نیشنل ایکشن پلان کے بعد غلطیاں ہوئیں، صوبے میں حکومتی رٹ نہیں، ایمل ولی
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد غلطیاں ہوئیں، خیبر پختونخوا میں حکومت کی رٹ نہیں۔
پشاور میں خطاب میں ایمل ولی خان نے کہا کہ 50 فیصد سے زائد پختون بےگھر ہیں، یہاں ایسے لوگوں کو لایا گیا جنہوں نے صوبے کے امن کو تباہ کیا۔
فیصل کریم کنڈی، ایمل ولی خیبر پختونخوا کی صورتحال پر یک زبانگورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ ایمل ولی خان صوبے کی حالت زار پر یک زبان ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے 40 ہزار دہشت گردوں کو آباد کیا، پختونخوا میں حکومت کی رٹ نہیں، نیشنل ایکشن پلان کے بعد غلطیاں ہوئی ہیں۔
اے این پی صدر نے مزید کہا کہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں، خیبر پختونخوا کے پاس تجارت کا راستہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ باجوڑ سے لیکر چمن تک تجارت کے راستے بند ہیں، ریاست سے اپیل ہے کہ تجارت کے تمام راستے کھولےجائیں۔
ہم صوبوں میں آئینی عدالت بنانے کے مخالف ہیں، ایمل ولیعوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کے سربراہ ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ہم نے صوبوں میں آئینی عدالت بنانے کی مخالفت کی ہے۔
ایمل ولی خان نے یہ بھی کہا کہ ہم تب تک لڑیں گے جب تک جمہوریت بحال نہ ہو، پوچھتا ہوں کیا آپ ہمیں ’مارنے‘ سے ڈراؤ گے؟
اے این پی صدر نے کہا کہ ایک دن آپ کو آئینی دائرہ اختیار کے اندر کام پر مجبور کریں گے، ہم آخری دم تک صوبائی خودمختیاری کے لئے لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ کی بھرپور مخالفت کرتا ہوں، تنقید سننے کی ہمت ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ایمل ولی خان نے اے این پی نے کہا کہ
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کا نیا طوفان
صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ سال 2022 اور 2023 میں بھی یہی صورتحال پیدا ہو گئی تھی، مگر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے منصب سنبھالنے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے سخت کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں بھتہ خوری کے واقعات میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔ تاہم اب ایک بار پھر یہ مافیا متحرک ہو چکا ہے اور کاروباری طبقہ شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان بھتہ خوروں کو کئی حلقوں سے سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس میں سرحد پار سے دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی، مقامی بدمعاش گروہ، اور بعض ضلعی انتظامیہ و پولیس کے اہلکار شامل ہوتے ہیں، جو ان عناصر کو غیر محسوس طریقے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
بھتہ خوروں کی سرعام کاروائیوں کے باعث کاروباری طبقہ غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ صنعتکار، ڈاکٹر، وکلا، اسکولوں اور ہسپتالوں کے مالکان، فیکٹری اونرز اور رئیل اسٹیٹ کے بڑے کھلاڑی سب سے زیادہ نشانے پر ہیں۔ جو لوگ بھتہ دینے سے انکار کرتے ہیں، انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، ان کے گھروں پر حملے کیے جاتے ہیں، اور بعض صورتوں میں انہیں اغوا بھی کرلیا جاتا ہے۔
ایسی صورتحال میں، کئی سرمایہ کار دبئی اور دیگر ممالک میں اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کے دعوے کر رہی ہے، مگر دوسری جانب بھتہ خوری جیسے عوامل کی وجہ سے ملکی سرمایہ تیزی سے باہر جا رہا ہے جو معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔پشاور جو صوبے کا کاروباری حب ہے اس وقت خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کے سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شامل ہے۔ زیادہ تر وارداتوں میں افغانستان کے فون نمبرز استعمال ہو رہے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے تانے بانے سرحد پار موجود عناصر سے ملتے ہیں۔ ماضی میں پشاور میں ایک ٹشو پیپر فیکٹری کے مالک سے بھتہ مانگا گیا، مگر انکار پر مسلح افراد نے فیکٹری کو آگ لگا دی جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا۔ افغانستان کے ایک بڑے سرمایہ کار گروپ ’’الکوزی‘‘ کے ذمہ داران کو بھتہ نہ دینے پر پشاور سے اغوا کیا جا چکا ہے جو آخری اطلاعات تک ابھی تک اغوا کاروں کی حراست میں ہیں۔ پچھلے دو ماہ میں خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کے 70 سے زائد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، اور کوہاٹ سر فہرست ہیں۔ بھتہ نہ دینے والوں کے گھروں کے باہر دستی بم دھماکے کیے جارہے ہیں تاکہ خوف و ہراس پھیلایا جا سکے۔بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے واقعات نہ صرف مقامی کاروباری برادری کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ پورے صوبے کی معیشت پر بھی منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو مزید سرمایہ کار خیبر پختونخوا سے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ ملک میں پہلے ہی معاشی بحران ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں۔ ایسے میں بھتہ خوری کی لہر معیشت کو مزید کمزور کر رہی ہے۔س سیکورٹی ادارے اور پولیس اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں مگر یہ ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت مل کر ایک جامع پالیسی تشکیل دیں جس کے تحت بھتہ خوروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔
خیبر پختونخوا کے نئے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید کے لیے بھتہ خوری سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کو کس حد تک قابو میں لا سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پشاور میں ایک اہم کارروائی کے دوران پولیس نے ایک خطرناک بھتہ خور گروہ کے سرغنہ محمد عبداللہ کو گرفتار کیا، جو خود کو کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا رکن ظاہر کرتا ہے۔ یہ ملزم پشاور کی ایک نامی گرامی کاروباری شخصیت ذوالفقار علی سے ایک کروڑ روپے بھتہ طلب کر رہا تھا۔ بھتہ نہ دینے پر اس نے ذوالفقار علی کے گھر پر فائرنگ کر دی جس کی زد میں قریب موجود ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کا گھر بھی آیا۔
اس واقعے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور عبداللہ کو گرفتار کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں اس کی ضمانت منسوخ کر دی گئی اور اسے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔بھتہ خوروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پولیس اور سیکورٹی ادارے بھرپور حکمت عملی کے ساتھ ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں تو انہیں جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی سطح پر موجود بدمعاش گروہوں کے خلاف بھی کریک ڈائون کیا جائے، جو بھتہ خوری کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر ان پر ہاتھ نہ ڈالا گیا تو یہ سلسلہ مزید خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ، ان جرائم کے خلاف سخت قوانین بنانا اور ان پر فوری عمل درآمد کرنا بھی ضروری ہے۔ انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت بھتہ خوروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ پولیس اور حساس اداروں کو مشترکہ آپریشنز کر کے ان گروہوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔
پاکستان کو افغان حکومت سے سفارتی سطح پر بھی یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تاکہ افغان سرزمین سے بھتہ خوری کے لیے استعمال ہونے والی کالز اور سہولت کاری کو روکا جا سکے۔ جو پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکار بھتہ خوروں کی مدد کر رہے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ جو لوگ نشانے پر ہیں، انہیں پولیس اور رینجرز کی خصوصی سیکیورٹی دی جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کا دوبارہ عروج پر پہنچ جانا ایک خطرناک صورتحال ہے۔ یہ مسئلہ صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں بھی بھتہ خوری کے چند کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔