Daily Ausaf:
2025-04-16@18:43:56 GMT

ہماری تہذیبی جنگ کے بڑے میدان

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پہلی بات یہ ہے کہ ہم شراب نہیں چھوڑ سکیں گے اس لیے کہ ہمارے ہاں انگور کثرت سے پیدا ہوتا ہے اور ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار اسی پر ہے اس لیے شراب بنانا اور بیچنا ہماری معاشی مجبوری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم سود سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے اس لیے کہ دوسری اقوام اور قبائل کے ساتھ ہماری تجارت سود کی بنیاد پر ہوتی ہے اور سود کو ختم کر دینے سے ہماری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ تیسری بات یہ کہ زنا کو چھوڑنا ہمارے لیے مشکل ہوگا اس لیے کہ ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے اور زنا کے بغیر ہمارے جوانوں کا گزارہ نہیں ہوتا۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ ہم پانچ وقت نماز کی پابندی بھی نہیں کر سکیں گے۔
ہماری ان شرائط کو منظور کر کے آپ ہمیں مسلمان بنانا چاہیں تو ہم سارے طائف والے کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ سیرت النبی میں مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاروں شرائط مسترد کر دیں اور بالآخر اہل طائف نے غیر مشروط طور پر اسی طرح مکمل اسلام قبول کیا جس طرح باقی اقوام نے کیا تھا۔
لیکن آج بھی ہمارے سامنے پھر ’’مشروط اسلام‘‘ کا مطالبہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور شرطیں بھی کم و بیش وہی ہیں جو طائف والوں کی تھیں۔ اس لیے علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بات دلائل سے اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں سمجھائیں کہ اسلام وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا اور امت چودہ سو سال سے اس پر عمل کرتی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی قبول نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسلام کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام جب بھی نافذ ہوگا یا جسے بھی اسلام قبول کرنا ہوگا، پورے کا پورا قبول کرنا ہوگا، اور اسلام کے کیے ایک صریح حکم کا انکار بھی پورے اسلام کا انکار متصور ہوگا۔
(۳) ہمارا تیسرا محاذ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا محاذ ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی احکام و عقائد اور قوانین کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے اور اسلامی قوانین پر اعتراضات ہوتے ہیں، دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انہیں دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، اور تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔
میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اس یلغار کا سامنا بھی اہل دین نے ہی کرنا ہے اور یہ بھی علماء کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور مختلف اسلامی احکام و روایات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کا آج کی زبان اور اسلوب میں جواب دینا اور لوگوں کو مطمئن کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم کا مقابلہ کرنا اور عام مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔
حضرات محترم! آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کن کن محاذوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجائش ہے لیکن سردست ان چند امور پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں علماء کرام اور دینی کارکنوں سے تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:
(۱) دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں کیونکہ اس دور میں اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیۃً لا تعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبے میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کام کریں لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ عملی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں تو بڑی سعادت کی بات ہے ورنہ زبان و قلم کے جہاد میں شریک ہوں، مال خرچ کر سکتے ہیں تو مال خرچ کریں، میڈیا کے محاذ پر کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں حصہ لیں، لابنگ کر سکتے ہیں تو یہ بھی ایک اہم شعبہ ہے، ذہن سازی اور فکری تربیت میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو اس میں حصہ ڈالیں۔ جو آپ کر سکتے ہیں، وہی کریں لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں، لا تعلق نہ رہیں اور کنارہ کشی کسی صورت میں اختیار نہ کریں کیونکہ یہ ایمان کے بھی خلاف ہے اور دینی غیرت کے بھی منافی ہے۔
(۲) جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں، اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں، اور اس کے کام کی نفی نہ کریں۔ کمزوریاں برداشت کریں اور اچھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہو گی اور باہمی اعتماد پیدا ہوگا۔
(۳) میری تیسری اور آخری گزارش ہے کہ علماء کرام اور دینی حلقے جہاں جہاں کام کر رہے ہیں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی میل جول بڑھائیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ میں ایک کارکن کے طور پر اپنے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ جتنا کام ہم اپنی اپنی جگہ کر رہے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اگر ہم باہمی مشاورت اور تقسیم کار کے ساتھ اسی کام کو صحیح طریقے سے منظم اور مربوط کر لیں تو ہمارے موجودہ کام کی افادیت میں دس گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کر سکتے ہیں سکتے ہیں تو علماء کرام اور دینی بات یہ اس لیے اور اس کام کر ہے اور

پڑھیں:

تیسری اقوامِ متحدہ امن مشن وزارتی تیاری کانفرنس اسلام آباد میں ہو گی ، اعلیٰ حکومتی  ،عسکری عہدیداران اور اقوامِ متحدہ کےسینیئر حکام شرکت کریں گے

لاہور (طیبہ بخاری سے )اقوامِ متحدہ امن مشن وزارتی کانفرنس کی تیاری کیلیے 2 روزہ کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی۔

 تفصیلات کے مطابق کانفرنس پاکستان اور جمہوریہ کوریا کی شراکت داری میں15 سے16اپریل کواسلام آبادمیں ہو گی۔ کانفرنس نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈاسٹیبلیٹی میں ہوگی ۔  2روزہ کانفرنس پاکستان کے اعلیٰ حکومتی  اور عسکری عہدیداران اور اقوامِ متحدہ کےسینیئر حکام شرکت کریں گے،کانفرنس میں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن مشنز اور انڈر سیکرٹری جنرل برائے آپریشنل سپورٹ بھی شرکت کریں گے ۔

جعفر ایکسپریس حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا، امریکی اخبار نے تصدیق کردی

سفارتی ذرائع کے مطابق کانفرنس امن کیلئے ٹیکنالوجی کے استعمال اور مربوط حکمتِ عملی کے عنوان سے منعقد کی جائے گی۔ یہ کانفرنس جرمنی کے شہربرلن میں 13تا 14 مئی 2025 کو ہونیوالی امن مشن کانفرنس کی بنیاد رکھے گی ۔کانفرنس میں مستقبل کے امن مشنز کو مزید محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے کردار پر  بات ہو گی ۔کانفرنس میں اقوامِ متحدہ امن مشنز کی حمایت میں علاقائی و بین العلاقائی تنظیموں کے کردار پر بھی بات ہوگی۔

سفارتی ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ امن مشن کی مؤثرکارکردگی اور پائیدارومستقل امن کےلیےایک مربوط حکمتِ عملی پربھی بات کی جائےگی ۔یہ اجلاس اقوامِ متحدہ امن مشنز میں پاکستان کے عزم کو اجاگر کرنےکاایک اہم موقع فراہم کرےگا۔پاکستان اقوام متحدہ مشنز میں ایک اہم اور نمایاں فوجی تعاون فراہم کرنے والا ملک ہے۔ گزشتہ کئی  برسوں سے پاکستان نے 48 اقوامِ متحدہ مشنز میں 2,35,000 امن دستے بھیجے۔ 181پاکستانیوں نےعالمی امن و سلامتی کی خاطراپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،کانفرنس کی میزبانی پاکستان کے اقوامِ متحدہ امن مشنز کے ساتھ وابستہ عزم کی عکاس ہے۔

اگر امریکی وفد کی تقریب کا دعوت نامہ ملتا تو ضرور جاتا، چیئر مین پی ٹی آئی

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل 10: اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ ملتان سلطانز میچ میں ٹاس کیوں نہیں ہو سکا؟
  • لاس اینجلس اولمپکس؛ کرکٹ کے مقابلے کِس میدان پر ہوں گے؟ نام سامنے آگیا
  • حکمران عوام کے زندہ بیدار ایمان پروَر جذبات کی قدر کریں، لیاقت بلوچ
  • اسلام آباد میں 3 روزہ اوورسیز کنونشن، شرکاء کیا کہتے ہیں؟
  • لاپتہ افراد کی بازیابی اور سیاسی قیدیوں کی فی الفور رہائی کے لیے اقدامات کیے جائیں، لیاقت بلوچ 
  • تیسری اقوامِ متحدہ امن مشن وزارتی تیاری کانفرنس اسلام آباد میں ہو گی ، اعلیٰ حکومتی  ،عسکری عہدیداران اور اقوامِ متحدہ کےسینیئر حکام شرکت کریں گے
  • افغانستان کا پاکستان کے دینی مدارس کے کے لئے امداد کا اعلان
  • مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا
  • بی جے پی کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آ گئی؟ مغربی بنگال میدانِ جنگ بن گیا
  • دعا ہے بیساکھی ہر میدان میں خوشحالی، ملک کے کونے کونے میں ترقی لائے: وزیراعظم