واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم فروری ۔2025 )امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو حاصل کرنے اور پاناما کینال کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش آرکٹک اور لاطینی امریکہ میں چینی سر گرمیوں اور اثر ورسوخ کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے باعث ،قومی سلامتی کے جائز مفادات پر مبنی ہے.

مارکوروبیو نے وسطی امریکہ کے ایک دورے سے قبل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ آیا ٹرمپ اپنے منصب پر رہتے ہوئے گرین لینڈ کو ڈنمارک سے خریدنے یا پاناما کینال پر امریکی اختیار بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ ان دونوں مقامات کو جو توجہ دیں گے اس کا ایک اثر ہوگا اور امریکی مفادات چار برسوں میں ”زیادہ محفوظ“ ہوں گے روبیو نے کہا کہ میرے خیال میں آپ جس بات کا یقین کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اب سے چار سال بعد آرکٹک میں ہمارا مفاد زیادہ محفوظ ہو جائے گا پاناما کینال میں ہمارا مفاد زیادہ محفوظ ہو گا.

روبیو امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار کے طور پر اپنے پہلے سرکاری غیر ملکی دورے پر آج پاناما پہنچیں گے جس سے اس اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے جوٹرمپ اور وہ، دونوں پاناما کینال کے حصول کو دیتے ہیں انہوں نے کہاکہ اگرچہ امیگریشن، پاناما اور ان کے دورے کے دوسرے مقامات پر بات چیت کا ایک بڑا موضوع ہو گا تاہم نہر کا مسئلہ ایک ترجیح ہے. انہوں نے کہا کہ نہر کے بحرالکاہل اور کیریبین دونوں سروں پر بندرگاہوں اور دوسرے انفرا اسٹرکچر پر چینی سرمایہ کاری تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے جس سے پاناما اور اہم جہاز رانی کے راستے کو چین سے خطرہ لاحق ہوجائے گاروبیو نے کہا کہ چینی کمپنیاں پورے پاناما میں ہیں ان کمپنیوں کے بارے میں امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ بیجنگ میں حکومت کی تابع ہیں اور تائیوان کے ساتھ تنازع یا امریکہ کے ساتھ کسی اور وجہ سے تعلقات میں خرابی کی صورت میں نہر تک ٹریفک کو منقطع کرنے یا محدود کرنے کے احکامات پر عمل کریں گی.

انہوں نے کہا کہ اگر چین میں حکومت کسی تنازع میں ان سے کہتی ہے کہ وہ پاناما کینال کو بند کر دیں تو انہیں کرنا پڑے گا انہوں نے کہا کہ مجھے بالکل شک نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا کرنے کی ہنگامی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے جو ایک براہ راست خطرہ ہے امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ اگر چین نے پاناما کینال میں ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنا چاہی تو وہ ایسا کر سکتا ہے اور یہ سابق صدر جمی کارٹر کے 1977 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت امریکہ نے 1999 میں امریکہ کی بنائی ہوئی نہر کا کنٹرول پاناما کو سونپ دیا تھا انہوں نے ٹرمپ کی اس شکایت کو بھی دہرایا کہ امریکی بحری جہازوں سے نہر استعمال کرنے کے لیے زیادہ رقم وصول کی جا رہی ہے اور یہ بھی معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی.

انہوں نے کہاکہ ہمیں دوسرے ملکوں سے زیادہ ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونا چاہئے درحقیقت ہمیں رعایت ملنی چاہیے یا شاید مفت میںکیونکہ ہم نے اس چیز کے لیے ادائیگی کی تھی قبل ازیں پاناما کے صدر ہوزےراﺅل ملینو نے کہا تھا کہ پاناما کینال کی ملکیت پر امریکہ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی اور انہیں امید ہے کہ روبیو کا دورہ اس کے بجائے امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے جیسے مشترکہ مفادات پر مرکوز ہو گا.

ان کا کہنا تھا کہ نہر کو امریکی کنٹرول میں واپس دینا ناممکن ہے ا س پر گفت وشنید نہیں کر سکتے یہ واضح ہے کہ نہر پاناما کی ملکیت ہے . تاہم امریکی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ ہم اس موضوع پر بات کریں گے انہوں نے کہاکہ صدر بالکل واضح ہیں کہ وہ دوبارہ نہر کا انتظام کرنا چاہتے ہیں شاید پاناما کے لوگوں کو یہ خیال زیادہ پسند نہیں ہے مگر ہماری طرف سے پیغام بالکل واضح طور پر سامنے لایا گیا ہے گرین لینڈ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ڈنمارک جس کا گرین لینڈ ایک حصہ ہے چین سے گرین لینڈ کا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے جب کہ وہ جہاز رانی کے راستوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آرکٹک میں موجودگی حاصل کرنا چاہتا ہے.

انہوں نے کہاکہ چونکہ گرین لینڈ پہلے ہی ڈنمارک کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث نیٹو کے باہمی دفاعی معاہدے کے تحت ہے اس لیے امریکہ کے لیے وہاں زیادہ موجودگی اور اختیار رکھنا سمجھ میں آتا ہے روبیو نے کہا کہ میں جانتا ہوں یہ ڈنمارک کے لیے ایک نازک موضوع ہے لیکن یہ امریکہ کے لیے قومی مفاد کا ایک موضوع ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہاکہ پاناما کینال روبیو نے کہا گرین لینڈ امریکہ کے پاناما کی کرنے کی کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اٹھارویں آیئنی ترمیم کے تحت تعلیمی پالیسی سے متعلق فیصلے صوبوں کو کرنے چاہییں۔ قابل اعتماد ذرائع نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ صدر نے سینیٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل کی پیشکش اور منظوری کی پرائیویٹ سطح پر مخالفت کی ہے۔ صدر کی مخالفت کی وجہ سے یہ بل فی الحال مشترکہ اجلاس میں پیش نہیں کیا گیا۔

پاکستانی پروفیسر کی معافی، تعلیمی نظام کہاں جا رہا ہے؟

یہ بل اگرچہ پی ڈی ایم کی حکومت، جو کہ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد وجود میں آئی تھی، نے قومی اسمبلی میں دو ہزار تیئیس میں منظور کیا تھا، لیکن اس کے بعد کسی وجہ سے یہ سینیٹ میں پیش نہ کیا جا سکا اور دو سال گزرنے کے بعد بھی سینیٹ میں اس کی منظوری نہیں ہو سکی۔

(جاری ہے)

حکومت اب اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن صدر نے لابنگ کرتے ہوئے اس کی پیشکش اور منظوری رکوا دی کیونکہ یہ بل وزیر اعظم کے دفتر کو مزید اختیارات دے رہا تھا اور تعلیمی معاملات کو مرکزی سطح پر لانے کی راہ ہموار کر رہا تھا، جبکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی معاملہ بن چکا ہے۔

درسگاہیں غیر شرعی نظام کی بنیاد ہیں، حملے جائز ہیں، طالبان

قانون کیا تبدیلیاں تجویز کرتا ہے؟

بل کے مسودے کے مطابق، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہوگا، جبکہ موجودہ قوانین کے تحت کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور وزیر اعظم صرف ایچ ای سی کے چیئرمین اور چند اراکین کی تقرری کر سکتے ہیں۔

بل میں کمیشن کے اراکین کی تعداد کو کم کر کے دس کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، جن میں سے چار تعلیمی ماہرین، آئی ٹی ماہرین اور سائنسدان وزیر اعظم کی نامزدگی سے شامل ہوں گے۔ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ صوبائی کمیشن صرف سندھ اور پنجاب میں فعال ہیں، جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس کمیشن میں نمائندگی سے محروم رہیں گے۔

امتحانات میں بد عنوانی اور پنجاب کا تعلیمی نظام

ماہرین کا ماننا ہے کہ تعلیمی امور کو تعلیمی ماہرین کے ذریعے ہی چلایا جانا چاہیے۔ تعلیمی شعبے کو سیاست زدہ کرنا نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور یہ چیز تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی بجائے نقصان پہنچائے گی۔ تعلیمی امور کے ایک ماہر تیمور بانڈے کا کہنا ہے، ''تعلیم ایک غیر مرکزی معاملہ ہے اور اسے صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہی رہنا چاہیے۔

حکومت مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ ایچ ای سی کو خود مختار اور غیر مرکزی رہنا چاہیے۔‘‘

ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو نہ صرف صوبوں کے تعلیمی معاملات سے متعلق فیصلوں سے دور رہنا چاہیے بلکہ وفاق میں بھی تعلیم کے شعبے میں سیاست کا داخلہ نہیں ہونا چاہیے۔ تیمور بانڈے کہتے ہیں، ''وفاقی سطح پر بھی، ایچ ای سی کو خود مختار رہنے دیا جائے اور یہی بہتر ہے۔

اگر وزیراعظم بہت سی پوسٹس پر لوگوں کو لگائیں گے تو اس صورت میں میرٹ کی پاسداری مشکل ہو سکتی ہے۔‘‘

پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے کیوں؟

کیا صوبے بہتر طریقے سے تعلیمی معاملات چلا سکتے ہیں؟

تعلیمی معاملات کی خود مختاری سے اتفاق رکھتے ہوئے بعض ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ صوبے اپنی ذمہ داری صحیح سے نہیں نبھا رہے اور بہت سی جامعات میں جنہیں صوبے خود چلا رہے ہیں بہت سی آسامیاں خالی ہیں جس کی وجہ سے کام میں اور تعلیمی معیار میں بہتری لانے میں دشواری کا سامنا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ، نئی تحقیق کے لیے کتنا؟

معروف تعلیمی ماہر بیلا رضا جمیل کہتی ہیں کہ ابھی تک صوبے تعلیم کے لیے وفاقی حکومت سے پیسے مانگتے ہیں اور اگر وفاق پیسے نہ دے تو یونیورسٹیز کا چلنا مشکل ہو جائے۔ وہ لیکن یہ سمجھتی ہیں کہ اس مسئلے کا یہ حل نہیں ہے کہ تعلیم کے شعبے کو مرکز تک محدود کر دیا جائے بلکہ صوبوں کواپنی ذمہ داریاں صحیح سے نبھانے کی ضرورت ہے۔

بیلا رضا کا مزید کہنا تھا،''ہم تو اس چیز کے قائل ہیں کہ تعلیم کو ضلعی سطح تک ڈی سینٹرلائز کر دیا جائے اور ضلعی حکومتیں اسکولوں کا نظام چلائیں اور ان کی بہتری کے لیے کام کریں۔ صوبائی حکومتوں کا کردار صرف پالیسی کی حد تک ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی تمام سطحیں، جیسے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، اور ضلعی حکومت، مؤثر طریقے سے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • چین کے خدشات کے باعث گرین لینڈ اور پاناما کینال میں ٹرمپ کی دلچسپی جائز ہے: روبیو
  • کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
  • امریکا میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں؟ گرین لینڈ کے شہریوں کی رائے سامنے آگئی
  • امریکہ کا اب تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رکھنے کا فیصلہ
  • غزہ سے عین جالوت سے لد تک
  • پاک امریکا تعلقات دہائیوں پرمحیط ،اربوں ڈالر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیںِسربراہ امریکی سرمایہ کا وفد
  • پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ، جینٹری بیچ
  • فلسطینیوں کو بےگھر کرنا ٹھیک نہیں، جرمنی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز مسترد کردی
  • امریکا پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، سربراہ امریکی سرمایہ کار وفد