اسپیکر قومی اسمبلی کا مذاکراتی کمیٹی برقرار رکھنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام آباد:اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے مذاکراتی کمیٹی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق اسپیکر ایاز صادق اب بھی مذاکرات جاری رکھنے کے خواہاں ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے مذاکراتی کمیٹی کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف اور حکومت دونوں کی جانب سے پہلے ہی اپنی مذاکراتی کمیٹیاں تحلیل کی جا چکی ہیں، تاہم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے تاحال ان کمیٹیوں کو باضابطہ طور پر ڈی نوٹیفائی نہیں کیا۔
واضح رہے کہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، تاہم پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے اعلان نہ ہونے کی بنا پر حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
پی ٹی آئی کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے مذاکرات کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے تو واحد راستہ یہ ہے کہ وزیراعظم اور صدر سے سزائیں معاف کرنے کی سفارش کریں۔
حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن نہیں بنائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مذاکراتی کمیٹی قومی اسمبلی پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
حکومت کی جانب سے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش
وفاقی حکومت نے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے 6 نئی نہروں سے متعلق تحریری تفصیلات ایوان میں پیش کیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پنجاب کے لیے چھوٹی چولستان نہر کے منصوبے کے لیےارسا نے جنوری 2024 میں این او سی جاری کیا، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے، جب کہ منصوبے کی کل لاگت 225 ارب 34 کروڑ روپے ہے جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھجوا دیا ہے، تاہم ایکنک نے تاحال اس کے پی سی ون پر غور نہیں کیا۔معین وٹو نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 15 نومبر 2024 کو ارسا کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے کی سمری ارسال کی جب کہ تھر کینال منصوبے کے لیے ارسا سے این او سی کی باضابطہ درخواست نہیں دی گئی۔ واپڈا نے اس منصوبے کے لیے 212 ارب روپے کا پی سی ون جمع کرایا ہے، منصوبہ فی الحال غیر منظور شدہ ہے۔
وزیر آبی وسائل کے مطابق گریٹر تھل کینال کے لیے ارسا نے مئی 2008 میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 ارب 17 کروڑ روپے کی لاگت سے 2010 میں مکمل ہو چکا ہے اور اسے پنجاب کے حوالے بھی کیا جاچکا ہے، دوسرے مرحلے کی منظوری ایکنک نے 2024 میں سی سی آئی سے مشروط کر کے دی ہے۔وزیر آبی وسائل نے بتایا کہ برساتی نہر منصوبے کے لیے ارسا نے ستمبر 2002 میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ فیز ون 17 ارب 88 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا، فیز ٹو کی تجویز کو جی او سی مشاورتی اجلاس میں مسترد کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لیے شروع کیے گئے نہری منصوبے کا این او سی ارسا نے اکتوبر 2003 میں جاری کیا، اس کا فیز ون 2017 میں مکمل ہوا، تاہم 2022 کے سیلاب میں اسے نقصان پہنچا، واپڈا نے متاثرہ حصوں کی مرمت جزوی طور پر کر دی ہے، رواں مالی سال مارچ تک اس منصوبے کے لیے 22 ارب 92 کروڑ روپے مختص کیے گئے جب کہ فیز ٹو کے لیے 70 ارب روپے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی منظوری کا انتظار ہے۔معین وٹو کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے لیے سی بی آر سی نہر کو ارسا نے اپریل 2004 میں این او سی دیا جب کہ ایکنک نے 2022 میں 189 ارب 61 کروڑ روپے کا پی سی ون منظور کیا، یہ منصوبہ فی الحال ایوارڈ کے عمل سے گزر رہا ہے۔