Daily Pakistan:
2025-04-16@15:14:35 GMT

ٹرمپ کی وجہ سے پاکستان کے 36 منصوبے متاثر

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

ٹرمپ کی وجہ سے پاکستان کے 36 منصوبے متاثر

اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور غیرملکی امدادی پروگرام بند کرنے سے پاکستان میں بھی ایک ارب 12 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے منصوبے بند ہوں گے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کیلئے بھی امداد بند کردی گئی، پاکستان میں امریکی امداد کے تحت کل 36 منصوبے جاری ہیں جن کی مجموعی لاگت ایک ارب 13 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہے، یہ منصوبے انسانی حقوق، جمہوریت، توانائی، صحت، زراعت، تعلیم، معیشت اور گورننس سے متعلق ہیں۔
امریکی امداد کی بندش سے صحت کے 5، اقتصادی ترقی کے 4 اور زراعت کے 5 منصوبے متاثر ہوں گے، گورننس کے 12، توانائی کے 5 اور تعلیم کے 4 منصوبے بھی بند ہو جائیں گے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکا اپنے بجٹ کا صرف ایک فیصد حصہ بیرون ملک امدادی سرگرمیوں کیلئے مختص کرتا ہے جبکہ امریکا نے 2023 میں بیرون ملک امداد پر 68 ارب ڈالر خرچ کئے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے جہاں مختلف شعبوں کے اہم منصوبے متاثر ہوں گے وہیں امریکا کے عالمی رسوخ کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی امداد جو صحت کے شعبہ سے منسلک ہے ٹرمپ انتظامیہ اسے بحال کرنے کا سوچ سکتی ہے۔
دوسری جانب امریکی امداد کی بندش پر ترجمان دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کے معاملے پر امریکی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ 

چرس برآمدگی کیس میں ملزمان کو 14، 14 سال قید کی سزا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) افغانستان کے دارالحکومت میں غذائی قلت کے علاج کے ایک مرکز میں بچوں کے رونے کی آوازیں اب نہیں آتیں کیونکہ امریکی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے مریضوں کو واپس بھیج دیا گیا ہے اور طبی عملے کو فارغ کر دیا گیا ہے۔

مکمل طور پر واشنگٹن کی مالی اعانت سے چلنے والے اس منصوبے کو اس وقت بند کرنا پڑا جب امریکہ نے تمام غیر ملکی امداد منجمد کردی، ، جو حال ہی میں افغانستان میں سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک تھا۔

کابل کے مغرب میں کلینک کا انتظام سنبھالنے والی غیر سرکاری تنظیم ایکشن اگینسٹ ہنگر (اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر کوبی رِیٹویلڈ نے کہا کہ اس مرکز میں بچوں کا اب علاج نہیں کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر ان کا علاج نہیں ہوا تو ان کی موت کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔‘‘

نئی فنڈنگ کے بغیر، بچوں کے لیے کھلونوں اور دیگر اشیا کو ہٹا دیا گیا اور مارچ میں آخری مریض کے چلے جانے کے بعد فارمیسی کو بھی تالا لگا دیا گیا۔

چیف ڈاکٹر فرید احمد بارکزئی کے بقول، ''جب غذائی قلت کے مریض ہمارے کلینک میں آتے ہیں تو ہمارے عملے کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ وہ انہیں صورتحال کی وضاحت کریں اور انہیں بتائیں کہ انہیں مناسب علاج کے لیے کہیں اور جانا پڑے گا۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق چار دہائیوں کی جنگ اور بحرانوں کے بعد افغانستان کو جنگ زدہ سوڈان کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔

کلینک میں ہر ماہ اوسطاﹰ 65 بچوں کا علاج کیا جاتا تھا جو شدید غذائی قلت اور صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے تھے۔

وہ اپنی ماؤں کے ساتھ کئی دنوں تک وہاں رہتے تاکہ نہ صرف انہیں کھانا کھلایا جا سکے بلکہ انہیں بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔

ریٹویلڈ کے مطابق ''ہر انفیکشن جو ایک بچے کو ہو سکتا ہے، غذائی قلت کا شکار بچہ بھی اس کا شکار ہو جائے گا، جس سے مرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

‘‘

ریٹویلڈ نے مزید کہا کہ عملے کے لیے، جو اپنے کام کے آخری دن مکمل کر رہا ہے''تکلیف دہ‘‘ ہے کہ ''انہیں ایسے مریضوں کو کہیں اور بھیجنا پڑتا ہے جہاں ان کے لیے خصوصی علاج موجود نہیں ہے۔‘‘

افغان آبادی غذائی قلت اور قحط کے دہانے پر

افغانستان میں، جہاں 45 فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر ہے، بچوں کی غذائی قلت سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ طویل مدت میں پوری نسل کو متاثر کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 35 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

بالغ افراد بھی غذائی متاثر ہوئے ہیں اور 15 ملین افغان اس وقت غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 3.1 ملین پہلے ہی قحط جیسی صورتحال سے دو چار ہیں۔

گزشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے کام کے لیے فنڈنگ بند کر دی ہے۔

(اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر ریٹویلڈ کے مطابق، ''میرے دفتر میں لوگ رو رہے ہیں… ہم سنتے ہیں، مدد کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن ہم انہیں نوکری نہیں دلا سکتے۔‘‘

ریٹویلڈ نے کہا کہ امریکی فنڈنگ کی بندش کے بعد، جو اے سی ایف کے مقامی بجٹ کا 30 فیصد بنتا ہے، یہ تنظیم ''تجاویز لکھنے کے عمل میں ہے‘‘ اور ''عطیہ دہندگان کے ساتھ تبادلہ خیال‘‘ کر رہی ہے: ''لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دوسرے عطیہ دہندگان اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: شکور رحیم

متعلقہ مضامین

  • افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار
  • امریکی محصولات سے پاکستان کی معاشی بحالی کو خطرہ ہے. ویلتھ پاک
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبات نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کےلئے سوا دو ارب ڈالر کی امداد روک دی
  • ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے اربوں ڈالر کی امداد روک دی
  • اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبا کی نگرانی سے انکار، ہارورڈ یونیورسٹی کی  2.3 ارب ڈالر کی امداد بند
  • ٹرمپ انتظامیہ کی شرائط نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.2 ارب ڈالر کی امداد منجمد
  • امریکی ٹیکسز نے بین الاقوامی تجارتی نظم کو شدید متاثر کیا، چینی وزارت تجارت
  • امریکی ٹیرف، پاکستانی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی کمی کا خدشہ
  • امریکی ٹیرف: پاکستان کی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر زائدکی کمی کا خدشہ
  • سکھ بہن بھائیوں کو بیساکھی کی مبارکباد، وزیراعظم پاکستان