہ وقت اور حالات کے ساتھ اس کو اپنی ساخت بدلتی رہنی پڑتی ہے۔ یہ لازمی ہے کہ جب دنیا نئے رنگ لیتی ہے تب یہاں موجود انسانی زندگیوں کو بھی نیا لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے۔ ہر عقل و شعور رکھنے والے انسان میں بہتر سے بہترین تک سفرکرنے کی آرزو ہوتی ہے، اس معاملے میں سبھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔

زمانۂ حال کو پسند کرنے والے لوگ پرانی روایات اور طور طریقوں کو اپنانے میں عار محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں جی کر خود کو ضایع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے، اْن کے مطابق جب ایک زندگی میں کئی مختلف زندگیوں کو جیا جاسکتا ہے تو پھر سمندر تک رسائی ہوتے ہوئے پانی کی ایک بوند پر اکتفا کیوں کرنا۔

دورکے ڈھول ہمیشہ سہانے لگتے ہیں، اصلیت وہ ہوتی ہے جو قریب جاکر دیکھنے کو ملتی ہے، ہر دلکش نظر آنی والی زندگی پرْسکون نہیں ہوتی ہے، خود کو فریب دینا شاید تھوڑے عرصے کے لیے خوشی فراہم کرسکتا ہے مگر اس کے دیرپا نتائج نقصان دِہ ہی ہوتے ہیں، اگر زندگی میں سکون، ٹھہراؤ اور ترنگ نہ ہوتو انسان ایک زندگی جیئے یا دس اْسے لطف کسی صورت بھی محسوس نہیں ہوتا ہے، محض مصنوعی خوشی کا ایک خول ہوتا ہے جو دنیا کو بیوقوف بنانے اْس نے چڑھا رکھا ہوتا ہے۔

آج کی دنیا میں سب کچھ سطحی ہے،گہرائی اور یکسوئی نادر ہی نظر آتی ہے، ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکتاہٹ اور بے صبری نے کمال مہارت کے ساتھ تحمل اور صبرکی جگہ لے لی ہے۔ معاشرے میں مجموعی طور پر اضطراب اور عدم اطمینان بڑھتا جا رہا ہے اور رہی سہی کسر انسانوں میں نقل بازی کے بڑھتے رجحان نے پوری کردی ہے۔ موجودہ دنیا کے باسی اپنے من کی کرنے کے بجائے عموماً وہ کرنے میں مگن دکھائی دے رہے ہیں جو دوسرے اْن کو کرتا دیکھنا چاہتے ہیں، خود کو خوش کرنا زمانۂ حال کے زیادہ تر لوگ بھول بیٹھے ہیں کیونکہ زمانے کو خوش کرنا اْن کے لیے اہم ہوچکا ہے۔

انسان کی ترجیحات میں رد و بدل کا خوفناک عمل جاری ہے جس کا خمیازہ کسی ایک فرد کو نہیں آنے والی تمام نسلوں کو بھگتنا پڑے گا، جب کوئی چیز خرابی کے راستے پر چل پڑے تو اْس کا بہتری کی جانب پلٹ آنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ عصرِ حاضر میں اس دھرتی پر زندگی کو عمدہ سے عمدہ ترین بنانے کے تمام لوازمات موجود ہیں مگر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان کی طبعیت میں چین اور سکون کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ کامیابی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی اطمینان کسی کو حاصل نہیں ہو رہا ہے، بس وقتی خوشی ہوتی ہے جو مدت پوری کر کے غائب ہوجاتی ہے۔

کامیابی حاصل کرنا اور شہرت پانا دو بالکل مختلف باتیں ہیں، آج کے نوجوانوں کو ان دونوں میں سے کسی ایک چیزکو منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تو اْن میں سے زیادہ تر ایک پل ضایع کیے بغیر دوسرے والے پر اپنا ہاتھ رکھیں گے۔ ہمارے معاشرے کے عموماً نوجوانوں کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ محنت سے دور بھاگتے ہیں اورکامیابی محنت کیے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے جہاں تک بات مشہور ہونے کی ہے آج کل کچھ بھی اوٹ پٹانگ حرکت کرنے سے انسان با آسانی شہرت حاصل کر لیتا ہے۔ اس بات سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے کہ میسر آئی شہرت مثبت ہے یا منفی، بس اگر کچھ اہم مانا جاتا ہے تو لوگوں کی نظروں میں آنا، چاہے وہ مختصر وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔

 میں نے بچپن میں کہیں پڑھا تھا ہر انسان اپنی کہانی کا ہیرو ہوتا ہے جب کہ آج کی نوجوان نسل اپنے بارے میں ایسا دل سے تسلیم کرتی ہے۔ تعلیم بندے کو انسان بناتی ہے اور انسان کا روپ دھارتے ہی شعورکے دروازے اْس کے لیے کْھل جاتے ہیں درحقیقت شعور حاصل کیے بغیر انسان کو کامیابی کی معراج مل ہی نہیں سکتی ہے۔ تعلیم زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور انسان کی شخصیت کو تشکیل دے کر اْس کو وقتاً فوقتاً نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل موجودہ دور کی نوجوان نسل صرف پڑھ رہی ہے تعلیم حاصل نہیں کر رہی ہے اور زندگی گزارنے کو زندگی جینا سمجھ کر جود کو مسلسل بیوقوف بنا رہی ہے۔

شعورکس چڑیا کا نام ہے اس کا دورِ جدید میں کم ہی لوگوں کو اندازہ ہے باقی دیگر افرادِ معاشرہ اللہ تعالیٰ کے انسانوں کے لیے مقررکردہ حدود کی خلاف ورزی کو باشعور ہونا سمجھ رہے ہیں۔ معاشرے کے معاشرے جدیدیت کے نام پر تباہ و برباد ہو رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ اثر وہاں کے نوجوان پر پڑرہا ہے۔ زمانۂ حال میں عروج سے زوال اور زوال سے پستی کا سفر بہت تیزی سے طے ہو رہا ہے، یہ لمحۂ فکریہ نہیں تو اورکیا ہے؟

آج کے عموماً نوجوان تعلیم کی جانب مائل نہیں ہیں، مشہور ہونے کا نشہ سب پر سوار ہے، تعلیم تو تعلیم ، تربیت کا فقدان بھی ہر جانب دیکھنے کو مل رہا ہے، بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان لحاظ تو قصہ ماضی بن کر رہ گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طاغوتی قوتیں جدیدیت کے نام پر بدلحاظی کا پرچارکر رہی ہیں، مسلمانوں کو اسلام سے منافی کاموں پر اْکسایا جارہا ہے۔ مغرب کا نوجوان پہلے ہی تعلیم سے دور تھا اب مشرقی معاشرے بھی اْن کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں۔ ایک مشہور کہاوت ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ دیکھا جائے تو آج کل ہم سب ہی کوے بنے ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہے ہیں نہیں ہو ہوتی ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہے اور کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بندرگاہوں کو ان کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہ کرنے، ٹیکس چوری، بدعنوانی، جعلی بلنگ، افغان تجارتی راہداری کے غلط استعمال اور ویلیو ایڈیشن کے فقدان کے باعث پاکستان کو میری ٹائم سیکٹر میں سالانہ پانچ ہزار ارب روپے (18 ارب ڈالرز) کا نقصان ہو رہا ہے۔

اعلیٰ سطح کی ٹاسک فورس کی مرتب کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک باخبر سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ پورٹس کو مکمل استعداد کیساتھ استعمال نہ کرنے سے سرکاری خزانے کو 3190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

میری ٹائیم شعبے میں ٹیکس چوری سے 1120ارب، جعلی بلنگ اور بدعنوانی کی وجہ سے 313 ارب، ٹرانس شپمنٹ (ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ یا پھر وسطی ایشیا یا چائنا جیسے مقامات پر سامان کی منتقلی کا عمل) سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے 70 ارب، گوداموں کی کمی اور ویلیو ایڈیشن کی قلت سے 196 ارب، جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم کے غلط استعمال سے سالانہ 60 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔

یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جا چکی ہے۔ اس میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ زبردست صلاحیتوں اور جیو اسٹریٹجک فوائد کے باوجود پاکستان اصل صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر سکا۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ایک بھی بندرگاہ دنیا کی بہترین 60 بندرگاہوں میں شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق، عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ 61 ویں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 146ویں نمبر پر ہے۔

گزشتہ 10برسوں میں پاکستان میں پورٹ سروسز کی طلب میں سالانہ 3.3؍ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ملک کی مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی کل صلاحیت (125 ملین ٹن) کا صرف 47؍ فیصد استعمال کر رہی ہے۔ یہ ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد سے زائد حصہ ہے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ٹیکس کی وصولی 660؍ سے 1470؍ ارب روپے تک کے درمیان رہی ہے۔

پورٹ قاسم اتھارٹی ملکی کارگو کا 35؍ فیصد سنبھالنے والی دوسری مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت کا کل 50؍ فیصد ہی استعمال کر رہی ہے جو 89؍ ملین ٹن ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں بندرگاہ سے جمع کیا جانے والا ٹیکس 690؍ ارب سے 1140؍ ارب روپے تک کے درمیان رہا ہے۔ پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی موجودہ صلاحیت 25؍ لاکھ ٹن ہے جو بندرگاہ کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یعنی 2045ء تک بڑھ کر 40؍ کروڑ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی اقتصادی لحاظ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیگر وجوہات کے علاوہ بحیرہ احمر کا بحران بھی پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کیلئے جیو اسٹریٹجک فائدہ سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات عالمی کمپنیاں مثلاً مرسک، ڈی پی ورلڈ اور ہچیسن پورٹس نے تسلیم کی ہے او ریہ کمپنیاں پاکستان کے ذریعے تجارت کرتے ہوئے اپنے مالی مفادات کو محفوظ بنانے کی خاطر سمندری اور متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 19؍ لاکھ تربیت یافتہ سیلرز (Seafarers) عالمی جہاز رانی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ماضی میں تربیت یافتہ سمندری سیلرز کی موزوں تعداد فراہم کرتا رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ تعداد کم ہوئی ہے۔

مکران اور سندھ کے ساحلوں کے ساتھ متنوع علاقہ جات میں بے پناہ صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹاسک فورس نے یہ بھی تجویز دی کہ شاندار ساحلی مقامات، تاریخی مقامات، آثار قدیمہ کے مقامات، قدیم مذہبی مقامات وغیرہ اگر درست انداز سے ترقی یافتہ ہوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔

یوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے دو لاکھ 40؍ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کے خصوصی اقتصادی زون کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جسے اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔

یہ زون سمندر کی تہہ میں موجود وسائل سے مالا مال ہے جن میں تیل، گیس، اور دیگر معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ان وسائل کی تلاش اور قومی معیشت میں انضمام کیلئے اہم انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ ایک سوچے سمجھے اور طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علم فلکیات ایک مسلمہ سائنس، مگر علم نجوم؟
  • دنیا کو دکھائیں گے پاکستان میں فیصلے صرف عوام ہی کریں گے، اسد قیصر
  • مغرب کی قائدانہ ناکامی
  • پردہ پوشی کا حکم
  • عامر خان غاروں کے دور کے انسان بن گئے؟ مداح حیران
  • غزہ اور مغربی کنارے میں ان پٹھا گولہ بارود زندگی کے لیے مسلسل خطرہ
  • پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں
  • غزہ سے عین جالوت سے لد تک
  • تباہ حال آشیانوں سے دل چھلنی