صوبوں سے ججز کو ٹرانسفر کرنے کا مقصد ایک جج کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بنانا ہے
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ یکم فروری 2025ء ) مرکزی سیاسی رہنماء مصطفی نواز کھوکھرنے کہا ہے کہ صوبوں سے ججز کو ٹرانسفر کرنے کا مقصد ایک جج کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بنانا ہے،رولز کے مطابق چیف جسٹس تین سینئر ترین ججز میں تعینات کیا جائے گا۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ اقتدارختم نہیں ہونا، دس پندرہ سالوں کے پلان بنائے جاتے ہیں، اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے۔
اس طرح کی تیاریاں پہلے بھی تاریخ میں کی جاتی رہیں ، میں اب توقع بھی نہیں رکھتا کہ سپریم کورٹ یا آئینی بنچ انصاف دے گا، وکلاء کو کردار ادا کرنا ہوگا، وکلاء اگر باہر سے چیف جسٹس کو نہیں روک سکتے، تو پھر دوماہ بعد باقی صوبوں میں ہائیکورٹس میں ابھی ایسا ہوگا۔(جاری ہے)
ججز نے جو خط لکھا ہے اس میں ایک لفظ آئین کے ساتھ فراڈ بھی لکھا گیا، ان کا مقصد صوبوں سے ججز کو ٹرانسفر کرنے کا مقصد ایک جج کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بھی تعینات کرنا ہے۔
رولز کے مطابق چیف جسٹس تین سینئر ترین ججز میں تعینات کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت نے پہلا قانون الیکشن قانون کو تبدیل کیا، الیکشن پٹیشن کو عدلیہ سے لے کر ٹربیونل کو دیا گیا، اس کے تحت ٹربیونل بنائے گئے،پھر عدلیہ کو فتح کرنے کیلئے 26ویں ترمیم کی گئی، میڈیا کو فتح کرنے کیلئے پیکا قوانین لے آئے۔سیاسی انتقام کی لہرمرضی کی عدلیہ کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ ایک جماعت کو جتنی سزائیں اور ٹرائل ہوئے وہ اعلیٰ عدلیہ کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ حکومت کا مقصد یہ ہے ہم جیسے مرضی انتقامی کاروائیاں کریں، لیکن کوئی جج ہمارے خلاف کھڑا نہ ہو اور کوئی عدالتی فیصلہ ہمارے خلاف نہ آئے۔ یاد رہے میڈیا کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ قانون نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے کیلئے تین ججز کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، نوٹیفکیشن کے تحت تین سینئر ججزکوسندھ ، پنجاب اور بلوچستان سے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کردیا گیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کا سپریم کورٹ میں ایلیویٹ ہونے کا امکان ہے، جب کہ ان کی جگہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنائے جانے کا امکان ہے۔ اسی طرح جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کیا گیا ہے، جسٹس محمد آصف کا بلوچستان ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ کیا گیا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا مقصد
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی کیس: جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی سے متعلق اہم کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو بھی کام سے روکنے کی استدعا قبول نہیں کی۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز کو نوٹسز جاری کر دیے، جبکہ اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت کی ہدایت کی گئی ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس میں ہمارے سامنے سات درخواستیں ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل ادریس اشرف نے عدالت کو بتایا کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور راجہ مقسط کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور ان کی جانب سے بنیادی حقوق کے معاملے پر درخواست دائر کی گئی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ججز کی درخواست سننا بہتر ہوگا، رولز کے مطابق بھی سینئر وکیل کو پہلے سنا جانا چاہیے۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے وکلا منیر اے ملک اور صلاح الدین روسٹرم پر آگئے، اور منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں؛ ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سینیارٹی کیا ہوگی؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سول سروس ملازمین کے سینیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سینیارٹی پرانی ہائیکورٹ والی چلے گی یا تبادلے کے بعد نئی ہائیکورٹ سے سینیارٹی شروع ہوگی؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سینیارٹی میں تبدیلی پر؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج کا تبادلہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوا، وہ پڑھ دیں۔ منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔ عدالت نے کہا کہ آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو، اس کی رضامندی ضروری ہے، اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازم ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ جج کا تبادلہ عارضی طور پر ہو سکتا ہے، ہمارا اعتراض یہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا ہوتا، وہاں تو عارضی یا مستقل کا ذکر ہی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر جج کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔
منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ صدر مملکت کے پاس ججز تبادلوں کا لامحدود اختیار نہیں، اور ججز کی تقرری کے آرٹیکل 175 اے کے ساتھ ملا کر اس معاملے کو پڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق تمام ججز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ججز کے تبادلوں میں اضافی مراعات ہوتیں تو اعتراض بنتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر صدر خود سے ججز کے تبادلے کرے تو سوال اٹھے گا، لیکن چیف جسٹس کی سفارش پر تبادلے آئین کے مطابق ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ اسی طرح جسٹس خادم حسین اور جسٹس محمد آصف کو بھی کام سے روکنے کی استدعا مسترد کی گئی۔
عدالت نے متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔
Post Views: 1