آئی ایل ٹی 20 میں سیکھنے کےوسیع مواقع ہیں، ڈیون براوو
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
ابوظہبی :ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز بلے باز ڈیون براوو آئی ایل ٹی 20 سیزن 3 میں ابوظہبی نائٹ رائیڈرز کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھارہے ہیں ۔ دوسرے سیزن میں ایم آئی ایمریٹس کی ٹائٹل جیتنے کی مہم کا اہم حصہ رہنے والے براوو کے پاس آئی ایل ٹی 20 کا وسیع تجربہ ہے انہوں نے دو سیزن میں 18 میچوں میں 19 وکٹیں حاصل کیں۔براوو نے نائٹ رائیڈرز کے ساتھ کوچنگ سے متعلق کہا ہےکہ یہ اچھا رہا ہے وہ فرنچائز سے واقف ہیں اور ماضی میں ان کے ساتھ بہت سی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اس لئے وہ پرسکون ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میرے لیے بہت اچھا موقع ہے اور میں اس طرح کی باوقار فرنچائز کے ساتھ یہ کردار نبھانے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ میں صرف میدان کے باہر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا اور ٹیم کو اچھی طرح سے تیار کرنے میں مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اپنی ٹیم کی کارکردگی کے علاوہ براوو نے ڈی پی ورلڈ آئی ایل ٹی 20 کے متحدہ عرب امارات کے کرکٹرز کے لئے وسیع تر اثرات پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کا ٹورنامنٹ آپ کو مضبوط بنائے گا اور ان کھلاڑیوں کو زیادہ تجربہ دے گا۔ وہ بہت کچھ سیکھیں گے، کھلاڑیوں کے طور پر ترقی کریں گے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کے علی شان شرفو اور ابوظہبی نائٹ رائیڈرز کے ابرار احمد کو امید افزا ٹیلنٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ علی شان شرفو کا ٹورنامنٹ شاندار رہا ہے اور گزشتہ برس بھی اس کا سیزن بہت اچھا گزرا تھا۔ ابرار کے ساتھ، ہم اس میں موجود ٹیلنٹ کو دیکھتے ہیں۔ جب تک ہم ایک گروپ کے طور پر ایک ساتھ رہتے ہیں، مجھے اب بھی یقین ہے کہ ہمارے پاس اسے کھینچنے کا ایک اچھا موقع ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ئی ایل ٹی 20 کے ساتھ
پڑھیں:
خوشی
انسانی ترقی میں جن وجوہات نے سب سے بنیادی کردار ادا کیا اُن میں سے ایک اہم وجہ ایک عہد میں حاصل ہونے والے علم کو تحریری شکل میں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا ہے تاکہ آیندہ نسلوں کو وہ سب کچھ نہ دُھرانا پڑے جو اُن سے پہلے آنے والے کر چکے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ تمام سائنسی اور سماجی علوم میں نت نئی تحقیقی مساعی کے نتائج اور اعداد و شمار اُن مغربی ممالک کی طرف سے دنیا بھر میںعام کیے جاتے ہیں جو بنی نوع انسان کی ترقی کی قیادت کر رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں انسانی خوشی کے حوالے سے ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جن کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان خود کوشش کر کے بھی اپنی خوشی کے معیار اور مقدار دونوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر فطرتاً خوش رہنے والے ہوتے ہیں۔ قدرتی طور پر ان کا مزاج خوشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو بلاجواز اُداسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ خوشی پر تحقیق میں کچھ ایسے نقاط کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں ماہرین نفسیات اچھی اور خوش زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جوں جوں عمر بڑھتی ہے توں توں دوستی بھی اہمیت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ دوستی عمر کے ہر حصے میں اہم ہوتی ہے، لیکن بعد کی عمر میں یہ انسانی خوشی کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بڑی عمر کے لوگ اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنا حلقہ احباب محدود کرتے چلے جاتے ہیں۔
وہ خود کو اُن دوستوں تک محدود کرلیتے ہیں جن کے ساتھ ان کی ذہنی ہم آہنگی مثالی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بڑھتی عمر میں بھی نئے دوست بنانے سے زندگی میں نیا پن پیدا ہوتا ہے۔ اپنے خاندان کے ساتھ تعلق کے ساتھ ذمے داریاں وابستہ ہوتی ہیں لیکن دوستوں کے ساتھ تعلق خاندان سے تعلق کے برعکس تناؤ اور ذمے داریوں سے بوجھل نہیں ہوتا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ خوش رہنے کے لیے دوستی خاندانی رشتوں ہی کی طرح اہم ہوتی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آپ دوسروں کی خوش قسمتی پر خوش ہوں۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دوست احباب کی مدد کرنا اور ان کی ہمت بندھانا ایک انتہائی مثبت عمل ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ اس رویئے کے باعث باہمی تعلقات میں قربت اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
لیکن ایک اور خصوصیت بھی ہے جس کا کم ذکر کیا جاتا ہے لیکن یہ انسانی خوشی اور ہمارے باہمی تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی پیدا کرسکتی ہے۔ یہ ہے ’دوسرے کی خوشی میں خوشی محسوس کرنا اور اس کا کُھل کر اظہار کرنا‘۔ اس سلسلے میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ وصف انسانی خوشی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کے تعلقات ایک نئی سطح پر پہنچ جاتے ہیں، اس سے خود آپ کو بھی بے پناہ روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔
تیسری اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ رضاکارانہ خدمات انسان کو بے پایاں خوشی سے سرشار کرتی ہیں۔ ریسرچ کے نتائج میں رضاکارانہ خدمات کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے لوگوں میں دائمی درد اور ڈپریشن کی علامات میں غیر معمولی افاقہ ہوا۔ 2002 میں اس سلسلے میں ہونے والے تجربات سے ثابت ہوا تھا کہ ایسی دائمی تکالیف میں مبتلا افراد جب تک نیکی کے کام میں مشغول رہے ان کی تکلیف غائب ہوگئی۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ ان تکالیف میں مستقل افاقہ ہوا۔ اب حالیہ ریسرچ نے ایک مرتبہ پھر اس کی تصدیق کی ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جانوروں کی دیکھ بھال سے انسانی صحت کا معیار بہتر ہوجاتا ہے جب کہ باغبانی بالخصوص بڑھاپے میں ہمیں متحرک اور چاق و چوبند رکھتی ہے۔