جگر گوشہ بتول کی ولادت کے موقع پر گلگت کے پہاڑوں پر چراغاں
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
مقامی چراغاں کمیٹیوں کی جانب سے گلگت شہر کے دونوں اطراف میں موجود پہاڑوں پر چراغاں کیا گیا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کا جشن منایا گیا۔ دوسری طرف گلگت شہر کی گلی، کوچوں کو بھی سجایا گیا ہے جبکہ امام بارگاہوں پر جشن ولادت کی محافل بھی جاری ہیں۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین کے سلسلے میں گلگت میں پہاڑوں پر چراغاں
اسلام ٹائمز۔ جشن ولادت باسعادت جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام کے موقع پر گلگت کے پہاڑوں کو خوبصورت چراغاں سے سجایا گیا۔ مقامی چراغاں کمیٹیوں کی جانب سے گلگت شہر کے دونوں اطراف میں موجود پہاڑوں پر چراغاں کیا گیا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کا جشن منایا گیا۔ دوسری طرف گلگت شہر کی گلی کوچوں کو بھی سجایا گیا ہے جبکہ امام بارگاہوں میں جشن ولادت کی محافل بھی جاری ہیں۔.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت شہر
پڑھیں:
جنت المعلیٰ کی پُر نور فضا
حرمین شریفین کی دوسری بار حاضری کا موقع ملا تو 15 میں سے 5 دن مکہ مکرمہ میں حکم تھا باقی دن سرکارؐ کے قدموں میں تقدیر نے لکھے تھے۔ ارادہ اور حسرت تھی کہ اقوام عالم اور دونوں جہانوں کی تاقیامت خاتون اول ام المومنین محسنہ امت جناب حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی مرقد اقدس پر حاضری دے سکوں۔ ایک ٹیکسی والے سے پوچھا کہ حضرت خدیجہؓ کہاں آرام فرما ہیں، اس نے بتایا ادھر پاس ہی ایک قبرستان ہے جسے المعلیٰ کہتے ہیں مگر مجھے پکا پتا نہیں۔ میں نے ایک دوست سے فون کر کے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے رہنمائی فرمائی، میں وہیں سے جنت المعلیٰ چلا گیا۔ سفید رنگ کی اینٹیں دیواریں قبریں ایسا اجالا کہ وہاں پر موجود انوارات سے آنکھ ہٹانے کو دل نہ چاہے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں اندر جانے کی اجازت نہیں ہے؟ جواب ملا کہ جب کوئی جنازہ آئے تو پھر جایا جا سکتا ہے اور جن کے مرحومین ہیں وہ فلاں وقت مقررہ پر آ سکتے ہیں اب اندر جانے کے لیے کسی جنازے کا انتظار تو نہیں ہو سکتا تھا مگر وقت مقررہ کی بات الگ تھی۔ بہرحال پہلی بار میں لوہے کی بنی ہوئی گرل جو قبرستان کا احاطہ کیے ہوئے ہے کے ساتھ جناب ام المومنینؓ کی قبر کے قریب والے حصہ پر کھڑا ہوا، درود سلام کے بعد ان سے ان کے نواسوں اور خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم اور کربلا کے شہداء کا پُرسا دیا کہ ام المومنینؓ آپؓ نے ہم بھوکوں کو کھانا دیا۔ ہمارے آقاؐ آپؓ سے بے پناہ محبت اور احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔ آپؓ 25 سالہ خوبرو نوجوان محمد بن عبداللہﷺ کی بیوی بھی تھیں اور پیغمبر اسلام کی بیوی بھی! آپؓ مکہ کی مالدار ترین خاتون تھیں آپؓ کی پارسائی اور دولت کی شہرت چار سُو تھی۔ آپؓ نے آقا کریمؐ سے پیار کیا ان کا انتظار کیا۔ اُن کی دعوت پر ایمان لائیں اور اسلام کے راستے میں سب کچھ مال و زر قربان کر دیا۔ آپؓ نے شعب ابی طالب (شعب بن ہاشم) میں تین
سال گزارے ہم بھوکوں، ننگوں کو پناہ دی ہمارے لیے آپؓ نے اذیتیں برداشت کیں۔ جان مال ارمان سب کچھ قربان کر دیا۔ آپؓ کی رحلت پر سرکارؐ نے صحابہ اجمعین سے بیعت لی کہ یہ سال غم کا سال ہے۔ آپؓ سے جدائی کا صدمہ سرکار کریمؐ کو دل گرفتہ کر گیا۔ آپؓ حسنین کریمین اور جناب حضرت زینب سلام اللہ علیہان کی نانی ہیں جناب سیّدہ طاہرہ طیبہ حضرت فاطمۃ الزہرہ کی والدہ ہیں مولا علیؓ کی ساس ہیں جبریل آپؓ سے واقف ہیں آقاؐ کے ساتھیوں اور غلاموں کی آپؓ ڈھارس تھیں آپؓ کی آل کے ساتھ کربلا میں جو ہوا کم از کم میں تو اس بات پر کف افسوس ملتا ہوں کہ گر دنیا میں آنا ہی تھا تو آپؓ کے وقت میں سرکارؐ کے قدموں پر قربان ہوا ہوتا، گر اس وقت نہ ہوا تو چلو کربلا میں آپؓ کی آل کے کام آتا ناحق قتل ہونے والا میں امام علیہ السلام کا پہلا ادنیٰ غلام ہوتا۔ میں پُرسا دیتا ہوں اور نادم ہوں کہ امت کے ساتھ آپؓ کے احسان کیا اور اس کا بدلہ کیا چکایا گیا۔ میں مدینہ جاؤں گا میری آقا کریمؐ سے سفارش کیجیے گا میں نے ام المومنینؓ سے بہت باتیں کیں کہ اپنی روح اور چشم تصور کا کیا کروں اس اجلے قبرستان میں کھڑے کھڑے صدیاں لمحوں میں سمٹ گئیں اور میں اپنے آقا کریمؐ اور صحابہ اجمعین کے درمیان ہوں بلا کا سناٹا ہے۔ آنسو ہیں، افسردگی، سسکیاں، میرے آقاؐ اداس ہیں تب بھی یہی آسمان، سورج، چاند، ستارے موسم تھے اب بھی یہی ہیں مگر اب میرے آقاؐ کی سانسوں کی مہک اس فضا میں نہیں۔ میری روح غمگین مگر دل مطمئن تھا نہ جانے کیوں میری ہچکی بندھ رہی تھی۔
مجھے مولا علیؓ کے والد اور آقاؐ کے شفیق چچا حضرت عبدالمطلب کے بیٹے جناب حضرت عبداللہ سلام اللہ علیہ کے بھائی جناب حضرت ابو طالب کی مرقد پر جانا تھا معلوم ہوا کہ حضرت ابو طالب بھی جنت المعلیٰ میں قیام فرما ہیں لہٰذا میں دوبارہ اگلے روز حضرت عثمانؓ کے خرید کردہ کنواں جو مسلمانوں کے لیے وقف تھا کی زیارت کرنے کے بعد دوبارہ جنت المعلیٰ حاضری کے لیے چلا گیا۔ ام المومنینؓ کو سلام کیا حاضری دی اور پھر وہی کیفیت اور ماحول آنکھوں کے سامنے تھا کہ سرکارؐ کی یتیمی میں کفار کے ساتھ دشمنی کے بھرپور ایام میں شعب ابی طالب میں قید رہنے والے جناب حضرت ابو طالب کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ حاضری دی وہی احساسات، جذبات، لمس و تصورات تھے جو ام المومنینؓ کو سلام کرتے وقت تھے، علمی اور تاریخی اعتبار سے حضرت ابو طالب مظلوم ترین شخصیت ہیں۔ آقا کریمؐ کو جناب حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ سے شادی کی اجازت اور نکاح بلکہ اس سے پہلے کاروبار کی غرض سے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے ملاقات کرانے والے، کفار کے سامنے سرکارؐ کے لیے دیوار بننے والے، کفار سے مکالمہ کرنے والے، شعب ابی طالب کی سختیاں برداشت کرنے والے، جنا ب حضرت ابو طالب سلام اللہ علیہ کی مرقد پر حاضری دے کر مجھے ایسا سکون محسوس ہوا جیسے میں نے ان کے غم اور جناب حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے غم میں سرکارؐ کے ہاتھ پر عام الحزن کی بیعت کرنے والے غمزدہ لوگوں اور ارواح کو پُرسا دے دیا ہو جیسے میں ان محافل کے شرکاء میں شامل ہو چکا ہوں۔
اتفاق سے ایک جنازہ آیا جس کے ہمراہ مجھے بھی جنت المعلیٰ میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ میں نے ام المومنین جناب حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور حضرت ابو طالب سلام اللہ علیہ کی قبور پر حاضری دی۔ میں نے سب سے نظر بچا کر ام المومنینؓ کی لحد مبارک سے مٹی اپنی مٹھی میں لے لی جو ایک عرصہ تک میرے پاس رہی۔ ایک دن ایک انتہائی پارسا، نورانی اور روحانی ہستی سے ملاقات ہوئی تو میرے دل میں خیال آیا کہ مجھ ایسا گناہگار اس قابل نہیں کہ اس متبرک مٹی کو اپنے پاس رکھ سکے لہٰذا وہ مٹی ان کو تحفتاً دے دی۔