Daily Ausaf:
2025-04-15@06:32:31 GMT

مردار خور

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

مقصد ایک ہی ہے ،طریقہ کار بھی تبدیل نہیں ہوا،سازش وہی ہے ، آلہ کار بھی نئےنہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ 71 میں باپ وطن فروش تھا، ملک دشمنوں کا آلہ کار اور ہم وطنوں کی لاشوں کا سوداگر تو اب اولاد وہی دھندہ سنبھالے ہوئے ہے، اس وقت مکتی باہنی کی طرفداری طرہ امتیاز تھی ، اب ماہرنگ جیسوں کی غلامی سرمایہ حیات۔ وہ اگر پیٹ کا دوزخ بھرنے کو بنگالیوں کی لاشیں نوچتے تھے ،تو یہ بلوچوں کےخون پرپلتے ہیں ، انہیں بھارتی جرنیلوں نے اپنی کتابوں میں دوست قرار دےکرننگا کیا تو انہیں بھی مستقبل کا مورخ ضرور بےنقاب کرے گا ۔ ایک فرق البتہ بہت بڑا ہے ، کہ اب 1971 نہیں 2024ہے ۔ انسانی لاشوں پر پلنے والے گدھ اب کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ پہچانے جاچکے ہیں ۔ 1971میں جن بنگالیوں کوحقوق کے نام پرگمراہ کرکے بنگلہ دیش بنوایا ، وہی بنگلہ دیشی نصف صدی بعداپنے ساتھ ہونے والی واردات کو نہ صرف سمجھ چکے ہیں بلکہ اصل کی جانب لوٹ رہےہیں ، ان کے ساتھ جو بیتی ، آزادی کی نیل پری کے عکس سےجو چڑیلیں ان پر مسلط ہوئیں وہ انہیں بھگت چکے ، کل کا بنگلہ دیشی آج کے پاکستانیوں کے لئےسبق ہے ، اور ان بردہ فروشوں کے کرتوتوں کا اشتہاربھی ۔ ڈھاکہ سے گوادر تک طریقہ واردات ایک ہی ہے ، حقوق کی بین بجا کر محرومی کا شکار ،جذباتی اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنا اورپھر ان کی لاشوں کی تجارت کرنا ۔میڈیا میں گھسےہوئے مردار خوروں سے لے کر سیاست اور قوم پرستی کی آڑ میں کفن چور اورمردارخورماہرین کا پورا جال ہے،جوملک کی درس گاہوں سے لےکرکوچہ وبازار تک میں پھیلا ہو اہے۔ ایک دوسرےسے منسلک یہ لوگ اتنی مہارت سے لوگوں کو گمراہ کرکے اپنے جال میں پھانستے ہیں کہ قدیم ہندوستان کا امیر علی ٹھگ بھی ششدر رہ جائے ۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے پر تعیش ہوٹلوں میں اونگھتے ہوئے پائےجانے والےبوڑھے گدھ کس طرح سے گھات لگا کر بیٹھتےہیں ، میڈیا کے مداری کس طرح سے ہانکا کرکے نوجوانوں کو ان شکاریوں کی جانب دھکیلتے ہیں اوربالآخر ماہرنگ اوراس کی ساتھی خواتین ان بدگمان کئے گئے نوجوانوں کو دہشت گردوں کے کیمپوں اور وہاں سے دہشت گردی کے میدان تک پہنچاتی ہیں ، یہ تہہ در تہہ اور قدم بقدم چلتا ہوا ایک شیطانی چکر ہے ، جو بلوچستان کے نوجوانوں کو نگلتاجارہا ہے ،تشویش کی بات یہ ہے کہ ان مردار خوروں کا تازہ ہدف بنت حوا بن رہی ہے ۔ جتنی زیادہ لاشیں گرتی ہیں ، جتنے زیادہ وجود چیتھڑوں میں بدلتے ہیں ، ان کے بینک بیلنس اسی رفتار سے بڑھتے ہیں، اسلام آباد سے کراچی، لاہور اور کوئٹہ تک چیختے چلاتے، بھاگتے دوڑتے، گلا پھاڑتے ، گلاس ٹکراتے لاشوں کے ان سوداگروں کے اثاثہ جات ، مہنگے ترین علاقوں میں ان کے محلات سب کچھ بتانے کو کافی ہیں ۔
ماہرنگ اوراس کاانتشاری ٹولہ آئےروز مسنگ پرسنز کےنام پردھرنےاوراحتجاج کرتانظر آتا ہے، حقیقت یہ ہےکہ جیسے ہی کوئی نیا شکار دہشت گردتنظیموں کےکیمپوں میں منتقل کیا جاتا ہے، اس کانام مسنگ پرسنز لسٹ میں ڈال کر سیاپا شروع کردیاجاتا ہے ، جس میں خواتین کو خصوصی طور پر نمایاں کیا جاتا ہے،یہ بنیادی طور پر ایک جانب ریاست کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے تو دوسری جانب زرخرید میڈیا کے ذریعہ سے مخصوص جذباتی ماحول پیدا کرکے نوجوانوں اور خواتین کو آزادی اور حقوق کے جال میں پھانسنے اور دہشت گردی کے جہنم میں دھکیلنے کے عمل کا پہلا قدم ہے ۔ بلاشبہ خواتین خودکش بمباروں کا بڑھتا ہوا رجحان، شرم وحیا اور غیرت و حمیت کا مستحکم تصور رکھنے والے بلوچ معاشرے کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور خواتین کی توہین وتذلیل کا باعث بن رہا ہے ۔ سکیورٹی اداروں کی سخت چیکنگ کی وجہ سے مرد دہشت گردوں کی نقل وحرکت چونکہ مشکل ہورہی ہے ، اس لے یہ مردار خورخواتین کو ورغلا کر لارہے ہیں کیو نکہ صرف بلوچ ہی نہیں پاکستانی معاشرے میں خواتین کے احترام کے سبب انہیں سخت سیکورٹی جانچ پڑتال سے بچ نکلنے میں سہولت مل جاتی ہے ۔خواتین کو کم مشکوک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسندوں کے لیے بھرتی کے لیے موزوں ہدف بن جاتی ہیں۔
یہ صرف الزام نہیں ، بلکہ بلوچستان میں اب تک دہشت گردی کے اس عفریت کی نذر ہونے والی حوا زادیوں کی داستان کا جائزہ لیں منصوبہ سازوں کی عیاری ، مکاری اورارزل سوچ طشت ازبام ہوجاتی ہے ۔ پہلی خاتون خودکش بمبار، شاری بلوچ، بیس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں تھی ، جب خواب دیکھنے کی صلاحیت حقائق کی تلخیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے ، اس کے بعد جتنی بھی خواتین خودکش آئیں سب اسی عمر کی ہیں ۔ چونکہ تعلیم یافتہ بچیاں زیادہ حساس ہوتی ہیں لہٰذا یہ مردار خور ایک منظم، طریقہ واردات کے تحت انہی کو ہدف بناتے ہیں۔ ان سب کو گھیرنے کے لئے قائم کئے گئے نیٹ ورک میں میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بنیادی اہمیت رکھتے ہیں جنہیں ، ماہر اور گھاگ قسم کے لوگوں کے ذریعہ سے آپریٹ کیا جاتا ہے ۔ٹاک شوز میں محرومیوں کے مباحث سے شروع ہونے والی یہ بحث سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس اورآن لائن حربوں کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہے ۔ خوش قسمتی سے دہشت گردوں کے جال میں پھنس کر بچ رہنے والی عدیلہ کی کیس سٹڈی اس پورے نیٹ ورک کو سمجھنے میں مدد تو دے سکتی ہے ، تاکہ اس کا توڑ کیاجا سکے ۔ عدیلہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ عدیلہ بلوچ کو بی ایل اے نے اسی طرح سے آن لائن جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا، سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا، جہاں ان کے جذبات سے کھیلا گیا ۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے نوجوانوں نوجوانوں کو خواتین کو جال میں جاتا ہے

پڑھیں:

طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری

اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟

 

متعلقہ مضامین

  • پنجاب اسمبلی میں ایسڈ کنٹرول بل منظور ہو گیا
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی: 5 پاکستانی کیسے پوری ملائشین قوم کے ہیرو بنے
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  •  کپڑے دھونے تالاب پر آنے والی تین خواتین ڈوب کر جاں بحق
  • پاکستان میں عورتوں سے بدسلوکی میں اضافہ ہو رہا ہے، رپورٹ
  • سانگھڑ: تالاب میں ڈوب کر ایک ہی خاندان کی 3 خواتین جاں بحق
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار
  • کمالیہ: ڈکیتی کے دوران 2 خواتین سے اجتماعی زیادتی، مقدمہ درج
  • پاکستانی نوجوانوں کیلئےبیرون ملک روزگار کا دروازہ کھل گیا
  • اسرائیل غزہ میں صرف خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اقوام متحدہ کی تصدیق