پاکستان کا بحران 2024 نہیں 2018 کے الیکشن کی وجہ سے ہے، خالد مقبول
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
کراچی:
وفاقی وزیر تعلیم و ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان کا بحران 2024 نہیں بلکہ 2018 کے الیکشن کی وجہ سے ہے۔
جامعہ بنوریہ امتحانی مرکز کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سیاسی بحران نے معاشی بحران بھی پیدا کیا ہوا ہے، پاکستان میں ٹریڈ ڈیفیسٹ نہیں ٹرسٹ ڈیفیسٹ کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ برسوں سے سندھ میں کوٹہ سسٹم لگایا ہوا ہے، جن کے پاس اقتدار کبھی نہیں رہا مگر اختیار پورا رہا ہے، کراچی کا حق ادا کریں گے، 2018 میں جو آئے انہوں نے کراچی کے لیے آواز بلند نہیں کی۔
وفاقی وزر تعلیم نے کہا کہ جاگیر دارانہ نظام تو چلتا ہی دھونس دھمکی پر ہے، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اختلاف موجود ہے، کوٹہ سسٹم لسانی بنیاد پر لگایا گیا، یہ قبضہ کرنے کی سازش ہے۔
ڈاکٹر خالد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کی ضرورت ہے، لنگڑی جمہوریت پاکستان کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی، اب کراچی میں اس مرتبہ فنڈز ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خالد مقبول نے کہا
پڑھیں:
پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 12 اپریل 2025ء ) وزیرمملکت برائے قومی ثقافت و ورثہ حذیفہ رحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا،یہ عوام کو بتائیں کہ جھوٹا بیانیہ مقبولیت کیلئے تھا جبکہ حکومت میں گوڈے پکڑ کر آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگربات کرنا چاہتی ہے تو بالکل بات کرلیں، ان کی منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔ انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام آسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کو گلے لگا کر ہی سیاسی مسائل کا حل نکلتا ہے،پچھلے دس سالوں میں کسی اینکر نے آج تک اس پر بات نہیں کی کہ سربراہان مملکت یا سابق وزرائے اعظم پاکستان میں علاج کیوں نہیں کراتے؟پاکستان میں لاہور ایسا شہر ہے جہاں ایسے ہسپتال اور ڈاکٹر موجود ہیں جن سے رائل فیملی علاج کراتی رہی ہے، ڈاکٹر حسنات، ڈاکٹر شہریار، عامر عزیزسمیت ایسے بڑے نام موجود ہیں، میرا خود میڈیکل فیملی سے تعلق ہے، میرے والد میڈیکل فزیشن اور شعبہ جات کے ہیڈ بھی رہے، جب بھی کوئی سربراہ مملکت کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کرانے آتا ہے تو ڈاکٹر کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپاتا ، کیونکہ ڈاکٹر جب علاج کرتا ہے تو اس پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن سربراہ مملکت کے عہدے کا ڈاکٹر پر پریشر اتنا ہوتا ہے کہ وہ علاج نہیں کرپاتا، کوشش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت کو کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے جس پر کوئی پریشر نہ ہو۔(جاری ہے)
نوازشریف کو جب باہر بھیجا گیا تو بہترین ڈاکٹرز کا بورڈ تھا جس نے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا ، ان کو لگتا تھا کہ نوازشریف سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، نوازشریف کو دل کا ایک پیچیدہ مرض لاحق ہے اور اس کا علاج دنیا کے دو تین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ میں بتا دوں کہ نوازشریف کا پلیٹ لیٹس کا کوئی ایشو نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں پی ٹی آئی سے بات کرنی چاہیئے، تو باکل ہم بات کرنے کو تیار ہیں، کیونکہ کوئی حکومت اپوزیشن کے بغیر نہیں چل سکتی ، بات چیت کیلئے جب حکومت کو بڑا دل کرنا چاہیئے تو پھر اپوزیشن کو بھی بڑا دل کرنا چاہیئے، پی ٹی آئی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ پر تنقید کرتی ہے تو پھر ہم کیسے بات کریں؟پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پر آن ایئر کہے کہ ہمارا سویلین بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی کا بیانیہ جھوٹا تھا، یہ جھوٹا بیانیہ عوام میں مقبولیت کیلئے اپنایا تھا ویسے ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے گوڈے پکڑ کر حکومت میں آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگر پی ٹی آئی سے بات کرنا چاہتی ہے تو یہ بالکل بات کرلیں، ایک طرف وزیراعظم کٹھ پتلی کا بیانیہ بناتے ہیں اور خود اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔وزیراعظم اور بلاول بھٹو جب مل بیٹھیں گے تو پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوجائیں گے۔