جوہری تنصیبات پر حملے کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، ایران
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 فروری 2025ء) جمعے کے روز قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اگر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ گیا تو اس کافوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں ''خطے میں وسیع تر جنگ‘‘ چھڑ سکتی ہے۔
عباس عراقچی کہا کہ اگر اسرائیل اور امریکہ ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کرتے ہیں تو یہ ''امریکی تاریخ کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک ہوگی۔
‘‘ایران کے اعلیٰ فیصلہ سازوں میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی اجازت دے سکتے ہیں، اور ساتھ ہی ایران کی تیل کی صنعت پر امریکی پابندیوں کو مزید سخت بھی کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ خدشات، ایران کی معاشی بدحالی کے تناظر میں تہران حکومت کو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کے مستقبل پر مذاکرات میں شامل ہونے کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔
عراقچی نے اشارہ دیا کہ امریکہ ایران کے منجمد اثاثے آزاد کرکے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کا پہلا قدم اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ایرانی اثاثے اور فنڈز مختلف مواقع پر امریکہ نے منجمد کیے ہیں۔ امریکہ اپنی سابقہ یقین دہانیوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر امریکہ اعتماد کی بحالی چاہتا ہے، تو تو اسے ایرانی اثاثوں کو بحال کرنا چاہیے۔
‘‘واضح رہے کہ 2018ء میں، اپنی پہلی مدت صدارت میں صدر ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے 2015ء کے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے تحت سخت امریکی پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔
جواب میں، تہران نے معاہدے کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی کی، جن میں یورینیئم کی افزودگی میں تیزی لانا شامل تھا۔
ٹرمپ نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی پچھلی مدت کی اس دباؤ کی پالیسی پر واپس آئیں گے، جس کا مقصد اقتصادی دباؤ کے ذریعے ایران کو اس کے جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی سرگرمیوں پر مذاکرات کے لیے مجبور کرنا تھا۔
ع ت، ع س (روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری تنصیبات
پڑھیں:
ٹرمپ کی دھمکیوں کے سائے میں ایران امریکا جوہری مذاکرات آج ہوں گے
واشنگٹن:ٹرمپ کی دھمکیوں کے سائے میں ایران امریکا جوہری مذاکرات آج عمان میں ہوں گے۔
مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی کریں گے جبکہ امریکی وفد کی نمائندگی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کریں گے، عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران ان مذاکرات میں شدید شکوک و شبہات کے ساتھ شریک ہو رہا ہے خاص طور پر جب امریکا اور اسرائیل کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر امریکا پر زور دیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے فوجی حملے کیے جائیں دوسری جانب ٹرمپ نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ایران پر شدید بمباری کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس نے جمعہ کو ایک بار پھر ٹرمپ کی دھمکی دہرائی کہ اگر ایران نے اپنا جوہری پروگرام ختم نہ کیا تو "اسے بھاری قیمت چکانا ہوگی"۔
امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی "ریڈ لائن" یہ ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل نہ ہو اور جوہری پروگرام کا خاتمہ مذاکرات کی ابتدائی شرط ہے تاہم انہوں نے مفاہمت کے دوسرے راستوں کے لیے آمادگی کا بھی عندیہ دیا۔
دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ہونے والے اعلیٰ سطحی جوہری مذاکرات کے ذریعے خلوص نیت کے ساتھ سفارتکاری کو ایک حقیقی موقع دے رہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ایکس پر کہا کہ امریکا کو ایران کے مذاکرات میں شامل ہونے کے فیصلے کی قدر کرنی چاہیے مگر واشنگٹن کا انداز اب بھی جارحانہ اور دھمکی آمیز ہے۔
ایرانی نائب وزیر خارجہ مجید تختِ روانچی نے کہا کہ اگر امریکا کی جانب سے دھمکیاں اور دباؤ نہ ہو تو معاہدے تک پہنچنے کے امکانات روشن ہیں تاہم ہم ہر قسم کی دھونس اور دھمکی کو مسترد کرتے ہیں۔ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے ایکس پر لکھا کہ ایران نے اہم اور عملی تجاویز تیار کی ہیں تاکہ منصفانہ معاہدہ ممکن ہو سکے۔
ایران نے واضح کیا ہے کہ یہ "بالواسطہ مذاکرات" ہوں گے جن میں عمان ثالثی کرے گا۔ ایران کے مطابق عراقچی "مکمل اختیارات" کے ساتھ مذاکرات کے لیے روانہ ہو رہے ہیں تاہم ٹرمپ کا کہنا کہ یہ "براہِ راست مذاکرات" ہوں گے۔
یاد رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان سابق صدر باراک اوباما کے دور میں جوہری معاہدہ ہوا تھا، جس سے 2018 میں صدر ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اس کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا، جس سے مغرب کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ سکتا ہے، حالانکہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا پروگرام مکمل طور پر پرامن توانائی کے حصول کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملے شروع ہو چکے ہیں جبکہ لبنان اور شام پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے یمن میں حوثی اہداف پر حملے بھی جاری ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان مذاکرات سے کسی ممکنہ معاہدے کے آثار نظر آئے تو خطے میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔