اسلام ٹائمز: بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ تحریر: سید تنویر حیدر
یوں تو امام خمینیؒ کی زندگی کا تمام سفر ہی غیر معمولی اور بے نظیر ہے لیکن پیرس سے تہران تک کا ان کا سفر ایسا تھا جس پر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ امام خمینیؒ یکم فروری 1979 کو اپنی طویل جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے طہران کی طرف عازم سفر ہوئے۔ فرانس سے نکلتے وقت امام خمینیؒ رات کو ”خیابان نوفل لوشاتو“ گئے اور وہاں کے لوگوں کو خدا حافظ کہا اور ان کی زحمات پر ان سے معذرت چاہی۔ آپ نے فرانس کی عوام کے نام بھی ایک پیغام چھوڑا جس میں ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا۔ اسی دوران ایک تنظیم نے ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ کے دفتر سے رابطہ کرکے خبرداد کیا کہ اگر آیت اللہ نے پیرس سے تہران جانے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو تباہ کر دیا جائے گا۔ ایئر فرانس، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امام اور ان کے رفقاء کو تہران منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ تاہم کچھ ایرانیوں نے ایئر فرانس کے پورے طیارے کو کرائے پر لے لیا اور اس کا بیمہ بھی کروا لیا۔ صبح 5:30 بجے ایئر فرانس کے جمبو جیٹ طیارے 747 نے ٹیک آف کیا۔ تقریباً 500 کے قریب پولیس اور اسپیشل فورسز نے ”چارلس ڈی گال ایئر پورٹ“ اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں کی حفاظت کی۔
بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ میں نے سفر کے دوران امام خمینیؒ کی ویڈیو بھی بنائی۔ امام فرسٹ کلاس میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہمیں نظرانداز کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے امام خمینیؒ سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے کے بعد واپس اپنے وطن جاتے ہوئے کیا محسوس کر رہے؟ امام خمینی نے اس کے جواب میں بس اتنا کہا ”ھیچ“ یعنی کچھ بھی نہیں۔
ایرانی فضائیہ ہم پر حملہ کرنے سے تو باز رہی البتہ ہمارا جہاز تہران کے ہوائی اڈے کے اوپر مسلسل چکر لگاتا رہا۔ نیچے موجود حکام کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے جو طول پکڑ گئے۔ جہاز کے دائرے کی شکل میں گھومنے کی وجہ سے ہمارے دل ڈوبے جا رہے تھے۔ بالآخر ہمارا جہاز زمین پر اتر گیا۔ آیت اللہ کے استقبال کے لیے جو ہجوم اکھٹا ہوا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ اس سفر کی منصوبہ بندی فرانس کے ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جہاں ٹریفک کا جام ہونا اور برف باری کا ہونا بھی ایک خبر بن جاتا ہے۔“ امام خمینیؒ کا طیارہ تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ 9:33 پر تہران کے ہوائی اڈے پر اترا۔ تہران کے ہوائے اڈے سے بہشت زھراء تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم امام خمینیؒ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ عوام نے امام کی آمد پر سڑکوں پر جھاڑو دیا ہوا تھا اور انہیں پانی سے دھویا ہوا تھا۔ امام کے راستے کو رنگ برنگے پھولوں سے کئی کلو میٹر تک سجایا گیا تھا۔
امام خمینیؒ کے ایئر پورٹ ہال میں داخل ہوتے ہی ایئر پورٹ اللہ اکبر کی صدا سے لرز اٹھا۔ طلباء کے ایک گروہ نے ”خمینی ای امام“ کا ترانہ گاتے ہوئے امام کی آمد کے جوش و خروش کو سامعین کے آنسووں سے جوڑ دیا۔ امام نے ہوائی اڈے پر آنے والی عوام کا شکریہ ادا کیا اور شاہ کی روانگی اور اپنی آمد کو فتح کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔ شاہ پور بختیار کی جانب سے وعدے کے باوجود امام کی آمد کی تقریب کی براہ راست نشریات کو چند منٹوں کے بعد ہی منقطع کر دیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی دباؤ پر گورنر نے تین دن کے لیے مارچ اور مظاہروں کی اجازت دے دی۔ شاہی کونسل کے دوسرے رکن ڈاکٹر علی آبادی کے مستعفی ہونے کی خبر شائع ہوئی۔ یونیورسٹی میں دھرنا دیئے ہوئے علماء نے امام کی آمد کے بعد اپنا حتمی بیان جاری کرکے اپنا دھرنا ختم کردیا۔
توقع سے زیادہ استقبال کو دیکھتے ہوئے آیت اللہ طالقانی اور آیت اللہ بہشتی نے امام خمینیؒ کو بہشت زھرا کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا۔ امام نے اطمینان سے پوچھا۔” گاڑی کہاں ہے؟ میں نے بہشت زھرا جانے کا وعدہ کیا ہے۔“ امام کے سفر کے لیے بلیزر کار چند دن قبل ہی تیار کی گئی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اور اور پچھلی سیٹ کے درمیان بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا تھا۔ امام کو جب اس کا علم ہوا تو وہ اگلی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔ استقبال کرنے والی کمیٹی نے امام کی حفاظت کے لیے کار کے علاوہ متعدد موٹر سائیکل سوار بھی تیار کئے ہوئے تھے۔ اس گروہ کے سربراہ شہید محمد بروجردی کو بعد میں ”مسیح کردستان“ اور کردستان کا بہادر کمانڈر کا لقب دیا گیا۔ بروجردی اور گروپ کے باقی ارکان رش میں پھنس گئے۔ صرف محمد رضا طالقانی جو بلیرز پر بیٹھے تھے، گاڑی کے ساتھ جا سکے۔ گاڑی ”خیابان رجائی“ کے راستے میں اچانک رک گئی۔ امام نے گاڑی سے اترنے اور بہشت زھراء تک کا باقی رستہ پیدل طے کرنے پر اصرار کیا۔
آخر ہیلی کاپٹر آگیا اور امام اس میں سوار ہوئے۔ امام خمینیؒ دوپہر دو بجے بہشت زھرا کے قطعہء 17 پر پہنچے جہاں 17 شہریور کے شہداء کو دفن کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے قیام کے مقام پر قرآن خوانی کی گئی۔ اس کے بعد ترانہ ”برخیزید ای شہیدان راہ خدا“ گایا گیا۔ بعد ازاں امام کی آواز فضا میں گونجی جس نے حق و حقیقت کے مشتاقان اور شیفتگان کی قلب و روح کو سرشار کر دیا۔ امام کا خطاب 3:30 پر ختم ہوا۔ امام خمینیؒ کو لینے کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹر نے تین بار اترنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے سبب ناکام رہا۔ حاج احمد آغا اور جناب ناطق نوری امام کو تھامے ہوئے ایک آئل کمپنی کی ایمبولینس تک لے گئے۔ ایمبولینس قم کی جانب محو سفر ہوئی۔ ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر ایک مقام پر اترا اور امام اس میں سوار ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ ہیلی کاپٹر کو اپنی مرضی کے مقام پر اتارنا چاہتا تھا لیکن اسے ”امام خمینیؒ ہسپتال“ جو انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی کے نام سے موسوم تھا، میں اترنے کا مشورہ دیا گیا۔ چنانچہ امام کا ہیلی کاپٹر اس ہسپتال کے احاطے میں اترا۔
امام کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ امام بہشت زھرا سے ”مدرسہء رفاہ“ جائیں گے لیکن امام نے اپنی بھتیجی، آقای پسندیدہ کی بیٹی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ امام رات دس بجے تک وہاں رہے تاکہ راستہ ذرا پر سکون ہو جائے۔ ادھر مدرسہء رفاہ میں سب پریشان تھے۔ کسی کو امام کے بارے میں خبر نہ تھی۔ آخر رات کے آخری پہر کسی نے خبر دی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہے۔ دروازہ بند تھا۔ دروازہ کھلا اور ” امام آگئے “۔ امام مدرسے میں داخل ہونے کے بعد مدرسے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھے اور سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد امام خمینیؒ اپنے عقب میں آنے والے ہجوم کی طرف متوجہ ہوئے اور لوگوں سے چند منٹ تک گفتگو کی۔ رات اپنے اختتام کو پہنچی اور ایران کی اگلی صبح اپنے دامن میں ایک ایسا آفتاب لیے ہوئی تھی جو تمام مستضعفین عالم کے لیے ایک صبح نو کا پیغام لایا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام کی آمد ہیلی کاپٹر طیارے کو میں سوار آیت اللہ امام کے پیرس سے کے لیے کی طرف کے بعد کہ میں کے ایک
پڑھیں:
خواتین کے خلاف تعصبات کا خاتمہ ضروری ہے، فرحین عامر
کرا چی (کامرس رپورٹر)لپٹن ٹیز اینڈ انفیوژنز پاکستان (Lipton Teas & Infusions Pakistan) کی چیف ایگزیکٹو آفیسر، فرحین سلمان عامر نے انٹرنیشنل ویمن لیڈرز سمٹ 2025 میں ایک انتہائی پراثر اور فکر انگیز خطاب کرتے ہوئے خواتین کو معاشرتی اقدار کو چیلنج کرنے، بے جا حدود کو مسترد کرنے اور قیادت میں اپنی جگہ بنانے پر زور دیا۔اپنے پیشہ ورانہ سفر کو بیان کرتے ہوئے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو قیادت کرنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، بلکہ انہیں اپنی موجودہ صلاحیتوں کو پہچاننے اور ان پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے انہوں نے معاشرتی توقعات کے برعکس ایک ورکنگ مدر اور بزنس لیڈر کی حیثیت سے خود کو منوایا، اور کس طرح اپنے کیریئر میں درپیش تعصبات کا خاتمہ کیا جائے ۔استنبول منتقل ہونے کے بعد کی اپنی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے، فرحین نے بتایا کہ کیسے انہوں نے اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتے ہوئے ایک ہائی پروفائل کارپوریٹ کردار کا توازن برقرار رکھا، اس حقیقت کومدنظر رکھتے ہوئے کہ خواتین کو اپنے عزائم اور خاندانی زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا پڑتا، بلکہ وہ خود اپنا راستہ اور توازن قائم کرسکتی ہیں۔انہوں نے پاکستان میں مردوں کے زیرِ اثر چائے کی انڈسٹری میں اپنی قیادت کے بارے میں بھی بات کی، جہاں وہ اب بھی اعلیٰ سطحی بورڈ رومز میں واحد خاتون ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیادت دی نہیں جاتی، بلکہ اسے خود حاصل کرنا پڑتا ہے۔