چترال کی وادی لوٹکوہ میں یکم فروری سے 3 روزہ ’پھتک‘ تہوار کا آغاز ہوگیا ہے جو اپنی منفرد رسومات اور لذیذ پکوانوں کے لیے مشہور ہے۔

اس تہوار کے دوران وادی بھر میں ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جو یہاں کی قدیم ثقافت اور روایات کی عکاسی کرتی ہیں۔

تہوار سے پہلے ایک شخص ’پھتک‘ کی نوید لے کر ہر گاؤں میں جاتا ہے جسے ’پھتکین‘ کہا جاتا ہے اور قرآنی آیات اور دعاؤں کے ساتھ لوگوں کو مبارک باد دیتا ہے۔ ’پھتکین‘ کو گاؤں کے بچے اور بڑے مل کر خوش آمدید کہتے ہیں۔ ’پھتک‘ سے پہلے والا دن ’سمون‘ کہلاتا ہے جس میں آنے والے تہوار کی تیاری کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:کیلاش مذہبی تہوار چاؤموس، جہاں نئے سال کی پیش گوئی لومڑی کرتی ہے

اس تہوار کے آغاز پر گھروں کی خصوصی صفائی کی جاتی ہے اور چھت اور ستونوں پر آٹے سے نشان لگائے جاتے ہیں۔ ’پھتک‘ کے دن گھروں میں روایتی پکوان پکوائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضیافت کی جاتی ہے۔ اس دن سب سے پہلے گاؤں کے بزرگ ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ’پھتک‘ کی مبارک باد دیتے ہیں جبکہ اس کے بعد دوسرے ہمسایوں کا آنا جانا شروع ہوتا ہے۔

’پھتک‘ کے موقع پر آنے والے مہمانوں کو ’اشپیری‘ یعنی دودھ سے بنی کوئی ڈش پیش کرکے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر ’شوشپڑاکی‘، شوشپ‘، ’پندیر ٹیکی‘، ’شیرا شاپک‘، ’غلماندی‘ جیسے روایتی پکوان کھانے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں جو عموماً دودھ سے بنے ہوتے ہیں۔

پھتک کے موقع پر روایتی گھروں کی خصوصی صفائی ہوتی ہے اور انہیں آٹے کے نشانات لگاکر سجایا جاتا ہے

 

اس تہوار کے دوران پکنے والے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے باہر کے لوگ بھی وادی لوٹکوہ کا رخ کرتے ہیں۔

پہلے زمانے میں ’پھتک‘ کا تہوار پورے چترال میں منایا جاتا تھا اور اس دن روایتی کھیلوں کا بھی انعقاد ہوتا تھا تاہم بعد میں یہ تہوار صرف وادی لوٹکوہ تک محدود ہوگیا۔

اس قدیم تہوار کو 11ویں صدی کے مشہور فلسفی، سیاح، فارسی شاعر اور اسماعیلی مبلغ پیرناصر خسرو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کے مطابق پیر ناصر خسرو نے موجودہ افغانستان کے علاقے بدخشان سے چترال دعوت کے لیے تشریف لے آئے اور وادی لوٹکوہ میں گرم چشمہ کے مقام پر 40 روز تک چلہ کشی کی۔

یہ بھی پڑھیے:فوزیہ پروین نے روایتی اونی مصنوعات کو پھر سے زندہ کردیا

روایات کے مطابق اس چلہ کشی کا اختتام ہوا تو انہوں نے یکم فروری کو ضیافت کا اہتمام کیا اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر جشن منایا۔ تاہم دوسری روایات کے مطابق یہ تہوار چترال میں شدید سردیوں کے اختتام پر سالِ نو کے پہلے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کا ناصر خسرو سے تعلق نہیں۔ ناصر خسرو کا چترال آنا بھی تاریخی حوالوں میں ثابت نہیں ہے۔

روایتی چترالی کھانے جو پھتک پر تیار کیے جاتے ہیں

چترال اور گلگت بلتستان سمیت وسطی ایشیا کے اس خطے میں شدید سردیوں کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر اس طرح کے تہوار منانے کی روایت موجود رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں بھی ’سال غیریک‘ کے نام سے انہی دنوں تہوار منایا جاتا ہے جس میں اسی طرح کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔

چترال کی وادی لوٹکوہ میں منائے جانے والا ’پھتک‘ کئی حوالوں سے چین میں نئے سال کی تقریبات سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ چینی سالِ نو کا تہوار بھی انہی دنوں منایا جاتا ہے، اس میں بھی پھتک کی طرح گھروں کی صفائی کی جاتی ہے، چھتوں اور ستونوں پر نشانات لگاکر انہیں سجایا جاتا ہے اور روایتی پکوان پکا کر ایک دوسرے کی دعوت کی جاتی ہے۔

پھتک کے دن وادی سے سینکڑوں کی تعداد میں مرد اور خواتین گرم چشمہ میں ناصر خسرو سے منسوب ایک زیارت گاہ پر جمع ہوتے ہیں

تاہم، تاریخی حوالوں سے قطع نظر ’پھتک‘ چترال میں منایا جانے والا ایک اہم تہوار ہے جو نہ صرف علاقے کے ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ لوگوں کو مل بیٹھنے، خوشیاں منانے اور نئے سال کا نیک تمناؤں کے ساتھ استقبال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

chitral custom Food new year phatak پھتک تہوار چترال.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تہوار چترال کی جاتی ہے چترال میں جاتے ہیں نے والے جاتا ہے کے ساتھ نئے سال ہے اور کے لیے

پڑھیں:

حاجی کیمپ کے اردگرد تجاوزات کی بھرمار، روڈ بند، ٹریفک جام معمول 

لاہور (رپورٹ: محمد علی جٹ سے) تحصیل شالیمار کے علاقہ حاجی کیمپ کے گردو نواح میں تجاوزات مافیا قابض، اسسٹنٹ کمشنر شالیمار کی کاوشوں کے باوجود کرپٹ ملازمین کی سرپرستی میں حاجی کیمپ سٹیشن کے قریب روڈ سکڑ کر نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ تفصیلات کے مطابق ڈی سی لاہور سید موسیٰ رضا کی واضح ہدایات کے باوجود شہر کی اہم روڈ ریلوے ہیڈ کوارٹر سے لے کر حاجی کیمپ کے چو ک اور اورنج لائن سٹیشن کے اردگر د تجاوزات کو کنٹرو ل کرنا ناممکن نظر آنے لگا۔ دونو ں اطراف غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز اور ریڑھی بانوں نے قبضہ جمارکھاہے جس سے ٹریفک جام معمول بن چکا ہے اے سی شالیمار کی جانب سے متعدد اپریشن بھی کیے جا چکے ہیں جو کہ صرف وقتی آپریشن ہوتے ہیں جسکے کچھ دیر بعد چند سرکاری ملازمین اور تجاوزات مافیا کی ملی بھگت سے دوبارہ تجاوزات قائم ہو جاتی ہیں، جس کے لیے ان راشی ملازمین کی روزانہ کی بنیاد پر جیب بھی گرم کی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق فی ریڑھی روزانہ 200 روپے اور مستقل اڈہ لگانے کے روزانہ 300 روپے وصول  کئے جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پہلے اور منفرد انوائرمنٹ پروٹیکشن اسکواڈ کا آغاز کر دیا
  • وادیٔ کوئٹہ میں موسم خشک اور معتدل
  • خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں میں گلیشیئر پھٹنے کا خدشہ، پی ڈی ایم اے کا الرٹ جاری
  • وادی کشمیر کے ضلع کرگل میں نیو مطہری ماڈل پبلک اسکول کا افتتاح
  • وادی کشمیر میں "وقف ایکٹ نامنظور" کے نعروں کی گونج، مودی حکومت کے خلاف آواز بلند
  • پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز کے آصف آفریدی نے منفرد ریکارڈ پر نظریں جما لیں
  • گوردوارہ جنم استھان، بیساکھی میلہ کی تقریب، آتشبازی، مذہبی رسومات ادا
  • حاجی کیمپ کے اردگرد تجاوزات کی بھرمار، روڈ بند، ٹریفک جام معمول 
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا ’اپنی چھت، اپنا گھر پروگرام‘مختصر مدت میں منفرد ریکارڈ
  • دنیا امریکا پر آ کر ختم نہیں ہو جاتی، وکٹر گاؤ