جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس میں استغاثہ کے مزید 2 گواہان کی شہادت ریکارڈ کرلی گئی۔

جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ہوئی، کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے اڈیلہ جیل میں کی۔

سماعت کے دوران استغاثہ کے مزید دو گواہان کی شہادت ریکارڈ کی گئی، 9 مئی کے روز نقصانات کے فوٹو بنانے والے پولیس کانسٹیبل عمران کی شہادت ریکارڈ کی گئی، پولیس کانسٹیبل عمران نے ساڑھے نو مئی کے روز کی 15 تصاویر عدالت میں پیش کیں، جی ایچ کیو حملہ میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے والے ایس ڈی او بلڈنگ اویس شاہ کا بیان بھی قلم بند کیا گیا۔

دوران سماعت ایس ڈی او بلڈنگ نے تخمینہ رپورٹ عدالت پیش کی،7 لاکھ 80 ہزار روپے نقصان کی تفصیلات بھی عدالت پیش کر دیں، اضافی رپورٹس کی نقول مکمل نہ ہونے پر دو گواہ ریاض اور احمد یار کا بیان ریکارڈ نہ ہو سکا، استغاثہ کی جانب سے ڈیجیٹل شہادت پر مشتمل 13 یو ایس بی عدالت میں داخل کروا دی گئی۔

عدالتی حکم پر یو ایس بیز میں موجود ڈیجیٹل شہادت کمپیوٹر میں محفوظ کر لی گئی، عدالت  نے اپنے حکم میں کہا کہ جس ملزم کو ڈیجیٹل شہادت چاہیے ہو وہ نقل اپلائی کر کے عدالت سے حاصل کر سکتا ہے۔

عدالت نے پی آئی ڈی، پیمرا، ایف ائی اے اور انٹرنل سیکیورٹی رپورٹ نہ مکمل ہونے پر ایس ایس پی آپریشن راولپنڈی کو نوٹس جاری کردیا، عدالت نے حکم دیا کہ ائندہ سماعت پر تمام اضافی رپورٹس کی نقول مکمل کر کے عدالت پیش کی جائیں۔


سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا، جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت6 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی شہادت ریکارڈ جی ایچ کیو حملہ کیس پیش کی

پڑھیں:

آرمی پبلک اسکول حملہ اور 9 مئی واقعے میں کیا فرق ہے؟عدالت عظمیٰ

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ عدالت عظمیٰ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیے۔ وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ شہری ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں مکمل آرمی ایکٹ کو بالکل چیلنج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اسی دلیل کا حوالہ دیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں تنازع ہوا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ویسا بھی ہو سکتا ہے، آج کل ایسی بھی سوچ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ایسی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس اور دیگر چندواقعات کا ذکر کیا تھا۔ جسٹس مسرت نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ فوجی ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے، 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟اس پر وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ 16 دسمبر والے افراد دہشت گردانہ واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے ترمیم کرنا پڑی تھی جس کے بعد ملزمان کے ٹرائل ہوئے تھے۔ وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، اس پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟دوران سماعت وکیل خواجہ احمد نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آرنے 9 مئی واقعے پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا، ہمیں اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیے میں کہا گیا کہ 9 مئی پر ادارے میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، کہا گیا 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، اعلامیے کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی ملزمان کا ٹرائل ہو لیکن فوجی عدالتوں میں نہیں، خود متاثرہ فرد شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔ جسٹس محمد علی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی2 کالعدم کرنے سے کلبھوشن کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا، جسٹس حسن نے سوال کیا کہ کیا مستقل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ اس پر وکیل احمد حسین نے کہا ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوگا۔ اس موقع پر جسٹس امین نے کہا کہ عجیب بات ہے،قانون کی شق کالعدم قراردی جائے اورکہاجائے کہ اسپیشل ریمیڈی والوں کواستثنا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ون ڈی 2 استعمال کرسکتی ہے؟ وکیل احمد حسین نے جواب دیا مستقبل میں 2 ون ڈی 2 کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔ وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں اپنی پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں، کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے، آرمی چیف اجازت نہ دیں تو پسند کا وکیل نہیں ملتا، فیصلہ کوئی کرتاہے اور فیصلے کو کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے، ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔اس موقع پر جسٹس مسرت نے کہا کہ آپ ملزمان کا کیس یہاں لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں، جسٹس حسن نے کہا آپ کے مطابق شہری کا ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں بلکہ انسداددہشت گردی عدالت میں ہونا چاہیے، موجودہ صورتحال میں ملک کے ڈھائی صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، ملک میں مکتی باہنی کی تحریک نہیں، حملہ آور سویلینز ہی ہیں۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ دہشت گردی روکنا ایڈمنسٹریشن کا کام ہے، شواہد اکٹھے کرنا ان کی ذمے داری ہے، عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہوں گے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 123 نمبر پر ہے، اس موقع پر جسٹس حسن نے کہا انسداددِہشت گردی عدالت ہو یا کوئی بھی، بہتری کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 100 گناہ گاروں کو چھوڑنے سے زیادہ غلط ایک بے گناہ کو سزا دینا ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔جسٹس حسن نے کہا کہ سامنے قتل ہو جائے پھر بھی کوئی گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں25، 25 تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم 4 سال کے لیے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں، ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟بعد ازاں عدالت نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس کی مزید سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • جی ایچ کیو حملہ کیس: مزید 2 گواہان کے بیانات قلمبند، تصاویری ثبوت، تخمینہ رپورپ بھی پیش
  •  جی ایچ کیو حملہ کیس: نقصان کی رپورٹ اور ڈیجیٹل شواہد عدالت میں پیش
  • جی ایچ کیو گیٹ پر توڑ پھوڑ سے 7 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا: رپورٹ
  • 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس: توڑ پھوڑ کی تصاویر اور مالی نقصان کی رپورٹ عدالت میں پیش
  • جی ایچ کیو حملہ کیس: مزید گواہان کے بیانات قلم بند، سماعت 6 فروری تک ملتوی
  • جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان عدالت میں پیش
  • آرمی پبلک اسکول حملہ اور 9 مئی واقعے میں کیا فرق ہے؟عدالت عظمیٰ
  • کراچی ایئرپورٹ خود کش حملہ کیس: ملزمہ کی ضمانت کی درخواست دائر
  • ۔9 مئی کے 13 مقدمات :عدالت کا کیسز کے مکمل چالان پیش کرنے کا حکم