نوکری پیشہ لوگوں کو اس وقت مدد کی ضرورت ہے، مفتاح اسماعیل
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام آباد:سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اس وقت نوکری پیشہ لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جس ملک میں تنخواہ دار طبقے سے 40 فیصد ٹیکس لیا جارہا ہے وہاں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکس چھوٹ دینے کی کوئی منطق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس سے متعلق حکومتی فیصلے پر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو بھی اعتراض ہوگا۔
مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ ملک میں 1 لاکھ روپے آمدن والوں پر ٹیکس دُگنا کردیا گیا ہے، اس وقت نوکری پیشہ لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹیکس کا بوجھ دنیا بھر سے پاکستان میں زیادہ ہے، 2 لاکھ روپے آمدن والے سے 38 فیصد ٹیکس لیں تو وہ کیا خاک گھر بنائے گا۔
سابق وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ بڑے پراپرٹی ڈیلرز کو ٹیکس چھوٹ دیا جارہا ہے جس کی کوئی منطق نہیں، حکومت کو نوکری پیشہ افراد پر ٹیکس کم کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو چلنے دیا جانا چاہیے، کوشش ہونی چاہیے پلاٹس کی قیمت کم ہو، غریب کے دسترس سے گھر خریدنا دور ہوتا جارہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 10 کروڑ پاکستانی خط غربت کے نیچے ہیں، نوکریاں پیدا کرنا ضروری ہے، نجکاری اور متعدد وزارتیں بند کرنے کا کہا گیا تھا لیکن بند نہیں کیا گیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مفتاح اسماعیل نے نوکری پیشہ نے کہا کہ
پڑھیں:
بات چیت اور مصالحت کے بعد ہی کورٹ کا رخ کرنا چاہیے،جسٹس ،منصور
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ بات چیت اور مصالحت کے بعد ہی کورٹ کا رخ کرنا چاہیے۔ کراچی میں آئی بی اے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں 86 فیصد کیسز ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہیں اور ضلعی عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں، ہر کیس کورٹ میں لے جانے کی کوشش کے بجائے مصالحت اختیار
کرنی چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیسز میں سست روی کے تناظر میں معاملات کے حل کے لیے دیگر ذریعے استعمال ہونے چاہئیں، انصاف تک رسائی کا مطلب مسئلے کا حل سمجھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکم امتناع اور ضمانت سے معاملات حل نہیں ہوں گے، ضلعی عدالتوں میں 24 لاکھ کیسز زیرِ التوا ہیں، ہمارے پاس ججوں کی تعداد محدود ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا ہے کہ پاکستان اب تک سنگل ٹریک پر ہے، ہر تنازع عدالت میں جاتا ہے تاہم معاملات ثالثی سے حل کرنے کوشش کرنی چاہیے، مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا ہے کہ عوامی سطح پر آگاہی ضروری ہے اور پراسیکیوشن کورٹس میں 13 سے 14 فیصد مقدمات ہیں، عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں کے لیے 90 ججز ہیں جبکہ ہمارے پاس ججز کم ہیں اور یہ تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔