راولپنڈی  (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ یکم فروری 2025ء ) عمران خان کا کہنا ہے کہ 8 فروری کو آپ کا مینڈیٹ چرایا گیا، باہر نکل کر اپنے حق پر ڈالے گئے ننگے ڈاکے کیخلاف احتجاج کرنا ہو گا ۔ تفصیلات کے مطابق بانی تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز صحافیوں اور وکلاء سے اڈیالہ جیل میں گفتگو کرتے ہوئے کہ کہ "8 فروری کو آپ کا مینڈیٹ چرایا گیا لہذا اس روز کو بطور یوم سیاہ منانے کے لیے آپ سب کو نکلنا ہو گا۔

کسانوں، مزدوروں، وکلاء اور ملک کے ہر مکتبہ فکر سے منسلک افراد کو 8 فروری کو نکل کر اپنے حق پر ڈالے گئے ننگے ڈاکے کے خلاف احتجاج کرنا ہو گا کیونکہ غلام قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور غلامی سے نجات کے لیے جدوجہد ضروری ہوتی ہے ۔ آٹھ فروری کو اس قوم کا مینڈیٹ چرا کر ملک کو اندھیروں میں دھکیلا گیا۔

(جاری ہے)

پاکستانی قوم نے تمام تر مشکلات کے باوجود جوق در جوق نکل کر تحریک انصاف کے حق میں ووٹ ڈالا مگر آپ کے ووٹ کو پیروں تلے روند کر جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔

ملک میں جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اوورسیز پاکستانی جمہوریت کی بحالی تک ترسیلات زر میں کمی لا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں- جمہوریت بچانے کے لیے انصاف ناگزیر ہے، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کا ہمارا مطالبہ اسی لیے ہے تاکہ ان واقعات کے متاثرہ افراد اور خاندانوں کو انصاف مل سکے۔

انصاف دینے کے لیے اخلاقی جرأَت کا ہونا اہم ہے۔ جہاں اخلاقی قوت موجود ہو گی وہاں انصاف بھی ہو گا۔ ایک حقیقی لیڈر میں اخلاقی قوت موجود ہوتی ہے۔ جمہوریت کی بنیاد ہی اخلاقیات پر ہے۔ موجودہ حکومت اخلاقیات سے بالکل عاری ہے کیونکہ انھوں نے اپنے ہینڈلرز کے ساتھ مل کر تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ مار کر عوام کو ان کے نمائندگان چننے کے حق سے محروم کیا۔

اس ڈاکے کی پردہ پوشی کے لیے مسلسل جعلی اور نا مکمل پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کی جا رہی ہے تاکہ حق اور سچ سامنے نہ آئے اور ان کے جھوٹے اقتدار کو طول ملتا رہے۔ ملک میں آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں، آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے، پیکا جیسے قوانین منظور کیے گئے ہیں تاکہ کوئی ان کی فسطائیت کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے، الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا پر پابندی لگا کر ملک کو اربوں کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے پر کاٹ دئیے گئے ہیں، ججز پر دباؤ ڈالا گیا اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جا رہی ہے۔

پر امن سیاسی کارکنان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ خفیہ اداروں کا اصل کام سرحدوں کا تحفظ اور دہشتگردی سے بچاؤ ہے، اگر وہ پولیٹیکل انجنئیرنگ اور تحریک انصاف کو توڑنے میں ہی لگے رہیں گے تو سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟ بلوچستان میں دہشتگردی پنپ رہی ہے اور وہاں کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل نہیں نکال رہا۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں جب تک عوامی اعتماد پر مشتمل حکومت نہیں لائی جائے گی، استحکام ممکن نہیں ہے"۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا مینڈیٹ فروری کو نکل کر کے لیے

پڑھیں:

غزہ کی تباہی، مظالم، انصاف اور بحالی کے چیلنجز

فلسطینی نژاد ڈاکٹرخالدکے مسلسل اصرارکے بعد جب اس کے گھرپہنچاتوعجیب ایک روحانی اور رومانوی مناظرنے مجھے مسحورکردیا۔یوں محسوس ہواکہ کمرے کی تمام دیواروں پرشہداء کے متعلق قرآنی کیلی گرافی کی شاہکارتصاویرمیرامحاسبہ کررہی ہیں۔ خالد عرصہ درازسے لندن میں مقیم ہے۔10سال کے بعدپہلی مرتبہ اس کی اہلیہ اورتین بچے جونہی غزہ پہنچے تودو دن کے بعد غزہ،جنگ کے شعلوں میں بے دریغ انسانوں کی مقتل گاہ بن گیااورڈاکٹرخالدآج تنہابڑے تفاخر سے اپنے میزپرپڑی تصاویرالبم کے ہرصفحے پر مسکراتے شہداچہروں کا تعارف کراتے ہوئے کہتاہے کہ یہ سب اکٹھے اللہ کے ہاں رزق پارہے ہیں اورمیراانتظارکر رہے ہیں۔اپنے بڑے بیٹے اوربیٹی کی تصویرکودیکھ کراپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے اور کپکپاتے ہونٹوں سے گویا ہواکہ یہ میرے رب کی امانت تھے،اسی کولوٹادیاہے اوریقینا میری راہِ آخرت کے کانٹے ہٹانے کاکام کررہے ہیں ۔
غزہ میں حالیہ جنگ بندی کاذکراوروہاں کے مکینوں کی واپسی کاموضوع شروع ہواتودل تھامنامشکل ہوگیا۔خالدنے ٹی وی اسکرین پرکچھ تازہ ویڈیوکلپ چلانے شروع کردیئے جس میں غزہ کے ملبوں کے ڈھیروں پرلوگ دیوانہ واراپنوں کوڈھونڈرہے ہیں۔ کہیں کسی بچے کارنگ برنگاسکول بیگ پڑاہے،کہیں جوتا،کہیں لوہے کا گلدان ،کہیں بیڈیاکرسی کے ٹکڑے،کہیں ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، کہیں پانی کے گلاس کے ٹکڑے اورکہیں کٹے پھٹے کپڑے اورکہیں انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں۔ہاں تمام چیزیں گڈمڈ نظرآتی ہیں۔
یہ مٹی سے اٹی ہوئی اشیاغزہ میں اکثر ’’پیاروں کی نشانیوں‘‘ کے طورپردیکھی جارہی ہیں اورانہیں دیکھ کراندازہ لگایاجاتاہے کہ یہ چیزیں جن افرادکے زیر ِاستعمال تھیں ان کی لاشیں کہیں قریب ہی ملبے تلے دبی ہوسکتی ہیں۔قابض اسرائیلی فورسزکے رفح سے دفع ہونے کے بعدسینکڑوں لاشیں گھروں کے ملبے تلے دبی ہوئی ملی ہیں۔فلسطینی حکامِ صحت کااندازہ ہے کہ وہاں10 ہزارلوگ تاحال لاپتاہیں۔ایمرجنسی ٹیمیوں کواکثر کپڑے یادیگراشیاء دیکھ کرملبے تلے لاشوں کی موجودگی کاعلم ہوتاہے اورجب یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں توپھرلاپتا افراد کے رشتہ داروں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں یا پھر ملبے کے پاس خون اورانسانی باقیات کی بو سونگھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسرائیلی حکومت نے تمام خبررساں غیرملکی اداروں کے غزہ میں داخلے اورآزادانہ رپورٹنگ کرنے پرپابندی عائدکررکھی ہے۔ایسے میں لاپتاافراد کو ڈھونڈنے والے لوگوں کی کہانیاں دنیاتک پہنچانے کے لئے ڈاکٹرخالدسے زیادہ مستندسہاراکہاں سے لاؤں۔
غزہ اوراسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ کے بعدجومناظرسامنے آئے،وہ دل دہلادینے والے اور انسانی ضمیرکوجھنجھوڑنے والے ہیں۔جنگ کے دوران ہونے والے جانی ومالی نقصانات کے بعد،غزہ کے مکینوں کی اپنے گھروں کوواپسی کامنظرنہایت تکلیف دہ تھا۔ اجڑے ہوئے مکان،ملبے کے ڈھیر،اورپیاروں کی ناقابل شناخت لاشیں غزہ کے باسیوں کے لئے ایک ایسی حقیقت بن چکی ہیں جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
غزہ کی گلیاں اورمحلے اس وقت ایک کھنڈرکی صورت اختیارکرچکے ہیں۔جب لوگ جنگ بندی کے بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹے توانہیں ایسی تباہی کا سامناکرناپڑاجوانسانی تصور سے بالاترتھی۔کئی خاندان اپنے پیاروں کوکھوچکے ہیں،اورکچھ تواپنے پیاروں کی لاشوں کوبھی شناخت کرنے سے قاصرہیں۔ایسے مناظر، جہاں بھوکے کتوں کوانسانی لاشوں کو کھاتے دیکھاگیا، انسانیت کی بے بسی اورظلم کی انتہاکی عکاسی کرتے ہیں۔
مقامی افرادبہت محتاط اندازمیں ملبے ہٹا رہے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اس مٹی اورپتھروں کے ڈھیرکے نیچے وہ’’انسانیت کے پرخچے‘‘ڈھونڈرہے ہیں۔ اکثر انہیں ملبے کے نیچے سے ہڈیوں کے ڈھیرکے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے یہاں اکثرشہداکے جسم بھی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے تھے۔یہاں ملنے والی ہڈیوں اورکپڑوں کے ٹکڑوں کوکفن میں لپیٹ کررکھا جاتاہے اورایک سفیدریش بزرگ ان کفن نماتھیلوں پر ’’ناقابلِ شناخت‘‘کالیبل لگارہے ہیں۔
غزہ کے ایک رہائشی جنگ بندی کے بعدجب اپنے گھرلوٹے توانہیں اندرایک ڈھانچہ ملاجس کی کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ان کے خیال میں یہ لاش وہاں تقریباً 6مہینوں سے پڑی ہوئی تھی۔لاش کودیکھ کر پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہہ رہاہے کہ’’ہم انسان ہیں اورجذبات رکھتے ہیں۔میں آپ کوبتانہیں سکتاکہ یہ کتنابے بس کردینے والاالمیہ ہے۔یہ لاشیں خوفناک ہیں،ہم دہشت کواپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔میں قسم کھاکرکہتاہوں کہ یہ ایک دردناک احساس ہے اورمیں اس سب کومحسوس کرکے اس لئے روتاہوں کہ مجھے ان کے ساتھ گزرے ہوئے زندگی کے50سال یادآرہے ہیں اوریہ تمام نوخیزکلیاں بہارآنے سے پہلے مسل دی گئیں‘‘۔
رفح کے ہسپتالوں میں بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جواکثراپنے اہلخانہ کی لاشوں کی باقیات وصول کرنے آتے ہیں۔ جنوبی غزہ کے یورپین ہسپتال کے صحن میں کپڑوں کے تھیلوں میں ہڈیوں کا مجموعہ اورکپڑے رکھے ہوئے ہیں۔19سالہ عبدالسلام رفح کے رہائشی تھے۔ان کے چچاذکی کے مطابق وہ شبورا کے علاقے میں لاپتہ ہوئے تھے اوریہ وہ مقام تھا جہاں دورانِ جنگ زندہ بچنابہت مشکل تھا۔اسی لیے ہم عبدالسلام کووہاں ڈھونڈنے نہیں گئے کیونکہ پھروہاں سے ہم زندہ واپس نہیں آسکتے تھے۔ان کے سامنے پڑی ہڈیاں اورکپڑے لاپتہ ہونے والے عبدالسلام کے ہیں۔وہ یہاں ہسپتال کے ایک کارکن کے ساتھ کھڑے عبدالسلام کے بھائی کاانتظارکررہے ہیں۔ہمیں99 فیصدیقین ہے کہ یہ لاش عبدالسلام کی ہی ہے لیکن ہم پھربھی حتمی تصدیق کے لئے ان کے بھائی کے منتظرہیں کیونکہ وہ ان کے سب سے قریبی عزیزہیں اوروہ حتمی طورپربتاسکیں گے کہ یہ جوتے اور پینٹ ان کے بھائی کے ہیں‘‘۔
پھرجنوبی غزہ میں ہی واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں رہائش پزیرعبدالسلام کے بھائی ہسپتال پہنچ گئے۔ان کے موبائل میں اپنے لاپتہ بھائی کی ایک تصویرتھی جس میں ان کے جوتے بھی نظرآرہے تھے۔وہ وہاں موجودلاش کے سامنے جھک گئے اور اس پرسے پردہ ہٹایا۔انہوں نے کھوپڑی اورکپڑوں کوچھوااور پھر جوتوں کو دیکھا۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اوربھائی کے جوتوں کو بوسہ دیتے ہی ایک اورلاش کاشناختی عمل مکمل ہو چکا تھا۔یہاں ہی موجودایک اورخاندان کفن نماتھیلوں کوٹٹول رہاتھا۔ان میں ایک بوڑھی دادی تھیں،ایک بیٹاتھا،ایک بیٹی تھی اورایک شیرخواربچہ،باقی خاندان کے دودرجن افراکے آنکھوں کے سامنے پرخچے اڑتے ہوئے دیکھ کر ضعیف وناتواں دادی ان بچوں کے ساتھ کھڑی آسمان کی طرف منہ کرکے نجانے کیا باتیں کررہی تھی
اس گروہ میں بچے کوسب سے پیچھے رکھا گیاتھااوربزرگ خاتون اوران کاپوتاایک کفن نماتھیلے کو دیکھ رہے تھے۔وہ اس تھیلے کوکچھ لمحوں تک دیکھتے رہے اورپھردکھ میں ایک دوسرے کے گلے لگ کررونے لگے۔ اس کے بعدہسپتال کے کارکنان کی مدد سے یہ خاندان ایک لاش کی باقیات اپنے ساتھ لے گیا۔ان سب کی سسکیاں سنی جاسکتی تھیں لیکن وہ باآواز بلند نہیں رورہے تھے۔ 13سالہ آیاالدبیح غزہ کے شمال میں اپنے خاندان اوردیگر ہزاروں پناہ گزینوں کے ساتھ ایک سکول میں رہائش پذیرتھی۔وہ اپنے والدین کے نوبچوں میں سے ایک تھی۔اس کے خاندان کے مطابق غزہ میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں آیاسکول کی اوپری منزل پر بنے باتھ روم گئی اوراسے ایک اسرائیلی سنائپرنے سینے پرگولی ماردی۔ تاہم اقوامِ متحدہ کے دفتربرائے انسانی حقوق کے مطابق جنگ کے دوران’’اسرائیلی فوج کی جانب سے گنجان آبادعلاقوں میں شدیدفائرنگ کی جاتی تھی جس کے نتیجے میں یہاں غیر قانونی ہلاکتیں ہوتی تھی جس میں غیرمسلح راہگیربھی شامل ہوتے تھے‘‘۔
آیاکے خاندان نے اسے اسکول کے پاس ہی دفنادیا۔اس کی43سالہ والدہ لیناالدبیح نے اسے ایک کمبل میں لپیٹ دیاتھاتاکہ اگراس کی قبرکے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑکرے تواس کی لاش’’بارش اورسورج کی روشنی سے محفوظ رہ سکے‘‘۔جب اسرائیلی فوج نے سکول کاکنٹرول سنبھالاتولیناالدبیع وہاں سے غزہ کے جنوبی علاقے میں منتقل ہوگئیں۔ان کے پاس اپنی بیٹی کی قبر سے دورجانے کے علاوہ کوئی اورراستہ بھی نہیں تھا، تاہم ان کویہ امیدتھی کہ وہ بعد میں یہاں دوبارہ آکراپنی بیٹی کی باقیات کودوبارہ ڈھونڈیں گی اور باقاعدہ ان کے کفن دفن کاانتظام کریں گی۔لینا الدبیع اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آیاایک بہت مہربان لڑکی تھی،ہرکوئی اس سے محبت کرتاتھااور وہ سب سے محبت کرتی تھی۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • 8 فروری کو احتجاج کا اعلان: رانا ثنااللہ کی پی ٹی آئی کو وارننگ
  • حیدرآباد: پیکا قانون کیخلاف حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ کے ارکان احتجاج کررہے ہیں
  • کندھکوٹ، جماعت اسلامی کے عمائدین پیکاقانون کیخلاف احتجاج کررہے ہیں
  • خیرپور ناتھن شاہ کے رہائشی کا با اثر افراد اور پولیس کیخلاف احتجاج
  • گارڈن سے لاپتا ہونے والے بچوں کے لواحقین اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے سندھ اسمبلی کے باہر مظاہرہ کررہے ہیں
  • کراچی؛ 18 روز قبل لاپتا ہونیوالے 2 بچوں کی عدم بازیابی پر اہلخانہ کا اسمبلی کے باہر احتجاج
  • غزہ کی تباہی، مظالم، انصاف اور بحالی کے چیلنجز
  • راولپنڈی: تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگوکررہی ہیں
  • ۔8فروری کو عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا،مسرت چیمہ